حملوں کی نئی لہر، پاکستان کی حکمت عملی اور افغان حکومت کی مجبوریاں

اس خدشے کا سب حلقوں کو اندازہ اور ادراک تھا کہ نیٹو اور امریکی انخلاء کے بعد خطے میں بعض شدت پسند گروپ اس کے باوجود اپنی سرگرمیوں اور حملوں میں اضافہ کریں گے کہ افغانستان کی عبوری حکومت پاکستان کو دوست سمجھتی ہے اور اس بات کی کئی بار یقین دہانی کرا چکی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے نہیں دی جائے گی مگر مسائل بہرحال موجود ہیں۔
سال 2020 کے دوران دو طرفہ حملوں اور کارروائیوں میں اضافہ اسی پس منظر میں غیرمتوقع نہیں ہے تاہم پاکستان نے حالیہ حملوں خصوصاً سرحد پار سے ضلع کرم پر کرائے گئے حملے پر سخت تشویش کا اظہار کر کے افغان حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حملے میں دس جوان شہید ہوگئے ہیں جبکہ اس دوران ٹی ٹی پی کے ترجمان نے بعض دیگر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہیں جو کہ غیر متوقع ہرگز نہیں ہے۔

 

پاکستان کے دو صوبے حالیہ حملوں کے نشانے پر ہیں۔ ٹی ٹی پی صوبہ خیبرپختونخوا کو نشانہ بنا رہی ہے جبکہ بلوچ حملہ آور بلوچستان میں فورسز پر حملے کرتے آرہے ہیں۔ بلوچستان میں کرائے گئے حملوں کا بھرپور جواب دیا گیا اور مسلسل کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں بھی مختلف علاقوں میں نہ صرف فوجی کارروائیاں کسی وقفے کے بغیر جاری ہیں بلکہ اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے افغان حکومت کے علاوہ قبائلی مشران سے رابطہ کاری سمیت دیگر سیاسی اور انتظامی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں جس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہورہے ہیں۔

جہاں تک افغان عبوری حکومت سے وابستہ توقعات کا تعلق ہے اس پر زیادہ اصرار اور تکرار اس لئے مناسب نہیں ہے کہ ایک تو اس حکومت کو بعض دوسرے مسائل کے علاوہ داعش اور بعض دیگر کے چیلنج کا سامنا ہے اور دوسرا یہ کہ ان کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی پر زیادہ زور ڈالتی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہارڈکور فائٹرز ردعمل کے طور پر داعش القاعدہ یا وسطی ایشیائی گروپس کو جوائن نہ کرے جن کے بارے میں عالمی رپورٹ ہے کہ وہ بوجوہ پھر سے بعض عالمی قوتوں کی آشیر باد سے منظم ہورہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عبوری افغان حکومت ان خدشات سے پاکستان کو آگاہ کر چکے ہیں اور یہ یقین دہانی بھی کراچکی ہے کہ پاکستان کے خدشات اور مطالبات کا عملی نوٹس لیا جائے گا۔
پاکستان کی فورسز نہ صرف مسلسل قربانیاں دے رہی ہیں بلکہ ہفتہ رفتہ کے دوران اہم کمانڈروں سمیت درجنوں حملہ آوروں کو ٹھکانے بھی لگا چکی ہیں۔ اس لئے توقع کی جارہی ہے کہ بہت جلد ان کاروائیوں کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔ دوسری طرف حکومت نے بعض مطلوب کمانڈروں کے سروں کی قیمت اور تعاون پر مبنی اشتہار بھی جاری کیا ہے تاکہ ان کی نشاندہی کی جا سکے۔ اس تمام صورت حال سے نمٹنے کے لئے اقدامات جاری ہیں اس لئے سیاسی قوتوں مشران اور عوام کو حکومت خصوصاً فورسز کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سب ان کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket