خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

حکمران جماعت نے صوبائی صدرات کاتاج وزیراعلیٰ ،علی امین گنڈاپورکے سرسے اتارکررکن قومی اسمبلی این اے 9ملاکنڈجنیداکبر کے سر پررکھ دیا ہے۔گزشتہ ہفتے اس معاملے پرتبصروں اوربحث ومباحثوں کاسلسلہ جاری رہا۔تحریک انصاف ذرائع اسکی یہ توجیح پیش کررہے ہیں کہ وز یر اعلیٰ کے کاندھوں پرکام کابوجھ زیادہ تھااسلئے انہیں ریلیف دینے بلکہ بقول عمران خان انکی نیندپوری کرنے کی خاطر یہ قدم لیا گیا ہے۔ اگرواقعی یہ کام بانٹنے کی بات ہوتی تواس کا خیر مقدم کیاجاتاکیونکہ صوبے کے سنجیدہ اورفہمیدہ حلقے گزشتہ ایک سال سے یہی مطالبہ دہرا رہے تھے کہ وزیراعلیٰ کوسیاست اوراحتجاجوں میں بری طرح پھنسایاگیاہے اسلئے وہ حکومتی امورپرتوجہ دینے سے قاصرہیں ۔وہ آئے روز احتجاجوں ،دھرنوں اورلانگ مارچوں میں مصروف رہتے ہیں جس سے حکومتی کارکردگی بری طرح متاثرہوتی ہے۔وزراپرپارٹی کے اندر سے کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں ،صوبے میں امن وامان کی صورتحال ابترہوچکی ہے اوراگرحکومتی توجہ کایہ عالم رہاتوکرم جیسے مزیدکئی لاوے پھٹ سکتے ہیں جس پرقابوپانا حکومت کیلئے مشکل ہوگا اورجیساکہ کرم میں آخرکارآپریشن کافیصلہ کرناپڑادیگرعلاقوں میں بھی حالات اس نہج تک جاسکتے ہیں۔ کرم حالات کی خرابی کوحکومتی عدم توجہی کانتیجہ قراردیاگیا۔جس دن کرم کے مین شاہراہ پرگاڑیوں سے اتارکر50 افراد کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیااسی روزوزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت اسلام آبادپریلغارمیں مصروف تھے۔ اسلئے وزیراعلیٰ کی غیرسرکاری ذمہ داریوں میں کمی احسن فیصلہ قراردیاجاسکتاہے ۔مگرعلی امین سے صوبائی صدارت واپس لینے کامعاملہ اتناسادہ نہیں جتناپیش کرنیکی کوشش ہورہی ہے ۔خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف ہمیشہ سے گروہ بندی کاشکاررہی ہے ماضی میں پرویزخٹک، اسدقیصر،اعظم سواتی ،مرادسعید اور عاطف خان وغیرہ کے درمیان جوتیوں میں دال بٹنے کاسلسلہ جاری رہاہے پارٹی راہنماؤں کی ایک بڑی تعدادخودکونظریاتی جبکہ دیگرکوابن الوقت قراردے رہی ہے ۔ 2013ء انتخابات میں کامیابی کے بعدپرویزخٹک کووزیراعلیٰ نامزدکیاگیاجبکہ پارٹی کارکنوں کی اکثریت عاطف خان کواس عہدے پردیکھنے کی متمنی تھی مگر مصلحت کے تحت پرویزخٹک کووزیراعلیٰ بنادیا گیا ۔درمیان میں کئی بارعاطف خان کے ٹیک اوورکی سرخیاں بنیں مگرپرویزخٹک کے پاس چونکہ ایم پی ایزکاایک بڑاگروپ موجودتھااسلئے وہ اپنے جثے کے برعکس بھاری پتھر ثابت ہوئے ۔ 2018ء میں کامیابی کے بعدایک بارپھرعاطف خان کانام بطور وزیر اعلیٰ لیاجانے لگامگراتنی دیرتک پرویزخٹک بھی پارٹی میں ‘‘نظریاتی ’’ کادرجہ پاچکے تھے اورحسب سابق انہیں ایک بڑی تعدادمیں ایم پی ایزکی حمایت بھی حاصل تھی وہ توبذاتِ خوددوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے شد ید آرزومندتھے مگرانہیں وفاق میں ذمہ داری دی گئی اورانکی مرضی سے محمودخان کووزیراعلیٰ بنادیاگیا۔جبکہ عاطف خان کی اشک شوئی کیلئے انہیں سنیئروزیربنادیاگیا۔بعدازاں عاطف خان ،انکے کزن شہرام ترکئی اورشکیل خان کوحکومت کے خلاف سازش کاالزام لگاکر وزار تو ں سے برطرف کردیاگیابرطرف شدہ وزراکاخیال تھاکہ انکے خلاف پرویزختک گروپ نے سازش کی ہے ۔2024ء انتخابات میں کامیا بی کے بعدعلی امین گنڈاپورکووزیراعلیٰ نامزدکیاگیا۔چندماہ بعدہی شکیل خان نے عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں بتایاکہ صوبائی وزرا بدعنوا نی میں ملوث ہیں ۔جس پرعمران خان نے قاضی انور،شاہ فرمان اورمصدق عباسی پرمشتمل ایک گڈگورننس کمیٹی بنائی اورانہیں شکیل خان کا معاملہ دیکھنے کی ہدایت بھی دی جس کی سفارش پرشکیل خان کووزارت سے بر طرف کردیا گیا۔اس برطرفی پرجنیداکبراورعاطف خان نے سخت ردعمل دیتے ہوئے شکیل خان کوایک ایمانداروزیرقراردیا ۔ پارٹی کے نظریاتی سمجھنے والے گروپ کے ارکان کواکثروبیشتربرطرفیوں کاسامناکرناپڑا۔اب ایک بارپھرعاطف خان کو وزیر اعلیٰ بنانے کی باتیں زیر گردش ہیں مگروہ چونکہ قومی اسمبلی کے ممبرہیں اسلئے فوری طورپر ایساممکن نہیں ۔مگرعلی امین گنڈاپوربھی خاصے پرامید ہیں کہ وہ اپنے عہدے پربرقراررہیں گے۔ انکے قریبی ذرائع کاکہناہے کہ صوبائی صدارت انہوں نے ازخودچھوڑی ہے ۔معتبرذرائع کے مطابق انہیں صوبائی صدارت سے ہٹانے کی سفارش قا ضی انور ایڈوکیٹ ،مشعل یوسفزئی،عاطف خان وغیرہ نے کی ۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ بشریٰ بی بی اورعلی امین کے درمیان اختلافات نے جنم لیاتھااسلئے انکے پَر کترنے کی سفارش بشریٰ بی بی نے کی ہے ۔بہرحال وجہ جوبھی ہو،وزیراعلیٰ کوپارٹی عہدے سے ہٹایاگیا،یاانہوں نے از خودچھوڑ دیا، مگر انہیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹاناخاصامشکل ہوگا،کیونکہ اب وہ بھی تحریک انصاف کے ‘‘نظریاتی ’’راہنمااورپرویزخٹک کی طرح وہ بھاری پتھربن چکے ہیں جنہیں اپنی جگہ سے سرکانے کیلئے دانتوں پسینے آئیں گے ہاں البتہ کابینہ میں ردوبدل ممکن ہے کچھ ‘‘نظریاتی ارکان’ ’ وزیربن سکتے ہیں اورچندوزیر فارغ ہونے کے امکانات ہیں جووزیراعلیٰ کے حامی بھی ہوسکتے ہیں ۔غالب امکان تویہ ہے کہ پارٹی کے نئے اورنظریاتی عہدیدارعلی امین کیلئے مشکلات پیدانہیں کرینگے اورمحلاتی سازشو ں کاحصہ بننے سے گریز کرینگے ۔ اب جبکہ عمران خان حکو مت کیساتھ مذاکرات ختم کرچکے ہیں اورایک بارپھراحتجاجی سیاست کاعندیہ دیا جا رہا ہے، یادرہے یہ احتجاجی سیاست 26نومبرکے بعد مؤخر کر کے مذاکراتی سیاست کاآغازکردیاگیاتھا۔اب یہ مذاکرات بھی ختم کردئے گئے ہیں اورجنیداکبرکی تعیناتی سے یہ پیغام دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ وہ احتجاجی سیاست کوجلابخشیں گے۔ مگرکیاجنیداکبران توقعات پرپورا اتریں گے، وہ پارٹی میں کوئی نئی روح پھونک سکیں گے؟ وہ کوئی کرشماتی شخصیت کے مالک نہیں بس عام سے سیاسی کارکن ہیں مگرانکے بار ے میں دعویٰ کیاجارہاہے کہ وہ حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اورعمران خان تینوں کیلئے قابل قبول ہیں اسلئے توانہیں فوری طورپر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کاچیئرمین بھی تعینات کردیاگیاہے ۔ پارٹی قائدنے وزیراعلیٰ کے کاند ھو ں سے صوبائی صدارت کابوجھ اتارکر جنید اکبر کے حوالے کیاہے ۔ جنیداکبرنے 8فروری کوصوابی میں جلسہ عام کااعلان کرکے سڑکیں بند کرنے اورلانگ مارچ وغیرہ کی دھمکی بھی دی ہے ۔ ان حالات میں کسی ذمے دارکی کارکردگی کاجانچ کیسے ممکن ہے جب اسکی ڈورجیل سے ہلائی جارہی ہو۔ اب نظریاتی سمجھے جا نے والے راہنماؤں کوپارٹی عہدے ملے ہیں یہ عہدیداراپنی ہی حکومت کوٹف ٹائم دینگے ؟اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کابدلہ لینگے ؟ یابانی کی رہائی کیلئے کوئی مؤثر تحریک چلاپائینگے ؟ یہ تبدیلی پارٹی اورقائدکے حق میں کتنی سودمندثابت ہوتی ہے اسکافیصلہ آنے والے چندماہ میں ہوجائیگا۔ مگرمشکل نظر آرہاہے کہ جنیداکبربطورِصوبائی صدر علی امین گنڈاپورسے زیادہ مؤثرثابت ہوں۔علی امین احتجاجوں میں سرکاری وسائل کابے دریغ استعمال کرتے تھے اب یہ وسائل جنیداکبر کوشائدہی میسرہوں ۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket