آپریشن عزم استحکام پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ یا کچھ اور ؟
عقیل یوسفزئی
نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں امن کی بحالی اور دہشت گردی، شدت پسندی کے خاتمے کے لئے آپریشن عزم استحکام کی منظوری پر پاکستان تحریک انصاف اور جے یو آئی نے مخالفانہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دونوں پارٹیاں اس مجوزہ آپریشن کی حمایت نہیں کریں گی ۔ تحریک انصاف کے کور کمیٹی اجلاس میں بھی اس ممکنہ اقدام کی مخالفت کی گئی جبکہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے منسوب ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا مزید آپریشنز کا متحمل نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اس سلسلے میں ان کے ساتھ کسی حتمی فیصلے کی بات چیت نہیں ہوئی ہے ۔ دوسری جانب اس پارٹی کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے ایک میڈیا ٹاک میں سوال اٹھایا ہے کہ حکمران ان کو یہ بتائیں کہ پاکستان میں آج تک کونسا آپریشن کامیاب ہوا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار نے بھی پارلیمنٹ میں ایسے ہی سوالات اٹھائے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے پارلیمنٹ والی تقریروں کا سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت وہ پارٹی کررہی ہے جس نے ہزاروں کی تعداد میں طالبان کو واپس بلاکر بسایا ۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے اور صوبائی حکومت ، برسرِ اقتدار پارٹی نے ماضی میں بعض دیگر کی طرح گڈ اور بیڈ کی بحث میں معاملات کو مزید خراب کردیا ہے تاہم ریاستی رٹ کو ہر صورت قائم کیا جائے گا ۔ بعض دیگر وزراء نے یقین دھانی کرائی کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے تناظر میں نہ صرف یہ کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے گا بلکہ ممبران پارلیمنٹ کے لیے ان کیمرہ سیشن کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا کے عوام ،سیاسی حلقوں اور سیکورٹی اداروں نے ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ بہت قربانیاں دی ہیں بلکہ یہ صوبہ سب سے زیادہ متاثر بھی ہوا ہے تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ گزشتہ دو تین برسوں سے پاکستان میں ہونے والے 70 فی صد حملے خیبرپختونخوا ہی میں کرایے گئے ہیں ۔ ان حملوں میں تقریباً 78 فی صد حملوں کے دوران سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنایا گیا جس کو ریاست نے اپنے خلاف کھلے عام جنگ کا نام دیا ۔ صرف رواں مہینے خیبرپختونخوا کے 9 اضلاع میں تقریباً 14 بڑے حملے کئے گئے ۔ جن اضلاع کو بار بار نشانہ بنایا گیا ان میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرت ہے ۔ ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ سیکورٹی فورسز اور وفاقی حکومت محض اس وجہ سے معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں کہ اس صوبے میں ایک مخالف پارٹی کی حکومت ہے اور وہ آپریشن یا دیگر اقدامات کی حامی نہیں ہے۔
صوبے کی برسر اقتدار پارٹی اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتی کہ اسی پارٹی کے ایک مذاکراتی عمل کے نتیجے میں ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجو یا تو افغانستان سے واپس لائے گئے یا سینکڑوں کو رہائی سمیت دیگر رعایتیں دی گئیں ۔ یہ بھی اس پارٹی اور اس کی حکومت کو ماننا پڑے گا کہ صوبائی حکومت کی سرے سے کوئی کاؤنٹر ٹیررازم پالیسی ہے ہی نہیں اور اس کے نتائج صوبے کے عوام اور فورسز کو بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔ فوجی آپریشن کو کسی صورت ایک خوشگوار اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کے دوران عام لوگوں کی تکالیف کے علاوہ فورسز کو بھی جانوں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں تاہم سب سے بڑا سوال اب بھی یہ ہے کہ تین برسوں سے جاری صورتحال سے نمٹنے کا آخر راستہ اور فارمولا ہی کیا ہے ؟ اس مسئلے کا اگر کوئی دوسرا حل ہے تو اپوزیشن پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے پارلیمنٹ میں وہ پیش کریں اور حکومتی اتحاد اور متعلقہ اداروں کو ایسے کسی مجوزہ فارمولے یا طریقہ کار پر پارلیمنٹ ہی کے فورم پر پوری قوم کے سامنے دلائل کی بنیاد پر پیش کرے ۔
جہاں تک اسد قیصر کی دلیل کا تعلق ہے کہ تو ان کو یہ یاددہانی کرائی جائے کہ سال 2009 کے دوران ملاکنڈ ڈویژن کے تین چار اضلاع پر طالبان نے عملاً قبضہ کرلیا تھا اور اس قبضے کو چھڑانا ایک آپریشن ہی کے ذریعے ممکن بنایا گیا تھا ۔ قبائلی علاقوں کے چار پانچ اضلاع بھی فورسز ، سیاسی جماعتوں اور عوام کے لیے نو گو ایریاز بن چکے تھے بلاشبہ وہاں کے حالات کو اب بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم پہلی والی صورتحال اب کے حالات میں بہت فرق ہے۔
اس تمام صورتحال کے تناظر ضرورت اس بات کی ہے کہ تلخ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب کیا جائے اور ملکی سلامتی اور صوبے کے مفادات کو درپیش چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اتفاق راۓ سے کوئی موثر لایحہ عمل اختیار کیا جائے ۔