Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, March 15, 2025

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

حکمران جماعت اور اپوزیشن کے سیاسی محاذ

صوبائی حکمران جماعت گرینڈاپوزیشن الائنس بنانے کیلئے دوڑدھوپ میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان سے امیدیں وابستہ کی گئی ہیں کہ وہ اپوزیشن اتحادمیں شامل ہوکراحتجاجی تحریک کی قیادت کرینگے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی آرزوئیں پوری ہوکر عمران خان کی رہائی سمیت وفاقی حکومت کی رخصتی بھی عمل میں آجائیگی۔ حکمران جماعت گزشتہ ایک برس کے دوران متعدد بار اسلام آباد اور پنجاب پر چڑھائی کی ناکام کوششیں کرچکی ہے ان کوششوں سے عمران خان کی رہائی عمل میں آسکی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑ سکا ہے بلکہ اسکے نتیجے میں پارٹی کارکنوں کا مورال گر چکا ہے۔ کوئی واضح سیاسی لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث پارٹی تقریباً تتر بتر ہوچکی ہے کوئی دھڑا وزیراعلیٰ کی رخصتی کیلئے کوشاں ہے تو کوئی انہیں بچانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ پارٹی کے کسی فورم سے اب علی امین کیلئے خیر سگالی جذبات کا اظہار مفقود ہوچکا ہے۔ ایک جانب پارٹی کے اعلیٰ سطحی وفود مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں اور اتحاد کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب وزیراعلیٰ نے مولانا کو آڑے ہاتھوں لے کر انکے خلاف دل کی بھڑاس نکال لی ہے۔ ان اقوال و افعال سے واضح ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی مربوط سیاسی لائحہ عمل موجود نہیں۔

پشاور میں تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش

گزشتہ ہفتے پارٹی کے پشاور سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ، سینیئر رہنماؤں اور تنظیمی عہدیداروں پر مشتمل کانفرنس منعقد کی گئی جس کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پشاور تحریک انصاف کا گڑھ ہے مگر اسکی ترقی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، یہاں کے ارکان پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے سے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، پشاور کو صوبائی دارالحکومت کی حیثیت سے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا ہم پلہ ہونا چاہئے، عوام نے مسلسل تیسری مرتبہ بھاری مینڈیٹ سے نوازا ہے مگر حکومت کے بارے میں ارکان پارلیمنٹ اور عوام کی رائے مایوس کن ہے، اس کانفرنس کا مقصد صوبائی حکومت سے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کا مطالبہ کرنا تھا۔ اداروں کے بورڈز آف گورنرز اور دیگر اعزازی عہدوں پر من پسند تقرریاں ہو رہی ہیں، کانفرنس کے اعلامئے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دی گئی تھی۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹرینز کے کانفرنس کا اصل مقصد یہ تھا کہ انکے خیال میں وزیر اعلیٰ پشاور اور دیگر اضلاع کے فنڈز ڈی آئی خان میں خرچ کر رہے ہیں۔ مذکورہ کانفرنس وزیراعلیٰ پر دباؤ بڑھانے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔ عمران خان اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی ارکان صوبائی اسمبلی نے پشاور ہائیکورٹ کے سامنے احتجاج کیا۔ ارکان اسمبلی نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے اور سینیٹ انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔ احتجاج کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میں صوبائی اسمبلی کے تمام ارکان شریک ہوں گے، مگر اسمبلی سے ہائیکورٹ تک بمشکل 50 میٹر کے “لانگ مارچ” میں دوچار وزرا اور آٹھ دس ارکان اسمبلی نے شرکت کی۔ حالانکہ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 90 سے زیادہ ہے، اس طرح خیبرپختونخوا سے 35 ممبران قومی اسمبلی ہیں، 16 وزرا، 12 معاونین خصوصی اور چار مشیروں میں سے جس تعداد نے شرکت کی اس سے سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بہرحال مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر عمران خان اور بشریٰ کی رہائی کے حوالے سے نعرے درج تھے۔ صوبائی وزیر تعلیم مینا خان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بانی اور انکی اہلیہ کو رہا کیا جائے، سینیٹ انتخابات اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو عید کے بعد ہم سڑکوں پر ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمان کی سیاسی سرگرمیاں اور موقف

مولانا فضل الرحمان ایک جانب تو پی ٹی آئی کو انگیج رکھے ہوئے ہیں، دوسری جانب وہ عمرہ کی ادائیگی سے وطن واپسی پر جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ آئے اور مولانا حامد الحق کی شہادت پر لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے دہشت گردوں کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا کہ “عالم دین کے خلاف بندوق اٹھانا جہاد نہیں، تنگ نظری اور دہشت گردی ہے، تم مجاہد نہیں مجرم اور قاتل ہو”، ابھی مولانا سمیع الحق کا غم تازہ تھا کہ انکے فرزند کو بھی شہید کر دیا گیا، دارالعلوم حقانیہ کے درودیوار غمزدہ نظر آ رہے ہیں، اس حملے کا دکھ اپنے دل کے قریب محسوس کیا۔ حامد الحق ایک بے ضرر انسان تھے، کسی مسلمان کی زندگی سے کھیلنے کو جہاد یا اسلام نہیں قرار دیا جا سکتا، کوئی بندوق کسی عالم دین کے خلاف کیوں استعمال کی جا سکتی ہے؟ مساجد میں ذکر و اذکار اور عبادات کے وقت انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں، یہ لوگ مساجد اور علماء کو نشانہ بنا کر جنت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مولانا حسن جان اور حامد الحق کے قاتل مجاہد نہیں، مجرم ہیں۔

پرویز خٹک کی سیاسی تعلقات اور شمولیت

پرویز خٹک نے وفاقی مشیر داخلہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی جس سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ انکے بھائی لیاقت خٹک اور بھتیجے احد خٹک پہلے ہی جے یو آئی کا حصہ ہیں۔ جے یو آئی کی مقامی قیادت اور عہدیداروں نے پرویز خٹک کی شمولیت پر تحفظات بھی ظاہر کئے مگر وہ اچانک وزیراعظم کے مشیر بن گئے۔ جس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ پرویز خٹک نے مولانا کو “سجی دکھا کر کبھی ماری” ہے۔ پرویز خٹک اور انکے بھائی لیاقت خٹک کے درمیان گزشتہ چار برس سے شدید اختلافات تھے جن کے راضی نامے کے طور پر ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں کارکنوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی، جو لیاقت خٹک، انکے فرزند احد خٹک اور پرویز خٹک کے اپنے کارکن تھے۔ پرویز خٹک گزشتہ عام انتخابات تک اپنی پارٹی تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے چیئرمین تھے مگر یہ پارٹی اب سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے سپرد ہو چکی ہے۔

وفاقی حکمران جماعتوں کی خیبرپختونخوا کی صورتحال پر تشویش

وفاقی حکمران جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا مشترکہ اجلاس اسلام آباد میں گورنر فیصل کریم کنڈی کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں خیبرپختونخوا کی مجموعی صورتحال پر مشاورت کی گئی۔ بلاول بھٹو اور وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر منعقدہ اجلاس میں خیبرپختونخوا کی بد امنی، معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس نے صوبے میں پائیدار امن سمیت ترقی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اور جدوجہد پر اتفاق کیا، ساتھ ہی صوبے کے معروضی حالات پر ہم خیال جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بدامنی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی مجرمانہ خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف خط لکھنے کا فیصلہ

عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جاری دہشت گردی، پختونوں کی نسل کشی اور بدامنی پر صدر مملکت کو کھلا خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان اے این پی کے مطابق خط میں صدر مملکت کو دونوں صوبوں میں پختونوں اور بلوچوں کی نسل کشی، بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں اور پس پردہ عوامل سے آگاہ کیا جائے گا۔ پاکستان بھر میں دہشت گردی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھنے کی بجائے نظرانداز کیا جا رہا ہے جو قومی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ دہشت گردی کے یک نکاتی ایجنڈے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے سدباب کیلئے حکمت عملی وضع کی جائے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ تمام مکاتب فکر کو اس سنگین مسئلے کے خلاف اعتماد میں لیا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket