Attacks on security forces on waziristan

وزیرستان میں فورسز پر حملے

وزیرستان میں فورسز پر حملے
عقیل یوسفزئی
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دو مختلف دہشت گرد حملوں میں کیپٹن سمیت پاک فوج اور ایف سی کے 5 اہلکار شہید جبکہ 10 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ فورسز کو آئی ڈیز حملوں کے ذریعے ان کی نقل وحرکت کے دوران نشانہ بنایا گیا ۔ سیکیورٹی فورسز نے ان حملوں کے بعد علاقے میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن شروع کردیا ہے۔ شہداء میں کیپٹن اسامہ بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے مجوزہ ” عزم استحکام ” کے خلاف مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ مظاہرین امن ریلیوں کے نام پر اس مجوزہ آپریشن کی مخالفت کررہے ہیں حالانکہ حکومت اور ملٹری حکام کی جانب سے بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ نہ تو ماضی کی طرح کوئی آپریشن زیر غور ہے اور نا ہی کسی مجوزہ کارروائی کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں کے عوام کو بے دخل یا بے گھر کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلسل حملوں اور کارروائیوں کے باوجود اگر فورسز کارروائیاں نہیں کرتیں تو اس صورتحال سے نمٹنے اور نکلنے کا متبادل راستہ کیا ہے؟
ماہ جون میں صرف خیبرپختونخوا کے 9 اضلاع میں تقریباً 21 دہشت گرد حملے کئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں 19 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 28 افراد شہید ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب اسی مہینے میں فورسز کی پانچ کارروائیوں کے نتیجے میں 17 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھانا فطری بات ہے کہ جاری لہر کا راستہ کیسے روکا جائے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس صورتحال پر نہ صرف یہ کہ تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ انہوں نے ایک مخصوص پارٹی اور خیبرپختونخوا میں اس پارٹی کی صوبائی حکومت کو بھی اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے اور واضح موقف اپنایا ہے کہ جان بوجھ کر صوبے اور ملک کے سیکورٹی ، سیاسی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دوسری جانب ممتاز صحافی ناصر داوڑ نے ” ایف ایم سنو پختونخوا ” کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے عمران خان دور حکومت کے مذاکراتی عمل کے دوران خود کو نہ صرف یہ کہ دوبارہ منظم اور فعال کیا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جنگجو خیبرپختونخوا منتقل کیے جس کے نتیجے میں حملوں کی تعداد بڑھتی گئی اور داعش خراسان بھی بعض علاقوں میں کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔
ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر گلزار جلال کے مطابق افغانستان کی موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور رائے عامہ ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ پڑوسی ملک پاکستان کی سیکورٹی صورتحال کے مزید خراب کرنے کےلئے مسلسل استعمال ہورہا ہے۔ ان کے بقول اس صورتحال پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی اس لیے لازمی ہے کہ قومی اتفاق رائے سے شدت پسندی اور دہشت گردی کا راستہ روکنے کے تمام ذرائع استعمال کئے جائیں۔

Bajaur Blast damadola

باجوڑ دہشت گرد واقعہ اور فورسز کی کارروائی

باجوڑ دہشت گرد واقعہ اور فورسز کی کارروائی
عقیل یوسفزئی
باجوڑ میں سابق سینیٹر اور علاقے کی اہم شخصیت ہدایت اللہ خان کو چار دیگر ساتھیوں سمیت بم کا نشانہ بنانے کے افسوسناک واقعے نے سیاسی اور عوامی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرے کے ہر حلقے کی جانب سے اس حملے کی مذمت کی جارہی ہے ۔ وہ سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ خان کے بھائی تھے اور اپنے بھتیجے کی الیکشن مہم میں حصہ لینے میں مصروف تھے کہ ان کی گاڑی کو اڑایا گیا ۔ اس سے قبل اسی علاقے کے ایک نوجوان امیدوار ریحان زیب خان کو بھی الیکشن کمپین کے دوران ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا تھا جبکہ جے یو آئی کے ایک ورکر کنونشن کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں درجنوں کارکنوں کی شہادتیں واقع ہوئی تھیں ۔
باجوڑ گزشتہ دو تین برسوں سے اس قسم کے حملوں کی زد میں ہے اور ان حملوں کے پیچھے داعش خراسان کا ہاتھ ہے جس کی جڑیں مقامی سطح پر اس بیلٹ میں کافی عرصے سے موجود ہیں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فورسز وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتی رہی ہیں تاہم علاقے کے مخصوص جغرافیائی پیچیدگیوں کے باعث حملہ آوروں کی بیخ کنی فورسز کے لیے ایک مشکل ٹاسک ثابت ہورہا ہے ۔ گزشتہ روز بھی ایک انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران ایک مشہور کمانڈر عرفان اللّٰہ عرف عدنان کو موت کی گھاٹ اتارا گیا ہے ۔
سینیٹر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے خلاف مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں نے ایک پرامن احتجاج بھی کیا ۔ مقررین نے علاقے میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے موثر کاروائیوں کا مطالبہ کیا تاہم اس ضمن میں بھی ایک سوال بار بار سر اٹھاتا نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں ریاست کے ساتھ کھڑی ہونے سے ہچکچانے کی پالیسی پر کیوں عمل پیرا ہیں ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ ماضی کے مسلسل حملوں اور ایسے واقعات کے تناظر میں جاری الیکشن کمپین کے دوران مقامی انتظامیہ نے ایسے افراد کی خصوصی سیکورٹی پر توجہ کیوں نہیں دی کیونکہ مقتول سمیت متعدد دیگر رہنماؤں کے ایسے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ان کو سیکورٹی تھریٹس کا سامنا ہے ۔ اگر چہ اس نوعیت کے حملوں کو ناکام بنانا کافی مشکل کام ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تقریباً 5 بار سیکورٹی فورسز کو مختلف شورش زدہ علاقوں میں ایسے ہی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اس کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ اہم قائدین کے ساتھ صوبائی اور ضلعی حکام کی کوآرڈی نیشن کو موثر بنایا جائے اور اس ضمن میں ایک مربوط حکمت عملی اختیار کی جائے ۔
اس بات کی ضرورت پھر سے محسوس کی جانے لگی ہے کہ اپیکس کمیٹی کی جانب سے عزم استحکام سے متعلق فیصلوں کو سیاسی مینڈیٹ دینے پر توجہ دی جائے اور قومی سطح پر فورسز کی پشت پناہی کرتے ہوئے درپیش چیلنجز سے نمٹا جائے ۔ محض الزامات در الزامات اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے بات نہیں بنے گی بلکہ سب ریاستی اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا ۔

CIA officer's revelations about terrorism in Pakistan

پاکستان میں دہشتگردی سے متعلق سی آئی اے آفیسر کے انکشافات

عقیل یوسفزئی

امریکی سی آئی اے کی سابق ٹارگٹنگ آفیسر ، سینئر کنسلٹنٹ اور ”  بن غازی” نامی مشہور کتاب کی مصنفہ سارہ آدم نے ایک تفصیلی انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے علاوہ اس کو تقسیم کرنے اور یہاں شورشیں ، بغاوتیں پیدا کرنے کیلئے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے علاوہ القاعدہ  کو بھی فنڈنگ کرکے خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور کشمیر میں دہشتگردی کرارہا ہے اور بھارت مختلف فریقین کے ساتھ مل کر پشتونستان نامی پراجیکٹ پر بھی کام کررہا ہے تاکہ پاکستان کو کمزور کرتے ہوئے عدم استحکام اور بدامنی سے دوچار کیا جاسکے ۔

اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ  بھارت نے کچھ عرصہ قبل افغانستان کی عبوری حکومت کے اہم عہدے دار ملا یعقوب کے بھائی داؤد کو اس مقصد کے لیے 10 ملین ڈالرز دیے جس کے انکشاف پر ان سمیت متعدد دیگر کو بھی حیرت ہوئی تاہم جب پتہ چلایا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ رقم پاکستان کے خلاف سرگرم عمل بعض جہادی تنظیموں کی فنڈنگ کے لیے دی گئی ہے جن میں ٹی ٹی پی اور القاعدہ بھی شامل ہیں اور یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے ۔

سارہ آدم کے بقول بھارت پاکستان کے تین اہم اکائیوں خیبرپختونخوا ، بلوچستان اور کشمیر میں دہشتگردی کرانے اور بغاوتیں برپا کرنے میں مصروف عمل ہے اور وہ دیگر کے علاوہ سکھوں اور کشمیریوں سمیت بعض دیگر کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ القاعدہ اور داعش کو ایک پلاننگ کے تحت شام اور عراق سے افغانستان اور پاکستان منتقل کیا گیا تاکہ اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے اور ایسے گرپوں کی سرپرستی اور فنڈنگ میں بعض دیگر کے علاوہ بھارت بھی شامل ہے ۔ ان کے بقول بھارت پاکستان کے قبائلی علاقوں ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں پشتونستان نامی منصوبے پر بھی کام کررہا ہے اور اس کے افغان عبوری حکومت ، امارت اسلامیہ کے بعض اہم لیڈرز اور عہدے داروں کے ساتھ بھی نہ صرف یہ کہ قریبی روابط ہیں بلکہ وہ ملا یعقوب کے ایک بھائی داؤد کے ذریعے اپنے پاکستان مخالف مقاصد کی حصول کے لیے ان کو فنڈنگ بھی کرتا آرہا ہے جو کہ حیرت کی بات ہے ۔

سارہ آدم نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں مذہب اور علاقائیت کی بنیاد پر عدم استحکام اور بدامنی کے علاوہ شورشیں اور بغاوتیں بڑھانے کی مختلف اقدامات اور کوششوں کو فروغ دیا جارہا ہے اور جن علاقوں میں اس نوعیت کی کوششیں ہورہی ہیں ان میں خیبرپختونخوا ، بلوچستان اور کشمیر شامل ہیں اور ان تمام کوششوں کو بھارت کی سرپرستی اور فنڈنگ کو بنیادی حیثیت اور اہمیت حاصل ہے ۔

اس انٹرویو کے انکشافات اور مندرجات کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس سے پاکستان کو درپیش چیلنجز اور خطے میں جاری کشیدگی کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ سارہ آدم ماضی میں سی آئی اے کے تین چار مختلف اہم شعبوں میں خدمات سر انجام دیتی رہی ہیں اور ان کو ان کی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر دو اہم ایوارڈز بھی دیے جاچکے ہیں ۔ دنیا بھر کے میڈیا نیٹ ورکس ، سفارتی حلقوں اور انٹلیجنس اداروں میں ان کی آرا ، انٹرویوز اور آرٹیکلز کو  معتبر سمجھ کر بہت سنجیدہ لیا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں ان کے حالیہ انٹرویو اور انکشافات کو نہ صرف یہ کہ پاکستان کے متعلقہ اداروں اور سیاسی حلقوں کو بہت سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے بلکہ پاکستان کی دفتر خارجہ اور سفارتی مشنوں کو بھی ان انکشافات کو بنیاد بناکر اپنا مقدمہ آز سر نو تشکیل دینے اور پیش کرنے پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی کیونکہ انکشافات پر مبنی ان کے انٹرویو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کو کشیدگی کے علاوہ دہشت گردی کی جس لہر کا سامنا ہے یہ مقامی نہیں بلکہ اس کے پیچھے بعض اہم طاقتوں ، پراکسیز اور مافیاز کے ہاتھ بھی پوری شدت اور پورے اہتمام کے ساتھ موجود ہیں ۔

Strange behavior of opposition parties

اپوزیشن جماعتوں کا عجیب طرزِ عمل

اپوزیشن جماعتوں کا عجیب طرزِ عمل
عقیل یوسفزئی
پاکستان کی بعض پارٹیاں نہ صرف یہ کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد انتقامی سیاست اور مخالفت برائے مخالفت کے طرزِ عمل پر چل پڑی ہیں بلکہ یہ سیکورٹی کی سنگین صورتحال پر ریاست کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے حقائق کی بجائے مختلف قسم کے الزامات کا سہارا لیکر یہ بیانیہ لیکر آگے بڑھ رہی ہیں کہ گویا اس سلسلے میں پاکستان میں جو کچھ ہونے جارہاہے یہ امریکہ یا چین کے کہنے پر ہورہا ہے۔ یہ بہت عجیب مخمصہ ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے اعلان کے بعد بعض پارٹیاں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ یہ امریکہ کے کہنے پر ہونے جارہاہے تو بعض اس کو چینی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں ۔ مذکورہ دونوں ممالک کے مفادات نہ صرف ایک دوسرے سے متصادم ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کو کاؤنٹر کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں تاہم یہ کوئی نئی کہہ رہا کہ چونکہ پاکستان کو بدترین نوعیت کے حملوں کا سامنا ہے اور حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں اس لیے پاکستانی ریاست یہ اقدامات خود اٹھانے لگی ہیں اور یہ کہ یہ پاکستان کے اپنے اقدامات ہیں۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی کے اپنے خطاب کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ پاکستان افغانستان پر حملہ کرنے جارہاہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوں گے اور مذاکرات کے راستے بند ہوجائیں گے۔ مولانا نے شاید وزیر دفاع خواجہ آصف کے ایک انٹرویو کو بنیاد بنا کر یہ بات کہی ہے تاہم وزیر دفاع نے یہ کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی اور افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے معاملے پر تعاون نہیں کیا تو پاکستان وہاں موجود ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوگا جو کہ پاکستان متعدد بار کر بھی چکا ہے۔ جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے وہ عمران خان کی حکومت کئی مہینوں تک کرتی رہی ہے اور اسی کے نتیجے میں حملوں کی تعداد اور شدت بڑھ گئی ہے۔ مولانا بھی اس ضمن میں افغان طالبان کو قائل کرنے کے لیے الیکشن سے چند روز قبل افغانستان گئے ہوئے تھے۔ ان کے اس دورے کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ ان کے دورہ افغانستان کے دوران باجوڑ میں ان کے دو عہدیداروں پر حملے کئے گئے اور الیکشن سے ایک روز قبل بلوچستان میں ان کے انتخابی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ ایسی ہی صورتحال کا پی ٹی آئی کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ خیبرپختونخوا میں جب پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو اے پی ایس کا سانحہ پیش آیا جس نے نیشنل ایکشن پلان کے قیام کا راستہ ہموار کیا اور آپریشن عزم استحکام اسی پلان کا تسلسل ہے۔ دوسری بار محمود خان کی حکومت قائم ہوئی تو طالبان نے نہ صرف قبائلی اضلاع میں سرگرمیاں تیز کردیں بلکہ وہ سوات اور دیر پر بھی چڑھ دوڑے۔ اب اسی پارٹی کی علی امین گنڈاپور کی قیادت میں حکومت قائم ہے تو تمام قبائلی اور جنوبی اضلاع بدترین حملوں کی لپیٹ میں ہیں ۔ اگر ان دو پارٹیوں کا واقعتاً کوئی عمل دخل اور اثر رسوخ ہوتا تو صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی کیوں واقع نہیں ہوئی ؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹی ٹی پی وغیرہ پاکستانی ریاست کی مخالفت میں یہ سب کررہے ہیں خواہ حکومت کسی کی ہی کیوں نہ ہو۔
یاد رہے کہ ملاکنڈ ڈویژن خصوصاً سوات میں پاک فوج پہلی بار اسی صورت حال کے تناظر میں مولانا فضل الرحمان کی متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت میں داخل ہوگئی تھی اور مولانا نے یہ سب کچھ جنرل پرویز مشرف کے کہنے پر کیا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج وہ عزم استحکام کی مخالفت اس وجہ سے کررہے ہیں کہ ان کو موجودہ فوجی قیادت سے شکایات ہیں ؟ یہی وہ بنیادی نکتہ اور وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہورہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی فوجی آپریشن کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہوتا اور ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی اس سے گریز کرتی رہتی ہے تاہم سوال تو یہ بھی ہے کہ دوسرا یا تیسرا آپشن ہیں ہی کیا ؟ اس تمام معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے اور ان پارٹیوں کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ملک بلخصوص خییر پختونخوا کے اجتماعی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ آج صوبے کو جن حالات کا سامنا ہے اس میں ان سب کا اپنا اپنا کردار رہا ہے کیونکہ یہ سب پارٹیاں مختلف ادوار میں برسرِ اقتدار رہی ہیں ۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے وہ تو شورش زدہ خیبرپختونخوا میں سال 2013 کے بعد برسر اقتدار ہے اور بگاڑ کی زیادہ ذمہ داری اس پارٹی ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ محض یہ کہنے سے بات نہیں بنے گی کہ سیکورٹی کے معاملات کو ڈیل کرنا فوج یا سیکورٹی فورسز کا کام ہے۔

Apex Committee Pakistan, Operation Azme Istehkam

آپریشن عزم استحکام پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ یا کچھ اور ؟

آپریشن عزم استحکام پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ یا کچھ اور ؟
عقیل یوسفزئی
نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں امن کی بحالی اور دہشت گردی، شدت پسندی کے خاتمے کے لئے آپریشن عزم استحکام کی منظوری پر پاکستان تحریک انصاف اور جے یو آئی نے مخالفانہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دونوں پارٹیاں اس مجوزہ آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی ۔ تحریک انصاف کے کور کمیٹی اجلاس میں بھی اس ممکنہ اقدام کی مخالفت کی گئی جبکہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے منسوب ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا مزید آپریشنز کا متحمل نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اس سلسلے میں ان کے ساتھ کسی حتمی فیصلے کی بات چیت نہیں ہوئی ہے ۔ دوسری جانب اس پارٹی کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے ایک میڈیا ٹاک میں سوال اٹھایا ہے کہ حکمران ان کو یہ بتائیں کہ پاکستان میں آج تک کونسا آپریشن کامیاب ہوا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار نے بھی پارلیمنٹ میں ایسے ہی سوالات اٹھائے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے پارلیمنٹ والی تقریروں کا سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت وہ پارٹی کررہی ہے جس نے ہزاروں کی تعداد میں طالبان کو واپس بلاکر بسایا ۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے اور صوبائی حکومت ، برسرِ اقتدار پارٹی نے ماضی میں بعض دیگر کی طرح گڈ اور بیڈ کی بحث میں معاملات کو مزید خراب کردیا ہے تاہم ریاستی رٹ کو ہر صورت قائم کیا جائے گا ۔ بعض دیگر وزراء نے یقین دھانی کرائی کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے تناظر میں نہ صرف یہ کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے گا بلکہ ممبران پارلیمنٹ کے لیے ان کیمرہ سیشن کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا کے عوام ،سیاسی حلقوں اور سیکورٹی اداروں نے ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ بہت قربانیاں دی ہیں بلکہ یہ صوبہ سب سے زیادہ متاثر بھی ہوا ہے تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ گزشتہ دو تین برسوں سے پاکستان میں ہونے والے 70 فی صد حملے خیبرپختونخوا ہی میں کرایے گئے ہیں ۔ ان حملوں میں تقریباً 78 فی صد حملوں کے دوران سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنایا گیا جس کو ریاست نے اپنے خلاف کھلے عام جنگ کا نام دیا ۔ صرف رواں مہینے خیبرپختونخوا کے 9 اضلاع میں تقریباً 14 بڑے حملے کئے گئے ۔ جن اضلاع کو بار بار نشانہ بنایا گیا ان میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرت ہے ۔ ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ سیکورٹی فورسز اور وفاقی حکومت محض اس وجہ سے معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں کہ اس صوبے میں ایک مخالف پارٹی کی حکومت ہے اور وہ آپریشن یا دیگر اقدامات کی حامی نہیں ہے۔
صوبے کی برسر اقتدار پارٹی اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتی کہ اسی پارٹی کے ایک مذاکراتی عمل کے نتیجے میں ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجو یا تو افغانستان سے واپس لائے گئے یا سینکڑوں کو رہائی سمیت دیگر رعایتیں دی گئیں ۔ یہ بھی اس پارٹی اور اس کی حکومت کو ماننا پڑے گا کہ صوبائی حکومت کی سرے سے کوئی کاؤنٹر ٹیررازم پالیسی ہے ہی نہیں اور اس کے نتائج صوبے کے عوام اور فورسز کو بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔ فوجی آپریشن کو کسی صورت ایک خوشگوار اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کے دوران عام لوگوں کی تکالیف کے علاوہ فورسز کو بھی جانوں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں تاہم سب سے بڑا سوال اب بھی یہ ہے کہ تین برسوں سے جاری صورتحال سے نمٹنے کا آخر راستہ اور فارمولا ہی کیا ہے ؟ اس مسئلے کا اگر کوئی دوسرا حل ہے تو اپوزیشن پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے پارلیمنٹ میں وہ پیش کریں اور حکومتی اتحاد اور متعلقہ اداروں کو ایسے کسی مجوزہ فارمولے یا طریقہ کار پر پارلیمنٹ ہی کے فورم پر پوری قوم کے سامنے دلائل کی بنیاد پر پیش کرے ۔
جہاں تک اسد قیصر کی دلیل کا تعلق ہے کہ تو ان کو یہ یاددہانی کرائی جائے کہ سال 2009 کے دوران ملاکنڈ ڈویژن کے تین چار اضلاع پر طالبان نے عملاً قبضہ کرلیا تھا اور اس قبضے کو چھڑانا ایک آپریشن ہی کے ذریعے ممکن بنایا گیا تھا ۔ قبائلی علاقوں کے چار پانچ اضلاع بھی فورسز ، سیاسی جماعتوں اور عوام کے لیے نو گو ایریاز بن چکے تھے بلاشبہ وہاں کے حالات کو اب بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم پہلی والی صورتحال اب کے حالات میں بہت فرق ہے۔
اس تمام صورتحال کے تناظر ضرورت اس بات کی ہے کہ تلخ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب کیا جائے اور ملکی سلامتی اور صوبے کے مفادات کو درپیش چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اتفاق راۓ سے کوئی موثر لایحہ عمل اختیار کیا جائے ۔

loadshedding in KPK

صوبے میں جاری لوڈ شیڈنگ اور گورنر کا سیاسی ردعمل

صوبے میں جاری لوڈ شیڈنگ اور گورنر کا سیاسی ردعمل
عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے دھمکیاں دینے کی بجائے قانون کے مطابق وفاقی حکومت سے متعلقہ فورمز پر بات چیت کا راستہ اختیار کریں ۔ گورنر کے مطابق وفاقی حکومت کا طرزِ عمل مثبت اور تعمیری ہے تاہم وزیر اعلیٰ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے صوبے میں سول نافرمانی کا ماحول بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور ممبران اسمبلی کی جانب سے گریڈ اسٹیشنز پر قبضے اور پیسکو کے معاملات ہاتھ میں لینے کی صورتحال نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے جس کا وزیر اعلیٰ کو ادراک ہونا چاہیے۔ گورنر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت صوبے میں سیکورٹی کے مخدوش صورتحال سے لاتعلق ہیں اور اس وقت وزیر اعلیٰ کے اپنے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات یہ ہیں کہ لوگ شام کے بعد گھروں سے نکل نہیں سکتے اور مسافر کانوائے کی شکل میں سفر کرتے ہیں۔
گورنر کے خدشات کو بلا جواز نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ گریڈ اسٹیشنز پر ممبران اسمبلی کے قبضے کو اس کے باوجود درست نہیں کہا جاسکتا کہ پیسکو کی مجموعی کارکردگی اور پالیسی سے عوام اور صوبائی حکومت واقعتاً بہت شاکی ہیں اور لوڈ شیڈنگ کا عملاً کوئی منظم شیڈول موجود نہیں ہے ۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر اویس لغاری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ رابطہ کرتے ہوئے ان سے پیسکو کے دفاتر اور گریڈ اسٹیشنز کو سیکورٹی فراہم کرنے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا جس کے بعد وزیر داخلہ نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بھی ٹیلی فونک رابطہ کرکے انہیں وفاقی حکومت کی تشویش اور ناراضگی سے آگاہ کردیا ۔ اگر وفاقی حکومت اس ضمن میں سیکورٹی کی فراہمی کا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں اور صوبائی حکومت کے درمیان سخت نوعیت کا تصادم پیدا ہوگا اور جنگ زدہ صوبے کے انتظامی معاملات مزید پیچیدہ ہوں گے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مزید تصادم اور کشیدگی سے بچنے کے لیے فریقین دستیاب قانونی راستہ اختیار کرکے مسائل کے حل کو ممکن بنائیں ورنہ معاملات مزید پیچیدہ اور خراب ہو جائیں گے۔

FC Forte Shabqadar

ایف سی قلعہ شبقدر میں تاریخی ایونٹ

ایف سی قلعہ شبقدر میں تاریخی ایونٹ
عقیل یوسفزئی
فرنٹیئر کانسٹیبلری ایک طویل تاریخی پس منظر رکھنے والا قابل تعریف ادارہ رہا ہے اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز میں اس ادارے کو کئی حوالوں سے ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔ گزشتہ روز ایف سی قلعہ شبقدر میں ایک تاریخی شہداء پریڈ اور تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی جبکہ متعدد اہم شخصیات کے علاوہ فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل نور ولی خان بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ کمانڈنگ فرنٹیئر کانسٹیبلری معظم جاہ انصاری نے اپنی متحرک ٹیم کے ہمراہ اس ایونٹ کو یادگار بنانے کے لیے روایتی انداز میں زبردست انتظامات کیے ہوئے تھے تاہم سب سے اچھی بات یہ تھی کہ پشاور کے سینئر صحافیوں کی بڑی تعداد کو پہلی بار اس بہانے 1837 کو قائم کئے گئے اس تاریخی قلعہ کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ معظم جاہ انصاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایف سی کی تاریخ، کردار، اہمیت اور قربانیوں کو بہت جامع انداز میں پیش کیا جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس اہم ادارے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بعض دیگر اقدامات اور اعلانات کے علاوہ شہداء پیکج 30 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کرنے کا اعلان کیا جس کی تمام شرکاء نے خیر مقدم کیا کیونکہ ایف سی سمیت خیبرپختونخوا میں فرائض سرانجام دینے والے تمام اداروں نے امن کے قیام کے لیے بے مثال کردار ادا کرتے ہوئے بہت قربانیاں دی ہیں اور شہداء پیکج میں اضافے کے اقدام سے ان اداروں کی قربانیوں کا عملی اعتراف ہوگا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ فرنٹیئر کانسٹبلری کی قیادت معظم جاہ انصاری جیسے اس متحرک آفیسر کے ہاتھوں میں ہے جن کو بہت کھٹن حالات میں نہ صرف یہ کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی پولیس فورسز کی قیادت کا اعزاز حاصل رہا ہے بلکہ وہ ان دو حساس صوبوں کی سیکورٹی نزاکتوں اور چیلنجز کے علاوہ یہاں کی رسم ورواج اور ثقافت سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں ۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ روز کے ایونٹ کے دوران ہر قدم پر ایف سی کا ثقافتی رنگ پورے اہتمام کے ساتھ نظر آیا اور شرکاء نے اس تاریخی ایونٹ سے بہت لطف اٹھایا۔

CM KP ali amin gandapur and governor faisal kareem kundi

گورنر خیبرپختونخوا کا سخت جواب

گورنر خیبرپختونخوا کا سخت جواب
عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے ایف ایم سنو پختونخوا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور وزارت اعلیٰ اور جیل میں قید اپنے لیڈر کے مختلف نوعیت کے معاملات میں پھنس کر ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ گورنر راج سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے ان کو اور ان کی پارٹی کو سیاسی شہید بنایا جائے تاہم ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی تاہم اگر کسی نے بھی کسی احتجاج کی آڑ میں 9 مئی جیسے واقعات کا راستہ ہموار کرنے کی مہم جوئی کی تو انہیں پوری ریاستی طاقت کے ذریعے کچلا جائے گا کیونکہ صوبے کے وزیر اعلیٰ نہ صرف یہ کہ 9 مئی کے حملوں کے منصوبہ سازوں میں شامل ہیں اور وہ طالبان کو بھتہ دیتے ہیں بلکہ ان پر اپنے ایک ممبر صوبائی اسمبلی سمیت بعض دیگر کو قتل کرانے کے الزامات بھی ہیں۔ گورنر نے مذکورہ انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ وہ صوبے کے حقوق کی حصول، امن کے قیام اور بعض اہم پراجیکٹس کے لیے تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس قائم کرنے کی پلاننگ کررہے ہیں اور صوبے کو ایک ڈپریشن زدہ وزیر اعلیٰ کی رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ان کے مطابق وفاقی حکومت اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز ان کے ساتھ صوبے کے مسائل حل کرنے میں بھرپور تعاون کررہے ہیں اور متعدد اہم فیصلے اور پیکجز پایپ لاین میں ہیں جن میں بجلی ، پانی کے بقایاجات اور قبائلی اضلاع کی تعمیر نو اور انتظامی ضروریات کی فراہمی بھی شامل ہیں ۔ گورنر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ فورسز کے جو جوان اور آفیسرز عوام اور ملک کے امن کے لیے جانیں دے رہے ہیں صوبائی حکمران ان کی قربانیوں سے لاتعلق ہیں اور ان کا تمام فوکس اس بات پر ہے کہ دھمکیاں دیکر اپنی نااہلی اور ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹادی جائے۔
گورنر کا یہ انٹرویو اسی دن سامنے آیا جب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس سے چند گھنٹے قبل پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر کے بارے میں انتہائی سخت اور غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے تھے اور ان کا لب و لہجہ کسی بھی طور صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کے شایانِ شان نہیں تھا ۔ گورنر اور دیگر اہم حکومتی شخصیات کے بارے میں وزیر اعلیٰ نے جو الفاظ استعمال کیے گورنر نے انتہائی تحمل کے ساتھ ان کے نہ صرف جوابات دیے بلکہ ان پر دو تین ایسے سنگین الزامات بھی لگائے جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کے سنجیدہ حلقوں نے بھی گورنر کے الزامات کو درست مگر تشویش ناک قرار دیتے ہوئے اس بات کا نوٹس لینے کی ضرورت پر زور دیا کہ طالبان کو بھتہ دینے جیسے سنگین نوعیت کے الزام پر اس لیے خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی کہ صوبے کو ایک فیصلہ کن جنگ کا سامنا ہے اور ایسے میں اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں اس قسم کا دعویٰ کرنا انسداد دہشتگری کی تمام کارروائیوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ گورنر کے انٹرویو کے اگلے روز سے این پی کے صوبائی صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں افتخار حسین نے بھی اسی نوعیت کے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی کی نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردیاں ہیں اور عمران خان کی حکومت میں ہزاروں دہشت گردوں کو افغانستان سے واپس لایا گیا بلکہ ان کے بقول 2013 کے بعد ہر انتخابی مہمات میں ٹی ٹی پی نے پی ٹی آئی کے حق میں باقاعدہ مہم چلاتے ہوئے دہشت گردی کی مخالفت کرنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔
میاں افتخار اور گورنر کے ان مشترکہ نکات، دلائل اور خدشات کو زمینی حقائق اور جاری چیلنجز کے تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر بے چینی بڑھتی جارہی ہے تاہم سب سے افسوسناک بات وزیر اعلیٰ کا وہ لہجہ اور رویہ ہے جو کہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے کیونکہ ان کے جارحانہ انداز تخاطب کا کسی بھی طور دفاع نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے ان سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ غیر ضروری تصادم اور کشیدگی سے گریز کرتے ہوئے صوبے کو درپیش مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں اور چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔

9 may dg ispr press conference

فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں اہم فیصلے

جمعرات کے روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں فارمیشن کمانڈرز کی اہم کانفرنس آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات ، درپیش چیلنجز ، سکیورٹی صورتحال اور بعض واقعات سمیت بہت سے دیگر ایشوز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور متعدد اہم معاملات پر اس اعلیٰ ترین عسکری فورم پر مشاورت اور تجاویز کا تبادلہ کیا گیا ۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ تفصیلات سے جو خلاصہ نکالا جاسکتا ہے اس کے مطابق 9 مئی کو کی جانیوالی شرپسندی میں ملوث ملزمان اور ان کے منصوبہ سازوں کو قانون کے تحت سخت سزائیں دینے کو ناگزیر قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا جاسکتا ۔ یہ موقف نہ صرف بالکل دوٹوک ہے بلکہ اس سے یہ بات پھر سے واضح ہوگئی ہے کہ عسکری قیادت 9 مئی کے واقعات کو نہیں بھولی ہے اور جو پارٹی ان حملوں میں ملوث ہے اس کے ساتھ بعض عدالتی رعایتوں کے باوجود کسی قسم کے کمپرومائز کو تیار نظر نہیں آرہی ۔ یہ اس لیے بھی لازمی ہے کہ اگر ان افسوس ناک واقعات میں ملوث ملزمان اور منصوبہ سازوں کو سزائیں نہیں ملیں تو آئندہ کے لیے دوسرے بھی ریاست پر دبائو ڈالنے کے لیے یہی حربے استعمال کرنے لگ جائیں گے اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی ریاست یا اس کی افواج اس قسم کے رویوں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوسکتیں ۔ یہ بہت عجیب بات ہے کہ جس روز کور کمانڈر کانفرنس میں اس ایشو پر سخت اور واضح موقف آیا اسی دن پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو 9 مئی ہی کے 2 کیسز میں بری کردیا گیا ۔ کانفرنس میں انسداد دہشتگری کی جاری کارروائیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے جاری سلسلے پر بھی نہ صرف بحث کی گئی بلکہ اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ۔ قبائلی علاقوں کے عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جس پیمانے پر متاثر ہوئے اس کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے جذبوں اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کی گئی اور فورسز کے شہدا کی قربانیوں کا بھی اعتراف کرتے ہوئے جاری کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے مسائل کے حل پر بھی بحث کی گئی اور اس عزم کا کھل کر اظہار کیا گیا کہ ان علاقوں کی تعمیر وترقی اور امن کے قیام کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور ان اقدامات کو یقینی بنانے میں پاکستان کی افواج بھرپور حصہ لیں گی ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اعلیٰ عسکری قیادت کو قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے معاملات اور مسائل کا ادراک ہے اور پرعزم ہے کہ ان علاقوں کی تعمیر وترقی پر توجہ دی جائے گی ۔ ملک کی معیشت کی بحالی اور اقتصادی چیلنجز پر بھی فورم میں تبادلہ خیال کیا گیا اور سول حکومتوں کو افواج پاکستان کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دھانی کرائی گئی ۔

سیاسی اور انتظامی کشیدگی میں اضافہ

سیاسی اور انتظامی کشیدگی میں اضافہ
عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں جاری کشیدگی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اس پر ستم یہ کہ اظہار رائے سے متعلق بعض امور اور اقدامات کو ایک بار پھر زیر بحث لاکر تنقید کا نشانہ تو بنایا جارہا ہے تاہم کوئی بھی فریق اس بات پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ پاکستان میں اظہار رائے کے نام پر بعض حلقوں کی جانب سے جو انتشار گردی جاری ہے اس نے پاکستان کی سیاست اور معاشرت دونوں کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے اعلیٰ عدلیہ کو پھر سے شدید نوعیت کی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور لگ یہ رہا ہے جیسے ایگزیکٹیو اور جوڈیشری ایک دوسرے کی مدقابل آکر ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کی کوشش میں ہیں ۔ بعض جج صاحبان نے اپنی ریمارکس میں غیر ضروری طور پر بعض ایسے کلمات ادا کیے جس کے نتیجے میں حکومت کو بھی کھل کر سامنے آنا پڑا اور میڈیا نے بھی اس تلخی کو مزید بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اداروں کے درمیان تصادم کو جان بوجھ کر بڑھانے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے تاہم اس بات کا بہت کم لوگوں کو احساس ہے کہ اس تمام کشیدہ صورتحال کے نتیجے میں پورے سسٹم کو لپیٹا جاسکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری کشیدگی بڑھانے والے فریقین پر ہی عائد ہوگی۔
تشدد ، پروپیگنڈے اور غیر ضروری بیانات، الزامات نے پورے معاشرے کو زنگ آلود کرکے رکھ دیا ہے اور تشویش اس بات کی ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے علاوہ اہم ریاستی اداروں کی باہمی کشمکش نے پرتشدد واقعات میں اضافے کا راستہ ہموار کردیا ہے اور کسی کے ساتھ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اس ضمن میں گزشتہ شام پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن کے ساتھ پیش آنے والا وہ افسوسناک واقعہ ہے جس کے دوران ایک مخصوص ” گروپ” نے ان پر حملہ کرتے ہوئے زخمی کیا اور اس پارٹی کے بانی سمیت اکثریت نے حقائق جانے اور تفتیش کرنے سے قبل منٹوں کے اندر حسب معمول بعض اہم اداروں پر اس حملے کی ذمہ داری ڈال کر مخالفانہ مہم شروع کردی۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بعض وہ حلقے بھی میدان میں کود پڑے جو کہ مذکورہ پارٹی کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ اسی دوران ہتک عزت بل کی منظوری سے ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا تو اسی روز ایک سینیٹر نے ایوان میں اعلیٰ عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے بعض الزامات کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ عدلیہ کے کردار کو کھلے عام چیلنج بھی کردیا۔ سنجیدہ حلقوں نے بھی عدالتی ایکٹیوازم پر اظہار تشویش کرتے ہوئے بہت سخت نوعیت کے سوالات اٹھائے اور اس بات پر کھل کر تنقید کی گئی کہ عدلیہ نہ صرف ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ رعایت برتنے کی پالیسی پر گامزن ہے بلکہ بعض حساس قسم کے معاملات کو بھی چیلنجز اور نتائج کا ادراک کیے بغیر ڈیل کرنے کی کوشش میں مزید کشیدگی پیدا کرنے کی روش پر چل رہی ہے۔ اسباب و عوامل جو بھی ہو افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم پروپیگنڈا کے ایک بدترین دور سے گزر رہے ہیں اور ہر کسی کو اپنی آنا اور ضد کی پڑی ہوئی ہے۔ اگر اس روش کو ترک کرکے مثبت راستہ اختیار نہیں کیا گیا تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں جو انارکی پھیلے گی اس سے کوئی ادارہ، شخص یا طبقہ محفوظ نہیں رہے گا اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ انا پرستی اور پرانا حساب چکانے کی بجائے نتائج کا ادراک کرتے ہوئے ادارہ جاتی ایکٹیوازم کا راستہ ترک کرکے کشیدگی کم کرنے پر توجہ دی جائے۔