خیبرپختونخوا کی صورتحال

وصال محمد خان

سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعدپورے ملک کی طرح خیبرپختونخوامیں بھی انتخابات کاعمل شروع ہوچکاہے انتخابی جلسے جلوس توگزشتہ چھ ماہ سے جاری ہیں کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ جانتی تھی کہ آج نہیں توکل انتخابات کامیدان ضرورسجے گااب چونکہ انتخابات کے انعقادمیں پچاس دن سے بھی کم وقت باقی ہے توتمام سیاسی جماعتیں لنگوٹ کس کرمیدان میں نکل چکی ہیں بلاول بھٹودومرتبہ صوبے کادورہ کرچکے ہیں پہلے مرحلہ میں انہوں نے ورکرزکنونشنز منعقدکئے جبکہ دوسرے دوسرے میں جلسوں سے خطاب کیاجیساکہ قارئین جانتے ہیں انکی ہرتقریرکالب لباب نوازشریف پرتنقیداورلیول پلینگ فیلڈکے مطالبات ہیں انکے والداورجوڑتوڑکے حوالے سے شہرت یافتہ سینئرسیا ستدان آصف زرداری نے بھی صوبے کادورہ کیا انہوں نے سیکیورٹی کے سبب گورنرہاؤس پشاورمیں قیام کیاجہاں انہوں نے مختلف سیاسی ملاقاتیں کیں اورصوبے میں مصروف ترین وقت گزارا۔دیگرجماعتیں بھی اپنے طورپرسیاسی رابطوں اورملاقاتوں میں مصروف عمل ہوچکی ہیں جے یوآئی ،اے این پی اورپیپلزپارٹی کے درمیان سیٹ ایدجسٹمنت کے امکانات ظاہرکئے جارہے ہیں اگرچہ دس پندرہ روزقبل مولانا فضل الرحمان یہ بیان دے چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کیساتھ انتخابی اتحادزیرغورنہیں اورنہ ہی ایساہوگا۔مگرچونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخرنہیں ہوتی اورکل کے دشمنوں کوآج دوست بنتے دیرنہیں لگتی بقول عمران خان بڑالیڈروہی ہوتاہے جویوٹرن لینے کاماہرہوکوئی بعیدنہیں کہ مولانابھی بڑالیڈرہونے کاثبوت دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کیساتھ اگرمکمل انتخابی اتحادنہیں توسیٹ ایڈجسٹمنت پرمتفق ہوجائیں اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان رابطے بھی ہوئے ہیں جس کاتاحال کوئی واضح نتیجہ سامنے نہ آسکا۔جے یوآئی وفد نے اے این پی کے مرکزی سیکرٹریٹ باچاخان مرکزپشاورکادورہ کیاہے جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بارے بات چیت ہوچکی ہے شنیدہے کہ ابتدائی ملاقات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خدوخال زیربحث آئے ہیں مگرمزیدملاقاتوں کے بعدکوئی واضح صورتحال سامنے آئے گی اے این پی اور پی پی پی کے درمیان بھی وفودکی سطح پرملاقاتیں ہوچکی ہیں دونوں جماعتیں خودکوایک دوسرے کی قدرتی اتحادی سمجھتی ہیں دونوں میں قدرمشترک دہشت گردی کے خلاف اپنایاجانے والامؤقف ہے اے این پی گزشتہ دس بارہ سال سے دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پرہے اوراسکے کئی اکابرین دہشت گردی کانشانہ بن چکے ہیں اسی پیپلزپارٹی بھی سمجھتی ہے کہ انکی قائدمحترمہ بے نظیربھٹوکودہشت گردنشانہ بنا چکے ہیں اس لئے پارٹی کامؤقف دہشت گردی کے حوالے سے واضح اورسخت ہے دونوں جماعتوں کے درمیان 2008ء سے2013ء کے دوران اتحاد رہا ہے جس میں دونوں نے ایک دوسرے کیلئے فراخدلی کامظاہرہ کیامرکزمیں حکومت ہونے کے ناطے کئی صوبائی راہنماؤں کاخیال تھاکہ امیرحیدرہوتی کو ہٹاکر پیپلزپارٹی کاوزیراعلیٰ لایاجاسکتاہے انورسیف اللہ اور انجینئرہمایوں نے خاصی سرگرمی دکھائی مگرصدر آصف زرداری چونکہ مفاہمت کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں اسلئے ان کی جانب سے صوبائی راہنماؤں کوگرین سگنل نہیں دیاگیا اے این پی نے بھی مرکزمیں پیپلزپارٹی کا بھر پور ساتھ نبھایااس وقت اے این پی کے پاس سینیٹ میں 12جبکہ قوی اسمبلی میں تیرہ ارکان تھے جوہرکڑے وقت میں پی پی کی غیرمشر وط حمایت کرتے رہے اوردیگراتحادیوں کی طرح کسی قسم کی بلیک میلنگ بھی نہیں کی گئی اسی اسمبلی میں مولانافضل الرحمان کے پاس محض چھ ارکان تھے مگران کاچاروزارتوں پرقبضہ تھاجبکہ اے این پی نے مرکزمیں 25نشستیں ہونے کے باوجودصرف ایک ریلوے کی وزارت لی تھی اوراسمبلی کے اختتام تک یہی ایک وزارت اس کے پاس رہی۔ صوبائی سطح پراگرچہ کشمکش موجودتھی مگرمرکزی سطح پردونوں پار ٹیوں کی اعلیٰ قیادت ساتھ نبھاتی رہی جس کے نتیجے میں نہ صرف صوبے کانام تبدیل ہوابلکہ اٹھارہویں ترمیم بھی منظورہوئی جس کے تحت صوبے خودمختار ہوئے گزشتہ پانچ سال بھی اے این پی نے ہرموقع پر آصف زرداری کی تائیدکی۔ لہٰذاقوی امکان ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحادقائم ہو۔ جے یوآئی اورمسلم لیگ (ن) کے درمیان بھی سیٹ ایڈجسٹمنت پربات ہوئی ہے اس گفت وشنیدکے دوران مسلم لیگ(ن) نے جے یوآئی سے 10قومی اور30کے قریب صوبائی نشستوں پرفیورمانگی ہے مذاکرات کی یہ بیل بھی تاحال منڈھے نہ چڑھ سکی ہے ۔صوبے میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی ، آفتاب شیرپاؤکی قومی وطن پارٹی ،پاکستان پیپلزپارٹی ،جے یوآئی ،اورن لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کچھڑی پک رہی ہے ان پانچ جماعتوں کے درمیان اگرتمام سیٹوں پرایڈجسٹمنٹ نہ ہوسکی توپارٹی سربراہو ں کیلئے میدان کھلاچھورنے پراتفاق ممکن ہے ۔پرویزخٹک کی پی ٹی آئی پی اورجماعت اسلامی فی لحال سولوفلائٹ کے فیصلے پرکاربندنظرآر ہی ہیں گزشتہ ماہ پرویزخٹک نے دعویٰ کیاتھاکہ کئی جماعتیں انکے ساتھ رابطے میں ہیں مگرتاحال کسی جماعت کیساتھ انکے مذاکرات ہوئے ہیں اورنہ ہی ملاقاتیں ہوئی ہیں اب چونکہ کاغذات نامزدگی وصول اورجمع کرنے کامرحلہ جاری ہے اسلئے اتحادوں کے خدوخال واضح ہونے میں زیادہ دیرنہیں لگے گی۔جہاں تک جماعت اسلامی کاتعلق ہے تو2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادمیں اس نے پی ڈی ایم اوراتحادیوں کاساتھ نہیں دیاگزشتہ انتخابات میں جے یوآئی کیساتھ جماعت کااتحادہوا تھا مگرانتخابات کے بعد یہ اتحادپارہ پارہ ہوا اب نہ ہی توجماعت نے کسی کیساتھ اتحادیاسیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے رابطہ کیاہے اورنہ ہی اس قسم کاکوئی عندیہ دیاگیاہے جس سے ظاہرہورہا ہے کہ جماعت تنہاپروازکرے گی ۔تحریک انصاف کے ساتھ اے این پی ،جے یوآئی(ف)اور پیپلز پارٹی تینوں جماعتیں اتحادیاسیٹ ایڈجسٹمنت کے امکانات مستردکرچکی ہیں اسلئے یہ جماعت بھی تنہاپروازکیلئے کوشاں ہے مذکورہ بالا پانچ جماعتوں کیساتھ پی ٹی آئی کااتحاد خارج ازامکان قراردیاجارہاہے۔ ہاں جماعت اسلامی اورپی ٹی آئی پی دونوں کے پاس اتحاد کی ویکنسی خالی ہے مگرجماعت بھی گزشتہ انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کی زخم خوردہ ہے اگرچہ2013ء سے2018ء تک جماعت اسلامی صوبائی طورپرپی ٹی آئی حکومت کی اتحادی رہی ہے اورخزانہ ،بلدیات اورزکوٰۃ جیسی اہم وزارتوں پراس کاقبضہ تھا یہ اتحادپر ویزخٹک اور جماعت اسلامی کے درمیان تھا۔ جماعت نے اسمبلی کی مدت تکمیل سے چندہفتے قبل استعفے دیکرحکومت کوخیربادکہہ دیاتھا۔پانچ بڑی جماعتیں پی ٹی آئی کیساتھ اتحادسے انکاری ہیں جبکہ پرویزخٹک اورجماعت اسلامی کاان پانچوں سے فاصلہ برقرار ہے ۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket