Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, September 9, 2024

اپوزیشن جماعتوں کا عجیب طرزِ عمل

اپوزیشن جماعتوں کا عجیب طرزِ عمل
عقیل یوسفزئی
پاکستان کی بعض پارٹیاں نہ صرف یہ کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد انتقامی سیاست اور مخالفت برائے مخالفت کے طرزِ عمل پر چل پڑی ہیں بلکہ یہ سیکورٹی کی سنگین صورتحال پر ریاست کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے حقائق کی بجائے مختلف قسم کے الزامات کا سہارا لیکر یہ بیانیہ لیکر آگے بڑھ رہی ہیں کہ گویا اس سلسلے میں پاکستان میں جو کچھ ہونے جارہاہے یہ امریکہ یا چین کے کہنے پر ہورہا ہے۔ یہ بہت عجیب مخمصہ ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے اعلان کے بعد بعض پارٹیاں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ یہ امریکہ کے کہنے پر ہونے جارہاہے تو بعض اس کو چینی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں ۔ مذکورہ دونوں ممالک کے مفادات نہ صرف ایک دوسرے سے متصادم ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کو کاؤنٹر کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں تاہم یہ کوئی نئی کہہ رہا کہ چونکہ پاکستان کو بدترین نوعیت کے حملوں کا سامنا ہے اور حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں اس لیے پاکستانی ریاست یہ اقدامات خود اٹھانے لگی ہیں اور یہ کہ یہ پاکستان کے اپنے اقدامات ہیں۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی کے اپنے خطاب کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ پاکستان افغانستان پر حملہ کرنے جارہاہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوں گے اور مذاکرات کے راستے بند ہوجائیں گے۔ مولانا نے شاید وزیر دفاع خواجہ آصف کے ایک انٹرویو کو بنیاد بنا کر یہ بات کہی ہے تاہم وزیر دفاع نے یہ کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی اور افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے معاملے پر تعاون نہیں کیا تو پاکستان وہاں موجود ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوگا جو کہ پاکستان متعدد بار کر بھی چکا ہے۔ جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے وہ عمران خان کی حکومت کئی مہینوں تک کرتی رہی ہے اور اسی کے نتیجے میں حملوں کی تعداد اور شدت بڑھ گئی ہے۔ مولانا بھی اس ضمن میں افغان طالبان کو قائل کرنے کے لیے الیکشن سے چند روز قبل افغانستان گئے ہوئے تھے۔ ان کے اس دورے کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ ان کے دورہ افغانستان کے دوران باجوڑ میں ان کے دو عہدیداروں پر حملے کئے گئے اور الیکشن سے ایک روز قبل بلوچستان میں ان کے انتخابی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ ایسی ہی صورتحال کا پی ٹی آئی کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ خیبرپختونخوا میں جب پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو اے پی ایس کا سانحہ پیش آیا جس نے نیشنل ایکشن پلان کے قیام کا راستہ ہموار کیا اور آپریشن عزم استحکام اسی پلان کا تسلسل ہے۔ دوسری بار محمود خان کی حکومت قائم ہوئی تو طالبان نے نہ صرف قبائلی اضلاع میں سرگرمیاں تیز کردیں بلکہ وہ سوات اور دیر پر بھی چڑھ دوڑے۔ اب اسی پارٹی کی علی امین گنڈاپور کی قیادت میں حکومت قائم ہے تو تمام قبائلی اور جنوبی اضلاع بدترین حملوں کی لپیٹ میں ہیں ۔ اگر ان دو پارٹیوں کا واقعتاً کوئی عمل دخل اور اثر رسوخ ہوتا تو صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی کیوں واقع نہیں ہوئی ؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹی ٹی پی وغیرہ پاکستانی ریاست کی مخالفت میں یہ سب کررہے ہیں خواہ حکومت کسی کی ہی کیوں نہ ہو۔
یاد رہے کہ ملاکنڈ ڈویژن خصوصاً سوات میں پاک فوج پہلی بار اسی صورت حال کے تناظر میں مولانا فضل الرحمان کی متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت میں داخل ہوگئی تھی اور مولانا نے یہ سب کچھ جنرل پرویز مشرف کے کہنے پر کیا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج وہ عزم استحکام کی مخالفت اس وجہ سے کررہے ہیں کہ ان کو موجودہ فوجی قیادت سے شکایات ہیں ؟ یہی وہ بنیادی نکتہ اور وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہورہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی فوجی آپریشن کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہوتا اور ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی اس سے گریز کرتی رہتی ہے تاہم سوال تو یہ بھی ہے کہ دوسرا یا تیسرا آپشن ہیں ہی کیا ؟ اس تمام معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے اور ان پارٹیوں کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ملک بلخصوص خییر پختونخوا کے اجتماعی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ آج صوبے کو جن حالات کا سامنا ہے اس میں ان سب کا اپنا اپنا کردار رہا ہے کیونکہ یہ سب پارٹیاں مختلف ادوار میں برسرِ اقتدار رہی ہیں ۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے وہ تو شورش زدہ خیبرپختونخوا میں سال 2013 کے بعد برسر اقتدار ہے اور بگاڑ کی زیادہ ذمہ داری اس پارٹی ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ محض یہ کہنے سے بات نہیں بنے گی کہ سیکورٹی کے معاملات کو ڈیل کرنا فوج یا سیکورٹی فورسز کا کام ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket