Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, May 13, 2024

سانحہ اے پی ایس اور اس کے اثرات

عقیل یوسفزئی
16 دسمبر کا دن پاکستان بالخصوص پشاور کے لئے ایک ڈراونے خواب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ 2014 کو اس روز آرمی پبلک سکول پشاور کو بدترین دہشت گردی اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 132 بچوں سمیت 144 افراد شہید کئے گئے تھے جن میں اسکول کی پرنسپل بھی شامل تھیں. اس افسوسناک واقعہ کو گزرے 9 سال ہوگئے ہیں تاہم جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے پشاور سوگوار ہونا شروع ہوجاتا ہے کیونکہ اس واقعہ کو بھلایا نہیں جاسکتا. آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے نے جہاں تاریخ میں اپنے نہ بھلانے والے انمٹ اثرات مرتب کیے وہاں اس سانحہ نے پاکستان کے عوام اور قیادت کو پہلی بار یہ احساس دلایا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکے بغیر نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے. اس حملے میں کل 6 دہشت گرد ملوث تھے جن میں اکثریت غیر ملکیوں کی تھی. انہوں نے 16 دسمبر کے علی الصبح جدید ہتھیاروں سے سکول کی پچھلی دیوار پھلانگ کر معصوم بچوں کو چن چن کر شہید کردیا اور پرنسپل سمیت متعدد دیگر سٹاف ممبرز کو بھی نشانہ بنایا. صورت حال پر قابو پانے کیلئے ایس ایس جی نے ایک آپریشن لانچ کیا جس کے نتیجے میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا. دوسرے مرحلے میں مختلف اوقات میں حملے میں ملوث دیگر متعدد دہشت گردوں کو یا تو فورسز نے نشانہ بناکر ہلاک کیا یا متعدد کو پھانسی دے دی گئی. تاہم اس کیس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حملے میں ملوث ایک دہشت گرد کی پھانسی کی سزا ان کی ایک اپیل کے باعث معطل کردی اور وہ تاحال درکار سزا کا منتظر ہے. باقی 4کو فوجی عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا دی گئی.
بعد میں اس افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں تمام تفصیلات جاری کی جبکہ واقعہ کے پس منظر میں بعض مبینہ کوتاہیوں کے متعدد ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائیاں بھی کی گئیں. اسی روز پاکستان کی تمام سیاسی اور عسکری قیادت پشاور میں اکھٹی ہوگئی اور اس موقع پر نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں ایک جامع پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کا بنیادی مقصد ملک سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کو یقینی بنانا تھا. نیشنل ایکشن پلان ہی کے مینڈیٹ کے تناظر میں ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد فوجی آپریشن کئے گئے اور ہزاروں دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا جس کے نتیجے میں سال 2021 تک پاکستان میں کافی امن رہا تاہم جب اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان دوبارہ برسر اقتدار آئے تو پاکستان پر ہونے والے حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا کیونکہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کی باقاعدہ سرپرستی شروع کی اور پاکستان ایک بار پھر پوری تیاری اور شدت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سرگرم عمل ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ 16 مئی کو بھلایا نہیں جاسکتا اور اس کی تلخ یادیں لمبے عرصے تک ذہنوں میں موجود رہیں گی تاہم پاکستان کی ریاست اور معاشرے نے ممکنہ حد تک کوشش کی کہ ملک سے شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے اور سب اسٹیک ہولڈرز ایک صفحہ پر ہو. اس وقت بھی پاکستان ایک فیصلہ کن جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اگر ایک طرف دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں تو دوسری طرف فورسز کی مسلسل کارروائیاں بھی جاری ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف رواں سال (2023) کے دوران مختلف آپریشنز کے نتیجے میں 550 سے زیادہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا. ماہرین کے مطابق 16 دسمبر کے اس ناقابل فراموش سانحہ نے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو نہ صرف ایک مربوط قومی بیانیہ کی تشکیل پر متفق کیا بلکہ اب بھی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کو شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سب سے موثر ترین دستاویز اور روڈ میپ سمجھا جاتا ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket