کچھ عرصہ پہلے ایک مضمون لکھا تھا کہ ہمیں تو خوشی منانا بھی نہیں آتا ۔ جس میں ہم اس موضوع کو زیر بحث لائے تھے کہ ہماری عوام خوشی منانا بھی نہیں جانتی ۔آج مری میں ہونے والے حادثات کے بعد پھر اس مضمون کو لکھنے کی نوبت پیش آئی ہے کہ عوام کو اس نفسیاتی بیماری سےنکالا جائے کہ برفباری دیکھنے ، ہوائی فائرنگ ، ون ویلینگ سے خوشی کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ بندہ خوش ہو تو ایسی حرکتیں کرے جس سے ان کی جان کو خطرات درپیش ہوں ۔ دیکھا جائے تو کوئی بھی تہوار ہو ہم لوگ پاگل ہوجاتے ہیں ۔ون ویلنگ ،ہوائی فائرنگ، سیر سپاٹے کے لئے جاکر وہاں ایسی حرکتیں کرنا کہ اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں اور یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے ۔جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے ۔شو آف کرنا بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے الگ نظر آنے کی کوششوں میں لگا ہوتا ہے اور پھر اپنی جان گنوا دیتا ہے جس پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ موسم گرما میں سیاحتی مقامات پر جانا اور لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہوجانا ،اوور سپیڈنگ کے باعث ٹریفک حادثات کا شکار ہونا یہ معمول کی باتیں ہیں ۔
موسم سرما میں برفباری کو انجوائے کرنا اب ہر پاکستانی کی خواہشات میں شامل ہوچکا ہے اور گھر کے بچوں کو اس بات پر ٹرخایا جاتا ہے کہ پڑھائی کریں تو برف باری کے لئے مری ،نتھیاگلی اور سوات لے کر جائیں گے اور بچے اس آس اور امید پر والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ چھٹیوں میں لے لازمی جایا جائے گا اور پھر برفباری شروع ہوتےہی لوگ جم غفیر کی شکل میں اُن علاقوں کا رُخ کردیتے ہیں ۔ جہاں وہ برف باری کو انجوائے کرتے ہیں ۔مگر جب سے سوشل میڈیا کو ترقی ملی ہے خاص کر ٹک ٹاک اور سنیک ویڈیو سمیت وٹس اپ سٹیٹس شروع ہوئے ہیں لوگ دیوانہ وار کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔اور ہر خوشی کو انجوائے کرنے کے لئے دعوتوں کی ویٖڈیوز اور تصاویر شئیر کرتے ہیں ۔امسال جوں ہی برفباری شروع ہوئی لوگوں نے مری ،گلیات، کرم ایجنسی ، زیارت اور دیگر علاقوں کی جانب رخ کرنا شروع کردیا ۔ جہاں عام دنوں میں ہوٹلوں کے کرائے ہزار دو ہزار تھے وہ دس سے بیس ہزار کو پہنچ گئے اور لوگ پھر بھی باز آنے والے نہیں تھے ۔ انہوں نے اپنے خواہشات کو جلا بخشنے کے لئے سب کچھ بالائے طاق رکھ دیئے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف مری کے لئے ایک لاکھ گاڑیاں گئیں تھیں ۔ جس میں اگر ایوریج بھی کرلیں تو ہر گاڑی میں پانچ بندے بھی کرلیں تو مجموعی طور پر پانچ لا کھ ہوجائیں گے یعنی پانچ لاکھ لوگوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالی تھیں جنہیں موت کا کوئی خوف نہیں تھا صرف برف باری اُن کے ذہنوں پر سوار تھی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔منفی تک درجہ حرارت گیا اور برف باری زیادہ ہونے لگی اور دو دنوں میں سات سے آٹھ فٹ تک برف پڑ گئی ۔جس سے لوگوں کو جان کے لالے پڑگئے ۔ٹریفک جام میں پھنسی ہوئیں گاڑیوں پر برفباری شروع ہوئیں اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر گیا ۔پٹرول کی کمی ہوگئیں ۔گاڑیوں کے ہیٹر آن کئے گئے اور یوں سیاح پریشانی کا شکار ہوگئے کیونکہ اگے گاڑیاں تو پیچھے بھی گاڑیاں تھیں ۔واپسی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔سب بری طرح پھنس گئے تھے اور اُس وقت کو کوس رہے تھے جب انہوں نے مری کی برف باری کے لئے منصوبہ بندی کی تھی ۔تب ویڈیوز شئیر ہوئیں اور وزیر داخلہ شیخ رشید سمیت دیگر سرکاری عہدیدران ٹی وی پر آئے اورعوام کو متنبہ کیا کہ اب مری اور گلیات کا رُخ نہ کریں اور پھر کچھ اندوہناک ویٖڈیوز سامنے آئیں جس میں ایک خاندان کے چھ افراد میاں ،بیوی اور چاربچے سمیت ایک گاڑی میں چار پختون دوست بھی سردی کی شدت برداشت نہ کرسکے اور اب تک اطلاعات کے مطابق بیس افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جس کے بعد پنجاب حکومت نے مری کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا اور علاقے کو فوج کے حوالے کرتے ہوئے اسلام آباد اور روالپنڈی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ اب اس میں غلطی ہمارے اپنے روئیوں کی ہے کہ ہم بارش اور برفباری کو انجوائے کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل جاتے ہیں جس کا خمیازہ ایسے حادثات کی شکل میں پھر بھگتنا پڑتا ہے ۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں کیونکہ نفسیاتی قوم کے ساتھ ایسے حادثات پیش آتے رہتے ہیں اور وہ ایسے حادثات سے کوئی سبق نہیں لیتے بلکہ یہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ سب قسمت کا لکھا ہےجو ہوگا دیکھا جائے گا ۔ مگر پھر بھی ہمیں خوشی منانے کے طریقوں کو بدلنا ہوگا ورنہ ایسے حادثات ہمارے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں ۔جس پر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔