Radio Pakistan building burnt in pti protest 2023

نو مئی کے ذمہ داروں سے رعایت کیوں؟

عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ سات آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود 9 مئی کے ذمہ داروں کے خلاف اس نوعیت کی کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاسکی جس کی توقع یا ضرورت تھی. اب بھی اس پارٹی کے عہدیداروں کو عدالتوں کی جانب سے تھوک کے حساب سے نہ صرف یہ کہ ضمانتیں مل رہی ہیں بلکہ ان کو 8 فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کی راہیں بھی ہموار کی جارہی ہیں جس پر دوسری پارٹیوں کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد بھی شدید اعتراض کرتے دکھائی دے رہی ہے. کمال کی بات یہ ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد اور لیڈرز نہ صرف ان واقعات کی کھل کر مذمت نہیں کررہے بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف اب بھی منفی پروپیگنڈا میں مصروف ہیں اور اپر سے یہ شکوہ بھی کررہے ہیں کہ ان کو الیکشن میں درکار مواقع فراہم نہیں کئے جارہے. یہ بہت عجیب قسم کی بات ہے کہ جو سینکڑوں لوگ ان واقعات میں ملوث ہونے کے باعث مفرور ہیں یا نام نہاد عدالتوں سے ضمانتوں پر ہیں اگر الیکشن کمیشن طریقہ کار کے مطابق ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرتا ہے تو اس پر شور شرابہ کیا جاتا ہے. اگر عدالتوں نے ان کو رعایتیں نہیں دی ہوتیں تو ان کو ریاست کے خلاف مزید پروپیگنڈا اور سازشوں کی ہمت نہیں ہوتی. آج اگر ایک طرف پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف اسے ایسے شرپسندوں کی سرگرمیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے. حالت یہ ہے کہ یہ لوگ سیکیورٹی فورسز کے ان شہداء کا بھی مذاق اڑانے سے گریز نہیں کررہے جو کہ روزانہ کی بنیاد دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتے ہیں. مذکورہ پارٹی کے “کی بورڈ واریررز” فورسز اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا میں مصروف عمل ہیں. اور غالباً یہی وجہ ہے کہ سینیٹ نے گزشتہ روز ایسے عناصر کے خلاف سخت اقدامات کی قرارداد منظور کرلی تاکہ ان کی شرپسندی کا راستہ روکا جائے. وقت کا تقاضا ہے کہ بغیر کسی تاخیر اور رعایت کے ان عناصر کو قابو کرکے عبرت کا نشان بنایا جائے اور ان کو عدالتوں کی جانب سے جو رعایتیں مل رہی ہیں اس سلسلے کا بھی راستہ روک دیا جائے.

Taliban attack South Waziristan Tiarza check post

سال 2023 میں سیکیورٹی کی صورتحال

عقیل یوسفزئی
سال 2023 پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کی سیکورٹی کے حوالے سے بہت مشکل سال ثابت ہوا. اگر ایک طرف 2022 کی طرح اس برس صوبہ پختونخوا اور اس کے بعد بلوچستان کو ریکارڈ دوطرفہ دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری طرف پاکستان کے نئے آرمی چیف سید عاصم منیر کے چارج سنبھالنے کے بعد فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ریکارڈ کارروائیاں کیں اور غالباً اس یکسوئی یا واضح موقف ہی کا ردعمل تھا کہ شدت پسند گروپوں خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف حملوں کی تعداد بڑھانے کی پالیسی اختیار کی بلکہ اس نے پاک فوج سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کو بطور خاص نشانہ بنایا. اگر ایک طرف ٹی ٹی پی کے حملے بڑھے تودوسری جانب داعش نے بھی پشاور اور باجوڑسمیت تقریباً 49 چھوٹی بڑی کارروائیاں کیں. اسی طرح جہاں ایک طرف بلوچستان کی بلوچ بیلٹ میں قوم پرست مزاحمت کاروں نے کارروائیاں تیز کیں تو دوسری جانب ٹی ٹی پی اور اس کی بعض ذیلی یا اتحادی گروپس نے بلوچستان کی پشتون بیلٹ کو متعدد بار نشانہ بنایا. اس ضمن میں 3 بڑے حملوں میں ژوب میں موجود سیکیورٹی اداروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ اس میں متعدد افغان باشندے بھی شامل رہے. اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ نومبر میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کو نکل جانے کا فیصلہ کیا گیا. دسمبر کے تیسرے ہفتے تک پختونخوا اور بلوچستان سے مجموعی طور پر تقریباً 4 لاکھ 75 ہزار افغان مہاجرین کو نکالا گیا اور یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رکھا گیا. پاکستان کے رویے میں اس وقت سختی واقع ہوگئی جب 6 ستمبر 2023 کو ٹی ٹی پی نے 3 مختلف مقامات پر افغان سرزمین سے چترال پر حملہ کیا اور اسی روز افغانستان کے سرحدی حکام نے طورخم بارڈر پر حملہ کیا. دونوں مقامات پر حملہ آوروں کو سخت جواب دیا گیا. تاہم پاکستان اور افغانستان کی تلخی میں بے پناہ اضافہ ہوا کیونکہ یہ حملے ٹی ٹی پی والے افغانستان کی سرزمین سے کررہے تھے. نوبت یہاں تک آپہنچی کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے تقریباً 6 ان مبینہ علاقوں پر ہوائی حملوں کی اطلاعات زیرِ گردش کرنے لگیں جہاں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کی نشاندہی کی گئی تھی.
سال 2023 کے دوران پچھلے برس کے مقابلے میں فورسز کے ساتھ ساتھ سویلین اور سیاسی ورکرز، رہنماؤں کو بھی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا.
سیکورٹی چیلنجز کی صورتحال کیا رہی اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس برس صرف پختونخوا میں 580 حملے کئے گئے. سال 2022 کے دوران یہ تعداد 495 تھی. ان حملوں میں 475 لوگ شہید ہوئے تو 1070 زخمی ہوگئے. خیبر پختونخوا کے تقریباً 26 اضلاع میں کارروائیاں کی گئیں تاہم جو شہر یا علاقے 2023 میں مسلسل حملوں کی ذد میں رہے ان میں پشاور کے علاوہ قبائلی اضلاع اور ان سے ملحقہ جنوبی اضلاع سرفہرست رہے.
مثال کے طور پشاور کو اس برس 54 حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں 6 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ داعش خراسان نے کرائے تھے. سب سے زیادہ حملے ڈیرہ اسماعیل خان میں کرائے گئے جن کی تعداد 87 رہی. ان میں ماہ دسمبر کے دوران کیا گیا وہ خودکش حملہ بھی شامل تھا جس میں ایک فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا اور چھت گرنے سے پاک فوج کے تقریباً 2 درجن شہید ہوئے. ردعمل میں فورسز نے 27 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ اس حملے میں ملوث تقریباً 9 مزید افراد کو دسمبر کے آخر میں گرفتار یا ہلاک کر دیا گیا جن میں تقریباً 4 افغان باشندے بھی شامل بتائے گئے. وزیرستان 79 حملوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا جبکہ خیبر 72 اور بنوں 33 حملوں کے حساب سے چوتھے نمبر پر رہا.
ایک اور رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں خیبر پختونخوا میں پاکستان آرمی کے تقریباً 95 نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا جبکہ 130 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے کیونکہ پاک فوج نے اس برس فرنٹ پر رہ کر ریکارڈ آپریشن کئے. پختونخوا پولیس کے تقریباً 180 جوان اور افسران شہید جبکہ 410 زخمی ہوگئے. فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی حملوں کی ذد میں رہی. ایک حساس ادارے کے ایک اعلیٰ ترین افسر کو بھی وزیرستان میں دوران سفر شہید کیا گیا.
اس برس پاکستان کی سیکورٹی فورسز بالخصوص پاک فوج نے بھی پختونخوا میں انٹیلی جنس بیسڈ ریکارڈ آپریشن کئے جن کی تعداد 2000 کی لگ بھگ رہی. مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں صرف پختونخوا میں تقریباً 560 دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا جن میں 36 کمانڈرز بھی شامل تھے. 38 خطرناک کمانڈروں سمیت تقریباً 800 شدت پسندوں، دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا. ان میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق 33 افراد کو مختلف عدالتوں سے سزائیں بھی دلوائی گئیں. ایک اور سیکورٹی رپورٹ کے مطابق 2023 کے دوران پختونخوا میں سیکیورٹی اداروں نے تقریباً 100 پلان کردہ حملوں کو ناکام بنایا جن میں تقریباً ایک درجن سے زائد داعش خراسان کے پلان کردہ حملے شامل تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ داعش کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں پشاور میں کی گئیں. فورسز کی ایسی ہی کارروائیاں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی کی گئیں. 2023 کے دوران ایک اور ٹرینڈ یہ دیکھنے کو ملا کہ شدت پسندوں نے تقریباً تمام حملوں میں جدید امریکی اسلحہ استعمال کیا اور پولیس فورس کو سب سے زیادہ جانی نقصان اس اسلحہ کے استعمال سے پہنچا. اسی تناظر میں 2023 کے وسط میں آرمی چیف اور کور کمانڈر پشاور کی ذاتی دلچسپی اور ہدایات کے مطابق سی ٹی ڈی سمیت پختونخوا پولیس کو جدید سہولیات فراہم کی گئیں اور پاکستان آرمی کی جانب سے پختونخوا بالخصوص قبائلی علاقوں کی پولیس کی جدید انداز میں ٹریننگ بھی کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ صرف نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں پختون خوا کے 12 مختلف اضلاع میں پولیس نے اپنے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر ہونے والے حملوں کو ناکام بنایا.
حملوں کی منصوبہ بندی اور ریکروٹنگ کے علاوہ ان کی فنڈنگ کا تقریباً تمام مکینزم چونکہ افغانستان میں موجود تھا اس لیے پاکستان کا دباؤ کشیدگی کی شکل اختیار کرگیا اور شاید اسی کا نتیجہ رہا کہ ذبیح اللہ مجاہد اور دو دیگر اعلیٰ افغان حکام نے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اعتراف کیا کہ ان کی عبوری حکومت نے بعض حملوں اور سرگرمیوں کے ردعمل میں ٹی ٹی پی کے تقریباً 40 افراد کو گرفتار کرلیا ہے.
دوسری جانب امریکا اور بعض دیگر ممالک کی تشویش میں بھی اس برس غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا. ایک رپورٹ میں امریکہ نے انکشاف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کے باعث جہاں پاکستان کی سیکورٹی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے وہاں اس رپورٹ میں کھلے عام کہا گیا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی کمزوری یا سرپرستی کے باعث القاعدہ اور داعش کی قوت اور تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جو کہ امریکہ کے بقول خطے کے علاوہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے.
دسمبر 2023 کو اس تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان پھر سے قربت اور اعتماد سازی میں اضافہ ہوا. پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنی ٹیم کے ہمراہ امریکی دورے پر روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے نہ صرف یہ کہ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ، سینٹکام کے کمانڈر اور دیگر اعلیٰ ترین فوجی، سول عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں اور مذاکرات کئے بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت متعدد دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں اور امریکی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں اس قسم کی رپورٹس گردش کرنے لگیں کہ پاکستان اور امریکہ خطے کی سیکورٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک نئے کوآپریشن اور روڈ میپ پر کام کرنے لگے ہیں.دوسری طرف افغان حکومت نے دسمبر کی وسط ہی میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اعلیٰ سطحی رابطے کرتے ہوئے ان کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی پیشکش کی تاہم اس کے ردعمل میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے واضح انداز میں موقف اختیار کیا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی صورت مزاکرات یا رابطہ کاری نہیں کرے گا. اس تمام پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ثابت یہ ہوا کہ 2023 پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک فیصلہ کن سال ثابت ہوا تو غلط نہیں ہوگا.

Important decisions at the Corps Commanders' Conference

کور کمانڈرز کانفرنس میں اہم فیصلے

عقیل یوسفزئی
261 ویں کور کمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوا جس کی صدارت آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کی. کانفرنس کے بارے میں آئی ایس پی آر کی جاری کردہ بیان کے مطابق ملک کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا لیا گیا اور پاکستان کی سیکیورٹی کے علاوہ ملک کی معیشت اور 8 فروری کے عام انتخابات جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا. دہشتگردوں کے ساتھ کوئی بھی رعایت نہ برتنے کی ریاستی پالیسیوں کو مزید تیز کرنے کے علاوہ افغانستان کی عبوری حکومت کے رویے کا نہ صرف جایزہ لیا گیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ دہشت گردی اور شرپسندی کے سہولت کاروں سے بھی کسی قسم کی رعایت نہ برتنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا. کانفرنس میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے کہا گیا ہے پاک فوج الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ضرورت اور تجاویز کے مطابق ہر ممکن تعاون کرے گی اور یہ کہ فوج گورننس کے معاملات درست کرنے کے لئے دیگر ریاستی اداروں کی معاونت کا اپنا سلسلہ جاری رکھے گی. اس ضمن میں جرائم کے خاتمے اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے تعاون کرنے کی پالیسی کا اعادہ کیا گیا.
اس میں کوئی شک نہیں کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں جن ایشوز اور معاملات کو ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا وہ پوری اجتماعی صورتحال کے تناظر میں اہم مسائل اور چیلنجز ہیں اور یہ بات خوش آئند ہے کہ اعلیٰ عسکری قیادت کو ان حالات میں درپیش مسائل اور چیلنجز کا پورا ادراک ہے. پاکستان ایک اہم دور سے گزر رہا ہے جس میں سیکیورٹی کے معاملات سرفہرت ہیں اور موجودہ قیادت اس ضمن میں نہ صرف یہ کہ زیرو ٹاولرنس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر فورسز کارروائیاں کرنے کے علاوہ قربانیاں بھی دے رہی ہیں. اس ضمن میں تازہ مثال ٹانک کی دی جاسکتی ہے جہاں ایک چیک پوسٹ پر حملے کے دوران فورسز نے ایک اہم کمانڈر نیک محمد کو ہلاک کردیا اور باقی کو فرار ہونا پڑا. 2023 کے دوران فوج سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں نے جہاں ریکارڈ کارروائیاں کیں وہاں سینکڑوں نوجوانوں اور افسران نے جانوں کی قربانی بھی دی تاہم یہ بات افسوس ناک ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران 9 مئی کے واقعات کی ذمہ دار پارٹی اور اس کے “کی بورڈ واریررز” نے سیکیورٹی اداروں کے خلاف فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈا کی مہم جاری رکھی. اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کی روکھ تھام کیلئے مزید سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے. غالباً کور کمانڈرز کانفرنس میں اس مہم کے بارے میں بھی متنبہ کیا گیا ہے.
8 فروری کے انتخابات کے لئے تمام تیاریاں جاری ہیں اور پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی اس کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے اپنی تعاون کا اعلان کردیا ہے تاہم اسی روز مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو اور شہباز شریف جیسے اہم لیڈروں نے الگ الگ مقامات پر اپنے بیانات میں نہ صرف اس مخصوص پارٹی کے رویے کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہاں اعلیٰ عدالتوں بالخصوص پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے بعض فیصلوں کو عدلیہ کی جانبداری اور مبینہ سہولت کاری کا نام دیا گیا. مولانا فضل الرحمان نے تو پشاور ہائی کورٹ کا نام لیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اگر الیکشن مہم کے دوران ان پر یا کسی اور پارٹی پر کوئی حملہ ہوا تو اس کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوگی. ایک عام تاثر یہی ہے کہ عدلیہ بعض سنگین نوعیت کے حساس معاملات کو نہ صرف سطحی لیکر سیاسی فیصلے دے رہی ہے بلکہ ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ رعایتیں بھی برتنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے. اس تاثر نے جہاں الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کے کام کو مشکل بنا دیا ہے وہاں عدلیہ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے. یہ بہت افسوس ناک صورتحال ہے جس سے نکلنے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں.

PHC

پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ تنقید کی لپیٹ میں

عقیل یوسفزئی
پشاور ہائی کورٹ کو گزشتہ دو تین مہینوں سے اس کے سیاسی فیصلوں کے باعث سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں کے علاوہ ماہرین قانون اور وکلاء کی جانب سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور شاندار روایات کی حامل پشاور ہائی کورٹ کی ساکھ اور شہرت دونوں کو سخت نقصان پہنچا ہے جو کہ افسوسناک ہونے کے علاوہ تکلیف دہ بھی ہے. یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ جب گزشتہ جمعہ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر اس پارٹی سے اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا تو اسی روز تجزیہ کاروں نے سوشل میڈیا کے علاوہ مین سٹریم میڈیا پر بھی ایڈوانس میں کھلے عام کہنا شروع کردیا کہ پیر یا منگل کو پشاور ہائی کورٹ کے دروازے کھلنے دیں منٹوں کے اندر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے گا. یہی بات مذکورہ پارٹی کے رہنما اور وکلاء بھی کہتے رہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا عین انہی توقعات کے مطابق فیصلہ سامنے آیا. اس سے قبل سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سےسایفر کیس میں ایک اضافی نوٹ کو بھی “غیر ضروری اور سہولت کاری” کا نام دیکر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا. اس تمام صورتحال نے جہاں ایک طرف اکثر سیاسی جماعتوں کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی اعلیٰ عدلیہ کے مد مقابل کھڑا کردیا ہے وہاں اس سے جاری انتخابی مہم اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر بھی اثر پڑتا دکھائی دے رہا ہے. سینئر قانون دان نورعالم خان ایڈووکیٹ کے مطابق ان کو یہ منطق سمجھ نہیں آرہی کہ الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے دفاتر وغیرہ اسلام آباد میں ہیں اور فیصلے بھی اسلام آباد ہی سے آتے رہے ہیں مگر ان فیصلوں کو منسوخ یا کالعدم قرار دینے کے احکامات پشاور ہائی کورٹ سے جاری ہورہے ہیں اور 9 مئی کے واقعات میں ملوث لیڈروں کو ضمانتیں بھی ادھر سے مل رہی ہیں. ان کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کو نہ صرف متنازعہ بنایا گیا ہے بلکہ کچھ عرصہ سے اس کو سیاسی اکھاڑے میں بھی تبدیل کردیا گیا ہے جو کہ افسوسناک ہے. سینئر تجزیہ کار رضی دادا کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے کافی عرصہ سے مبینہ عدالتی ” سہولت کاری” کے ایک مرکز کی شکل اختیار کی ہوئی ہے اور جب بھی ایک مخصوص پارٹی اس کورٹ سے رجوع کرتی ہے سب کو ایڈوانس میں پتہ چل جاتا ہے کہ ادھر سے کیا فیصلہ آنے والا ہے.

images

داعش کا چیلنج، پاکستان اور احسان اللہ احسان

عقیل یوسفزئی

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک غیر ملکی اخبار کے لئے ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان انتہا پسند تنظیم داعش خراسان کو نہ صرف یہ کہ افغانستان کی امارت اسلامیہ کے خلاف استعمال کررہا ہے بلکہ ان کے بقول اس کے قیام میں بھی پاکستان کا کردار رہا ہے. احسان اللہ احسان یہ بات تکرار کے ساتھ کرتے آ رہے ہیں تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں. پہلی بات تو یہ کہ داعش عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ایسا گروپ ہے جس نے یورپ اور عرب سے جنم لیا اور اس تنظیم نے اپنے قیام کے بڑے عرصے بعد سال 2012.13 کے دوران پاکستان اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ان ہارڈ کور کمانڈرز کے ذریعے محدود سرگرمیاں شروع کیں جو کہ ٹی ٹی پی سے بوجوہ بعض ایشوز پر اختلافات رکھتے تھے. یہ لوگ افغانستان سے پہلے پاکستان کے خلاف بدترین حملوں میں ملوث رہے اور جب سیکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا تو وہ افغانستان چلے گئے. اگر داعش خراسان کو واقعی پاکستانی ریاست نے متعارف کرایا ہوتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مختلف اوقات میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور عوام کے خلاف حملوں میں ملوث کیوں ہوتی.؟ ایک اندازے کے مطابق صرف 2020 کے بعد داعش خراسان نے پاکستان میں تقریباً 23 حملے کئے ہیں جن میں باجوڑ کا خودکش حملہ بھی شامل ہےاور پشاور کے دو مختلف الخیال مگر پرو پاکستان مذہبی گروپوں کے وہ ایک مدرسہ اور مسجد پر ہونے والے خودکش حملے بھی اس تنظیم نے کرائے جن میں 100 سے زائد بچے اور نمازی شہید ہوگئے. داعش نے بلوچستان میں بھی متعدد حملے کئے. اس تناظر میں سٹیٹ پالیسی کے حوالے سے داعش اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ ٹی ٹی پی. دوسری بات یہ ہے کہ داعش نے افغانستان کے طالبان اور حکومت کے خلاف اس وقت کارروائیاں شروع کی تھیں جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کافی بہتر تعلقات قائم تھے. تیسری بات یہ کہ دنیا بھر کے ماہرین اور بعض طاقتور ممالک داعش کو امریکہ کی پراکسی سمجھتے ہیں. ان ممالک میں روس، چین اور ایران وہ اہم ممالک ہیں جن کے سربراہان کے ایسے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں وہ براہ راست امریکہ پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ داعش کو افغانستان میں ان ممالک کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے. سال 2020 کو روسی صدر پیوٹن نے افغانستان کی اشرف غنی حکومت اور طالبان دونوں کو آن دی ریکارڈ دھمکی دی کہ اگر انہوں نے وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے خطرہ بننے والی داعش کو قابو نہیں کیا تو روس خود کارروائی کرے گا. اسی طرح ایران نے اسی عرصے کے دوران الزام لگایا کہ امریکی سی آئی اے افغانستان میں داعش کو اسلحہ اور پیسہ دے رہا ہے اور یہ کہ ایران کے پاس اس کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں. سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان ان دوست اور اہم ممالک کے خلاف سرگرم عمل داعش کی سرپرستی کیوں کرے گا اور کس مقصد کے لیے کرے گا؟ حال ہی میں عالمی امور پر دسترس رکھنے والے ممتاز قوم پرست رہنما اور دانشور افراسیاب خٹک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ داعش کو امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان اور افغانستان کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں نہ صرف ان ممالک بلکہ چین کے خلاف بطور پراکسی استعمال کررہے ہیں. ان کے مطابق یہ عین وہی صورت حال ہے جو کہ ماضی میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان رہی ہے.

احسان اللہ احسان نے جو لاین لی ہے یہ امریکی اور برطانوی میڈیا کی وہ لاین ہے جو کہ ایک پالیسی کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کرتا آرہا ہے اور جس میڈیا ادارے میں ان کا مضمون شائع ہوا ہے وہ اس مہم میں پیش پیش ہے. یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خود افغان طالبان اور ان کی حکومت نے رواں سال متعدد بار احسان اللہ احسان کے ایسے بیانات اور مضامین پر ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو منع کیا جو کہ اس جانب اشارہ ہے کہ ان کے بیانیہ کو وہ افغان حکومت بھی پسند نہیں کرتی جس کے بارے میں صاحب مضمون کا دعویٰ ہے کہ پاکستان داعش وغیرہ کو اس کے خلاف استعمال کررہا ہے.

بنیادی طور پر زمینی حقائق کے تناظر میں احسان اللہ احسان کے اس موقف اور معلومات کو درست ماننے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے اس لیے ان کی تحریر اور موقف پر متعدد سوالات اٹھائے جارہے ہیں. وہ میڈیا میں خود کو زیر بحث رکھنے کا ہنر بہت اچھی طرح جانتے ہیں اس لئے ان کے “انکشافات” کو اس تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے.

army-chief-gen-asim-munir-is-chief

آرمی چیف کا دورہ امریکہ اور پاکستان کی عالمی اہمیت

عقیل یوسفزئی

پاکستان کے آرمی چیف اپنی اعلیٰ سطحی ٹیم کے ہمراہ گزشتہ ایک ہفتے سے امریکہ کے اہم دورے پر ہیں. آرمی چیف کا چارج سھنبالنے کے بعد ان کا یہ پہلا امریکی دورہ ہے جس کو عالمی میڈیا، تجزیہ کار اور سفارت کار بہت اہمیت دے رہے ہیں. آرمی چیف نے اس دورے کے دوران جہاں امریکہ کے اعلیٰ سطحی عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور ان سے خطے کو درپیش سیکورٹی چیلنجز اور پاکستان کی کاونٹر ٹیررازم پالیسی پر تبادلہ خیال کیا وہاں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن سے بھی اہم معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ان کو پاکستان کے موقف اور ترجیحات سے آگاہ کیا. امریکی میڈیا کے مطابق آرمی چیف کے اس اہم دورے کو ساوتھ ایشیا میں جاری کشیدگی کے علاوہ افغانستان میں جاری صورتحال کے تناظر میں بہت اہمیت دی جارہی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے ایک بہتر دور کا آغاز ہونے والا ہے. امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے تین مختلف بریفینگز میں کہا کہ پاکستان اور امریکہ کو عالمی اور علاقائی امن کے قیام کے لئے ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے اس لیے امریکہ پاکستان کے استحکام، ترقی اور سیکورٹی کو بہت اہمیت دے رہا ہے.

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جہاں واشنگٹن میں اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں وہاں انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر عالمی اداروں کے سربراہان سے بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں. سیکرٹری جنرل کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران انہوں نے اگر ایک طرف پاکستان کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کے بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا تو دوسری جانب انہوں نے کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں بھارتی اور اسرائیلی حکومتوں کی یکطرفہ کارروائیوں اور ان کے تباہ کن اثرات سے بھی ان کو تفصیل کے ساتھ پاکستان کے موقف اور تشویش سے آگاہ کیا.

انہوں نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے ساتھ بھی ایک نشست رکھ کر پاکستان کی ترجمانی کرنے اور ملک کی اقتصادی ترقی کی مد میں ان کی حصہ داری کو نہ صرف یہ کہ سراہا بلکہ ان کو یقین دلایا کہ پاکستان میں ان سمیت غیرملکی سرمایہ کاروں کا بھی خیر مقدم کیا جائے گا اور ان کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا.

ان کے دورہ امریکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار انیس فاروقی نے کہا کہ آرمی چیف کا دورہ بہت سے لوگوں اور حلقوں کی توقعات اور اندازوں سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس دورے کا فریم ورک اور روڈ میپ بہت وسیع ہے. ان کے مطابق اس دورے کے نتیجے میں پورے خطے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں متوقع ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معاملات سے باخبر حلقے اس دورے کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں.

images (1)

سانحہ اے پی ایس اور اس کے اثرات

عقیل یوسفزئی
16 دسمبر کا دن پاکستان بالخصوص پشاور کے لئے ایک ڈراونے خواب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ 2014 کو اس روز آرمی پبلک سکول پشاور کو بدترین دہشت گردی اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 132 بچوں سمیت 144 افراد شہید کئے گئے تھے جن میں اسکول کی پرنسپل بھی شامل تھیں. اس افسوسناک واقعہ کو گزرے 9 سال ہوگئے ہیں تاہم جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے پشاور سوگوار ہونا شروع ہوجاتا ہے کیونکہ اس واقعہ کو بھلایا نہیں جاسکتا. آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے نے جہاں تاریخ میں اپنے نہ بھلانے والے انمٹ اثرات مرتب کیے وہاں اس سانحہ نے پاکستان کے عوام اور قیادت کو پہلی بار یہ احساس دلایا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے بغیر نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے. اس حملے میں کل 6 دہشت گرد ملوث تھے جن میں اکثریت غیر ملکیوں کی تھی. انہوں نے 16 دسمبر کے علی الصبح جدید ہتھیاروں سے سکول کی پچھلی دیوار پھلانگ کر معصوم بچوں کو چن چن کر شہید کردیا اور پرنسپل سمیت متعدد دیگر سٹاف ممبرز کو بھی نشانہ بنایا. صورت حال پر قابو پانے کیلئے ایس ایس جی نے ایک آپریشن لانچ کیا جس کے نتیجے میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا. دوسرے مرحلے میں مختلف اوقات میں حملے میں ملوث دیگر متعدد دہشت گردوں کو یا تو فورسز نے نشانہ بناکر ہلاک کیا یا متعدد کو پھانسی دے دی گئی. تاہم اس کیس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حملے میں ملوث ایک دہشت گرد کی پھانسی کی سزا ان کی ایک اپیل کے باعث معطل کردی اور وہ تاحال درکار سزا کا منتظر ہے. باقی 4کو فوجی عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا دی گئی.
بعد میں اس افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں تمام تفصیلات جاری کی جبکہ واقعہ کے پس منظر میں بعض مبینہ کوتاہیوں کے متعدد ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائیاں بھی کی گئیں. اسی روز پاکستان کی تمام سیاسی اور عسکری قیادت پشاور میں اکھٹی ہوگئی اور اس موقع پر نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں ایک جامع پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کا بنیادی مقصد ملک سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کو یقینی بنانا تھا. نیشنل ایکشن پلان ہی کے مینڈیٹ کے تناظر میں ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد فوجی آپریشن کئے گئے اور ہزاروں دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا جس کے نتیجے میں سال 2021 تک پاکستان میں کافی امن رہا تاہم جب اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان دوبارہ برسر اقتدار آئے تو پاکستان پر ہونے والے حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا کیونکہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کی باقاعدہ سرپرستی شروع کی اور پاکستان ایک بار پھر پوری تیاری اور شدت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سرگرم عمل ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ 16 مئی کو بھلایا نہیں جاسکتا اور اس کی تلخ یادیں لمبے عرصے تک ذہنوں میں موجود رہیں گی تاہم پاکستان کی ریاست اور معاشرے نے ممکنہ حد تک کوشش کی کہ ملک سے شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے اور سب اسٹیک ہولڈرز ایک صفحہ پر ہو. اس وقت بھی پاکستان ایک فیصلہ کن جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اگر ایک طرف دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں تو دوسری طرف فورسز کی مسلسل کارروائیاں بھی جاری ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف رواں سال (2023) کے دوران مختلف آپریشنز کے نتیجے میں 550 سے زیادہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا. ماہرین کے مطابق 16 دسمبر کے اس ناقابل فراموش سانحہ نے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو نہ صرف ایک مربوط قومی بیانیہ کی تشکیل پر متفق کیا بلکہ اب بھی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کو شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سب سے موثر ترین دستاویز اور روڈ میپ سمجھا جاتا ہے.

Dera Ismail Khan once again on target 2023

ڈیرہ اسماعیل خان ایک بار پھر نشانے پر

عقیل یوسفزئی
خیبر پختون خوا کے اہم شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ روز ہونے والے ایک خودکش حملے کے نتیجے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے 25 جوان شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں. دوسری جانب فورسز نے کارروائیاں کرتے ہوئے 27 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں فورسز کی جانب سے سرچ آپریشنز جاری ہیں تاکہ علاقے کو محفوظ بنایا جائے. میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً 6 دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے درابن میں واقع ایک پولیس سٹیشن پر منگل کی علی الصبح اس وقت بارود سے بھری گاڑی کے ہمراہ حملہ کیا جب پولیس اور قریب ایک عارضی عمارت میں موجود پاک فوج کے جوانوں کی اکثریت سورہی تھی. فورسز نے فوری طور پر ردعمل دیا اور حملہ آوروں کو نشانہ بنایا تاہم بارودی مواد سے بھری گاڑی نے عمارت کو ہٹ کیا جس سے عمارت کی چھت بیٹھ گئی اور دو درجن سے زائد جوان شہید ہوگئے.
فورسز نے ایکشن لیتے ہوئے جوابی کارروائی کے طور پر 27 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگادیا. حملے کی اطلاع پاکر کور کمانڈر پشاور، آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس پختونخوا اور دیگر حکام ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گئے جہاں انہوں نے نہ صرف صورتحال کا جائزہ لیا بلکہ زخمیوں کی عیادت کی اور شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی. اس موقع پر شہداء کو شاندار انداز میں سرکاری اعزاز کے ساتھ خراج عقیدت پیش کی گئی. اعلیٰ سول، عسکری قیادت کے علاوہ مختلف پارٹیوں کے سربراہان اور علماء نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیانات میں دہشت گردی کے خاتمے تک پرعزم انداز میں جنگ جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے. دوسری جانب وزارت خارجہ میں افغان ناظم الامور کو ہنگامی بنیادوں پر طلب کرکے ان سے ایسے حملوں میں ملوث دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی اور واقعے کی رسمی مذمت کا مطالبہ کیا گیا ہے.
آئی ایس پی آر کے مطابق حملے کا پہلے ہی مرحلے میں جواب دیا گیا جس کی وجہ سے حملہ آور چیک پوسٹ پر قبضہ کرنے اور پولیس اسٹیشن میں گھسنے میں ناکام ہوگئے تاہم خودکش حملے کے نتیجے میں 25 جوان شہید ہوئے.
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور دیگر علاقوں میں روزانہ کے حساب سے ایسے حملے جاری ہیں اور شہادتیں ہورہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس کے باوجود الیکشن کے تناظر میں سیکیورٹی کی صورتحال بارے تشویش کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں اور اس کا بروقت انعقاد چاہتے ہیں. اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے بھی اس صورت حال پر افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کو حالت جنگ کا سامنا ہے فورسز کے علاوہ ان کی پارٹی سمیت متعدد دیگر پارٹیوں کو بھی سیکورٹی صورتحال کے باعث انتخابی مہم چلانے میں رکاوٹیں درپیش ہیں.
سینئر تجزیہ کار حسن خان کے مطابق یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستان کی مین سٹریم پارٹیاں اور میڈیا خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی کے حالات سے لاتعلق ہیں اور فورسز کو مسلسل قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں. ان کے مطابق اگر فورسز کی اتنی بڑی تعداد کسی اور ملک میں شہید اور زخمی ہوئی ہوتی جتنی ڈیرہ اسماعیل میں ہوئی ہے تو ملک میں سوگ کا اعلان کیا جاتا اور تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کی جاتیں. باصلاحیت صحافی عرفان خان نے اپنے تبصرے میں کہا کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت دہشت گردی کے معاملے پر نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ دہشت گرد قوتوں اور افغان عبوری حکومت پر بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان اب کسی رعایت یا لاتعلقی کے موڈ میں نہیں ہے اس لیے انہوں نے حملوں کی تعداد بڑھائی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے فورسز بھی مسلسل کارروائیاں کرتی جارہی ہیں اس لئے اس قسم کے حملے غیر متوقع نہیں ہیں تاہم اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو ریاست کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا.
ماہر تعلیم، محقق ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ پاکستان، اسکی قیادت اور عوام کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر امریکہ اور دیگر متعلقہ ممالک کو اب واضح پیغام دینا ہوگا کہ افغانستان میں جس انداز میں دہشت گرد قوتیں منظم ہورہی ہیں یہ ممالک اس سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوجائے کیونکہ پاکستان نے 20 برسوں تک ان کے ساتھ تعاون کیا ہے.
بہرحال اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کی کاونٹر ٹیررازم بہت موثر رہی ہے اور معاملات کافی پیچیدہ بھی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز دہشتگردی اور انتہا پسندی کے علاوہ پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم سے نمٹنے کیلئے ایک پیج پر آجائیں کیونکہ پاکستان بعض عالمی طاقتوں، علاقائی حریفوں کی مختلف نوعیت کی سازشوں سے دوچار ہے اور حالات سب سے قومی اتحاد کا تقاضا کررہے ہیں.

A dangerous narrative of a former prime minister and his background

ایک سابق وزیر اعظم کا خطرناک بیانیہ اور اس کا پس منظر

عقیل یوسفزئی
سابق وزیراعظم عمران خان کے نام سے ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کی پالیسی اور پراسیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور پاکستان کی اس پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بقول ان کے منفی اثرات مرتب ہوں گے. اس تفصیلی بیان کو جہاں ان کی پارٹی نے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر پورے اہتمام کے ساتھ پھیلایا وہاں افغان اور پاکستانی طالبان کے اہم عہدے داروں سمیت بعض قوم پرستوں نے بھی ” ویلکم” کیا جو کہ حیرت کی بات ہے. اس ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک انٹرویو اور بیان میں کہا کہ ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ جو شخص جیل میں قید ہیں انہوں نے ایسا بیان کیسے جاری کیا. ان کے مطابق یہ طے کرنا باقی ہے کہ اس جاری کردہ بیان کا پس منظر کیا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کسی بھی غیر ملکی کو نہ تو پاکستان میں پہلے کی طرح رہنے دیا جائے گا اور نہ ہی کسی غیر ملکی کو پاکستان کے اندر کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت دی جائے گی. یہی بات پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی پوری تفصیل کے ساتھ گزشتہ روز پشاور کے اپنے دورے کے دوران بھی کہہ چکے ہیں.
یہ تو طے ہے کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر مہاجرین کی واپسی پر کوئی رعایت اور لچک دکھانے کا کوئی امکان نہیں. ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کو اس نوعیت کی تفصیلی بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے متعدد اسباب ہوسکے ہیں تاہم اس بیان سمیت بعض دیگر بیانات یا الزامات سے دو باتیں بلکل واضح ہوگئی ہیں. ایک تو یہ کہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں یا گروپوں کی طرح مذکورہ پارٹی اور لیڈر نے بھی “پشتون کارڈ” استعمال کرنا شروع کردیا ہے. دوسرا یہ کہ اس کوشش یا بیانیہ کا مقصد عام افغان عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کےان طالبان کے ساتھ “اظہار یکجہتی” کرنا ہے جو کہ باہمی اشتراک سے پاکستان پر ایک غیر اعلانیہ جنگ مسلط کرچکے ہیں. ایک تیر سے دو شکار کے مصداق اس بیان کے ذریعے قوم پرستوں کی ہمدردی اورتوجہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے. اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بیان محض ایک اتفاق یا رسمی ردعمل نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے.اس لیے اس کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے. دوسری جانب اسی پارٹی کے ایک وکیل رہنما نے باجوڑ میں ہونے والے ایک کنونشن میں شرکت کے معاملے کو بہت بڑا ایشو بناتے ہوئے اپنی ٹویٹس میں اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے حکومت ان کو گرفتار کرنے کی بجائے خدانخواستہ کوئی جانی نقصان پہنچانے کا پلان بناچکی ہے حالانکہ پولیس نے ان کو پہلے سے درج مقدمات کے پس منظر میں گرفتار کرنے کی کوشش کی.
موصوف نے بھی اپنے لیڈر کے مہاجرین والے بیان کی طرح معمول کی اس سرگرمی کو بھی “پشتون کارڈ” کے طور پر استعمال کیا. مثال کے طور پر انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ پختونخوا کے پشتون اپنے “دشمن” سے لڑنے کی جنگ کو کامیاب بنائیں کیونکہ یہ پاکستان کی جنگ ہے. وغیرہ وغیرہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وکیل رہنما اور ان کے قاید پاکستان کی ریاست اور اس کی پولیس کو دشمن سمجھتے ہیں؟ اور کیا وہ عوام اور اپنے کارکنوں کو 9 مئی کی طرح پھر سے بغاوت اور مزاحمت پر آن دی ریکارڈ اکسارہے ہیں؟ ان دو سوالات کا جواب بدقسمتی سے “ہاں” ہی ہے.
اس لئے اس بیانیہ اور خطرناک طرزِ عمل کو ریاستی اور سیاسی طور پر سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا مزید ایسی “مہمات” اور کشیدگی کے متحمل نہیں ہوسکتے.

Women leadership conference in Peshawar 2023

پشاور میں وومن لیڈر شپ کانفرنس کا انعقاد

پشاور میں وومن لیڈر شپ کانفرنس کا انعقاد
عقیل یوسفزئی

Women leadership conference in Peshawar 2023
گزشتہ روز پشاور میں خیبر پختون کی خواتین کے مسائل اور صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے ایک وومن لیڈر شپ کانفرنس کا انعقاد کیا کیا گیا جس میں صوبے کے مختلف علاقوں سے 100 سے زائد باصلاحیت خواتین اور سٹوڈنٹس نے شرکت کی. گرو آپ نامی تنظیم کے زیر اہتمام منعقدہ اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں قبائلی علاقوں کی خواتین نے غیر معمولی تعداد میں شرکت کرکے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر ان کو ایک فعال کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے اور حکومت اور معاشرے کی جانب سے ان کی سرپرستی کی جائے تو وہ نہ صرف اپنے اپنے علاقوں بلکہ پورے صوبے اور ملک کی تعمیر نو اور ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں. اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نامور سماجی کارکن جلوت ہما نے کہا کہ اس کانفرنس کا انعقاد اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ پسماندہ علاقوں خصوصاً قبائلی اضلاع کی خواتین میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت سے لوگوں اور حکومت کو آگاہ کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ان خواتین، طالبات کو ان کی ذمہ داریاں اور اختیار دیکر ان کی سرپرستی کی جائے. آمنہ آفریدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خواتین کو قدرت نے بے پناہ ذہانت اور جذبوں سے نوازا ہے اور یہ ہر میدان میں لیڈرشپ کی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتی ہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے. سکینہ آفریدی کے مطابق دیہاتی علاقوں کی خواتین کو متعدد مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے اس لئے ان کی مشکلات کا ادراک کیا جائے. باصلاحیت صحافی اور براڈکاسٹر خالد خان مہمند نے کہا کہ صوبے کی خواتین بے انتہا صلاحیتوں کی حامل ہیں اور وہ ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی خواہش اور صلاحیت رکھتی ہیں بس ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے امکانات اور اقدامات پر توجہ دی جائے. ایڈیشنل سیکرٹری حمید اللہ خان نے مہمان خصوصی کے طور پر اپنے خطاب اور بات چیت میں کہا کہ حکومت خواتین کی کیپیسٹی بلڈنگ پر غیر معمولی توجہ دے رہی ہے اور اس کانفرنس کی طرح پورے صوبے خصوصاً ضم شدہ قبائلی علاقوں میں اس قسم کی مسلسل سرگرمیاں جاری ہیں تاکہ خواتین اور نئ نسل کو ان کے حقوق، صلاحیتوں اور فرایض سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے معاشرے کی تشکیل اور اصلاح کا کام لیا جائے.
سچی بات یہ ہے کہ اس ملک اور صوبے کو قدرت نے بے قدرتی وسائل کی طرح بے مثال ذہنی اور افرادی قوت سے بڑی سخاوت کے ساتھ نوازا ہے. اگر ایسے لوگوں کی سماجی، سیاسی اور حکومتی سرپرستی کی جائے تو اس کے نہ صرف یہ کہ بہترین نتائج برآمد ہوں گے بلکہ ہمیں شدت پسند رویوں سمیت متعدد دیگر منفی سرگرمیوں، اور اثرات سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی بہت مدد گی.