وصال محمد خان
ہرذی شعورشخص جانتاہے کہ جمہوری نظام سے قبل دنیامیں پرامن انتقال ِ اقتدارایک خواب بن کررہ گیاتھابادشاہ کے بیٹے ایک دوسرے کوقتل کرکے تخت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ،یاپھراقتدارکے سنگھاسن تک پہنچ کراپنے بھائیوں اوربیٹوں تک کوقتل کردیاجاتاتھا،اس طرح بیٹے باپ کوبھی قتل کرنے سے دریغ نہ کرتے، قتل وغارتگری کایہ سلسلہ اگرچہ انتقال اقتدارتک محدودنہیں تھاایک دوسرے کی زمین پرقبضے کیلئے بھی کشت وخون کابازارگرم کرنامعمول تھا۔دنیابتدریج متمدن ہوتی گئی اورحضرت انسان اپنی زندگی میں جدت لاتاگیاانتقال اقتدارکیلئے بھی پرامن طریقے ڈھونڈھناضروری تھا انہی طریقوں میں جمہوریت کوپرامن انتقال اقتدارکیلئے بہترین طریقہ پایاگیااس طریقے سے اگرچہ کشت وخون میں کچھ کمی واقع ہوگئی اورترقی یافتہ دنیانے اسی طریقے سے نہ صرف پرامن انتقال اقتدارکاراستہ اپنایابلکہ اسی کے طفیل بے پناہ ترقی بھی کی اگرچہ جمہوریت کے ذریعے پرامن انتقال اقتدارکاراستہ تومل گیامگراس سے نااہل افرادکااقتدارتک پہنچنے کاراستہ بھی ہموارہوا جس کی ایک مثال پاکستان کی جمہوریت ہے پاکستان میں اگرچہ جمہوریت کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں مگریہاں اکثروبیشتران لوگوں کواقتدار تک رسائی ملی جواسکے اہل نہیں تھے ۔ہماری پچھترسالہ ماضی کی تاریخ زیادہ تابناک نہیں یہاں جمہوریت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی تب ہی توجب بھی کسی ڈکٹیٹرنے اقتدارپرقبضہ کیاعوام نے انہیں خوش آمدیدکہامگرڈکٹیٹروں کی بھی مجبوری تھی یاکوتاہ فہمی کہ انہوں نے بھی انہی سیاستدانوں کوساتھ ملاکرحکومت کرنابہترسمجھا۔یعنی وطن عزیزپاکستان میں جمہوریت رہی یاڈکٹیٹرشپ یہی سیاستدان سیاہ و سفیدکے مالک رہے یہاں سیاستدانوں کے پاس کوئی نظریہ ہے اورنہ ہی تدبرودانش انہیں چھوکرگزری ہے ۔ان کامطمح نظراقتدارہوتاہے بعض سیاستدان ہمیشہ حکومتی پارٹی میں ہی رہتے ہیں حکومتی پارٹی بدل جاتی ہے تووہ اسی کے ‘‘قائدین وراہنما’’بن جاتے ہیں۔ ہرجماعت اقتدارکی حصول کیلئے تارے توڑکرلانے کے وعدے کرتی ہے اورجب اقتدارتک رسائی مل جاتی ہے تووہ سابقہ حکومتوں کوتمام کوتاہیوں کا کاذمہ دارقراردیکربزعم خودبرالذمہ ہوجاتی ہے۔ حالیہ عرصے میں عمران خان نامی سابق کرکٹرکوخوشنماوعدوں اوردلفریب نعروں کے طفیل اقتدارتک رسائی نصیب ہوئی مگراقتدارمیں آکرانہوں نے جمہوریت کی جس طرح بیخ کنی کی اوراس کاگلاگھونٹااسکی مثال پاکستانی تاریخ میں ملنامشکل ہے۔ جمہوریت کیلئے ضروری ہوتاہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندربھی جمہوریت لاگوکریں جوپاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتو ں میں مفقودہے یہاں ہرسیاسی جماعت کسی ایک لیڈریا خاندان کی لمیٹڈکمپنی کاروپ دھارچکی ہے۔عمران خان نے پاکستانی تاریخ میں جمہوریت اورعوامی حقوق کے سب سے زیادہ راگ الاپے مگرقابل افسوس امر ہے کہ اسکی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اندرجمہور یت نامی کوئی چیزموجودنہیں جوخودکوجمہوریت کاچیمپئین سمجھتے ہیں وہ بذات ِخودستائیس برس سے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں اوریہاں کی روایت کے مطابق کارکنوں نے بھی یک رکنی جمہوریت قبول کرلی ہے تحریک انصاف نے گزشتہ ستائیس برس میں صرف ایک مرتبہ یعنی2012ء میں انٹراپارٹی انتخابات منعقدکئے جس کی شفافیت پر اسکے اپنے کارکنوں اورراہنماؤں نے سوالات اٹھاکر خریدو فروخت کے الزامات لگائے پرویزخٹک جو صوبائی صدارت کے امیدوارتھے انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر الزام لگایاکہ انہیں ہرانے کیلئے اعظم سواتی نے پیسے کااستعمال کیااورشواہدسے بھی تصدیق ہوئی کہ ان کاالزام درست تھاپیسے کے ذریعے اپنی شکست کے خلاف پرویزخٹک نے عمران خان کے سامنے احتجاج کیاتوانہیں جنرل سیکرٹری کی نشست دیکرمنالیاگیا یہ نشست کسی انتخاب کے نتیجے میں نہیں بلکہ عمران خان نے ازخودعطافرمادی ۔عمران خان بذات ِخودستائیس برس سے پارٹی کے چیئرمین بنے بیٹھے ہیں وہ ہرسال دوسال بعدعہدیداررتبدیل کر کے الیکشن کمیشن کوانٹراپارٹی انتخابات کی رسیدیں پیش کردیتے ہیں اورالیکشن کمیشن آنکھیں بندکرکے اس پریقین کرلیتاہے۔ 2021ء میں عمران خان نے حسب سابق تمام صوبائی صدوراورعہدیدارسلیکٹ کرکے اسے انٹراپارٹی انتخابات کانام دیا۔ جس پراعتراضات اٹھے تو الیکشن کمیشن نے انہیں دوبارہ انتخابات کے انعقادکیلئے بیس دن کاوقت دیا اس دوران عمران خان نے جیل سے ایک وکیل کونامزدکیاجنہیں سربراہ بنادیاگیا۔وہ گزشتہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرانتخابات میں حصہ لے چکے ہیں یعنی ستائیس سال سے پارٹی کاساتھ نبھانے والے کسی فردکواس قابل نہیں سمجھاگیاجسے سربراہی سونپی جاسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی کے پاس جمہوریت پسند اوردانش مند لوگ موجودہیں مگرانہیں موقع تب میسرآئے گاجب پارٹی سربراہ کے پاس بھی یہ چیزیں موجودہوں ان نام نہاد انتخابات کوالیکشن کمیشن نے مستردکیااورتحریک انصاف سے اس کانشان چھین لیاگیا اگرچہ عمران خان نے ایک وکیل کوپارٹی سربراہی اسی لئے سونپی ہے کہ وہ مفت میں پارٹی کیلئے قانونی جنگ لڑسکیں اس بات کے امکانات موجودہیں کہ سپریم کورٹ یاکوئی ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کافیصلہ کالعدم قراردے مگراس سے یہ ثابت نہیں ہوگاکہ تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات قابل اعتمادتھے ۔ عدالت عالیہ اگر انتخابی نشان واپس کرتی ہے تویہ صرف اسلئے ہوگاکہ وہ لیول پلینگ فیلڈکاروناروکرعدلیہ سے رجوع کرے گی ۔آج عدلیہ کے کاندھوں پربھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کومحض لیول پلینگ فیلڈکیلئے ریلیف نہ دے بلکہ الیکشن کمیشن کواحکامات جاری کردے کہ جس طرح تحریک انصاف کوانتخابی نشان سے محروم کیاگیاہے اسی طرح جس جماعت کے اندرجمہوریت موجودنہیں اورکارکنوں کوبھیڑبکریاں سمجھ لیاگیاہے ان تمام جماعتوں کے انتخابی نشانات چھین لئے جائیں ملک میں جمہوریت تب مضبوط ہوگی جب متعلقہ ادارے پسندوناپسندکی بجائے میرٹ اورقانون کی عملداری کانفاذ کریں گے اگرلیول پلینگ فیلڈکی آڑمیں آج ایک جماعت کوفیوردیا جاتاہے توکل دوسری جماعت بھی اسی فیورکیلئے بے تاب ہوگی۔ اوراگراسے فیورنہیں ملے گی تو عدلیہ پرجانبداری اورغیرآئینی فیصلوں کے الزامات لگتے رہیں گے، یہاں شخصیات آمرانہ رویئے اختیارکرتے رہیں گے اورہم جعلی جمہوریت کواصلی سمجھ کراسکا راگ الاپتے رہیں گے ۔