مصنف: لبنٰی آفتاب
موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک اہم انسٹرومینٹ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ انسٹرومینٹ نہ صرف سوشلیزیشن میں کام آتا ہےبلکہ ذاتی معیشت کوبہتر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس میں سب سے اہم چیز ہے کلکس۔ کلکس کی گیم سے آپ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کھما سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شائع ہونے والا مواد پہلے لوگوں کی توجہ حاصل کرتا ہے۔ پھر انہی معلومات کولائک، شئیر اور کمنٹ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس طرح ایک پوسٹ کئی ہزاروں کلکس لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایشیاں ممالک ایک ڈالر اور یورپیں ممالک تین سے پانچ ڈالرہزار فالورز پرکماتے ہیں۔ لیکن یہ ایڈوٹیزر اور کنٹریکٹر کی مرضی سے زیادہ بھی ہوسکتےہیں۔
گیم اف کلکس یا مینٹائزیشن ایک ایساعمل ہے جس میں طےشدہ معیار کوپہنچنے کے بعد کوئی بھی اپنے پیچ اور چینل کو مینٹائز کروا سکتا ہے۔
تحقیقات کےمطابق ۴۴ ملین پاکستانی، سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور صارفین کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۰ میں جاری کیے گئے اعدادوشمار کےمطابق اس وقت نوجوان ۹۰فیصد فیس بک، 6 فیصد ٹیوٹر، 1 فیصد یوٹیوب اور انسٹراگرام استعمال کرتے ہیں۔
انسٹراگرام بزنس کے مطابق، 66فیصد لوگ انسٹراگرام کا استعمال نئی مصنوعات کی دریافت کے لیے کرتے ہیں اور ۸۰ فیصد ایک برنڈ کوفالو کرتے ہیں۔حرت انگیز بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں، ہر روز پانچ ارب یوٹیوب ویڈیوز دیکھے جاتے ہیں اور صارفین تقریبا ۴۰ منٹ یوٹیوب سیشن میں گزارتے ہیں۔
سوشل میڈیا منیٹائزیشن کے اعداد و شمار ڈھکے چھپے نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہورہاہے۔ جب سوشل میڈیا کمانے کا زریعہ بن گیا تو اس پر شئیر ہونے والی معلومات کی کریڈیبلٹی گرتی گئی اور یوں ہم معلوماتی اور معاشی آلودگی کے دور میں آگئے۔ بشتر لوگ اس بارے میں سوچنے میں ناکام ہیں کہ کون سی معلومات قابل اعتماد ہیں۔ بس کلک کر جاتے ہیں
سوشل میڈیا جدید دور کی جدید ایجاد ہےجو کمیونٹیز کے ذریعے نظریات ، خیالات اور معلومات کو شیئر کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہے ۔پاکستان میں ترقی پزیر ڈیجیٹل میڈیا اہم حصہ ہے کیونکہ بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے اپنے صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ، ڈیجیٹل میڈیا پاکستان میں معلومات کی فراہمی کے کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو کم تعلیم یافتہ ہیں اور انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے ہیں وہ بھی بالواسطہ طور پر ڈیجیٹل میڈیا سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ صارفین کے ذریعہ ان کو فوری طور پر معلومات پہنچائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم براہ راست یا بالواسطہ ڈیجیٹل میڈیا کے زیر اثر ہیں اور بنیادی طور پر اس پر یقین کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک کلک یا ایک سوائپ حیرت انگیز کام کرتا ہے اور ہمارے لئے معلومات کی خفیہ ڈیجیٹل دنیا کو کھول دیتا ہے
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم معلومات کے دور میں نہیں بلکہ معلوماتی آلودگی میں تبدیل ہونے والے معلوماتی عارضے کی دور میں رہتے ہیں۔ جو ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ خطرناک ہے۔ پچھلے دو دہائیوں کے دوران ، نئے میڈیا نے نوجوانوں کی زندگیوں میں ایک بڑھتی ہوئی مرکزی موجودگی قائم کی ہے ، جس نے نئے چیلنجوں کو جنم دیا ہے۔
۴۴ ملین پاکستانی، آبادی کا قل ایک چوتھائی حصہ سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے،جس میں 50 سے زیادہ فیس بک صفحات کی نشاندہی کی گئی جو سیاست سے متعلق ہیں اور جن کے کل مداح 30 ملین افراد سے بھی زیادہ ہیں۔جب 1،600 سے زائد افراد میں سروے کیا گیا کہ وہ کوئی بھی خبر بغیر تصدیق کے کیوں آگے پہنچاتے ہیں، اس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ لوگ اس بارے میں سوچنے میں ناکام ہیں کہ آیا مواد سچ ہے یا جھوٹ یا قابل اعتماد ہے یا نہیں بس جو بھی اچھا لگے کلک، لائک اور شیئر کر دیتے ہیں۔
اس ڈیجیٹل میڈیا کی ایجاد نے یقین دہانی کرائی تھی کہ معلومات انسان کی صرف ایک کلک کے فاصلے پر موجود ھون گی جو کہ ایک حقیقت ہے مگر اس نے ساتھ ہی گیم اف کلکس کو جنم دیا ۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس نے انسان کے دماغ کو لائیک، سبسکرائیب اور دئے گئے لنک کے زریعے سارہ دن سوشل میڈیا پر گھومنے پر اور بغیرسوچے سمجھے ضروری اور غیر ضروری خبروں اور تفریح میں الجھایا ہوا ہے۔اس لیے نوجوان نامعلوم اور غلط معلومات استعمال کرنے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ اجتماعی طور پر ، ہم اس کو انفارمیشن ڈس آرڈر کہتے ہیں۔
ہم سب معاشرتی رسموں کا شکار ہیں ، ہمیں واقعی پرواہ ہے کہ دوسرے لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ جب ہم فیس بک پر اپنی نئی تصویر اپ لوڈ کرتے ہیں تو ، یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہمارے ذہن کو یہ جاننے کا اشتراک ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ میری نئی پروفائل فوٹو کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اسی طرح جب ہمیں اپنی پروفائل فوٹو پر نئی لائکس کی فکر ہو جاتی ہیں۔
میڈیکل کے مطابق سوشل میڈیا اور سیل فون کے ساتھ مصروفیت میں دماغ ڈوپامائن نامی کیمیکل جاری کرتی ہے۔ ڈوپامائن عین وہی کیمیکل ہے جو سگریٹ نوشی ، شراب پینے اور جوئے بازی کرتے وقت اچھا محسوس کراتی ہے۔ پوری نوجوان نسل کو سوشل میڈیا اور سیل فون تک رسائی حاصل ہے اس لیے وہ زیادہ تناؤ سے گذر رہے ہیں ان کے پاس تناؤ سے مقابلہ کرنے کا طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ لہذا ، جب ان کی زندگی میں تناؤ ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے ، تو وہ کسی شخص کی طرف نہیں بلکہ سوشل میڈیا کا رخ کرلیتےہیں۔ جاکر انسٹاگرام پر دیکھیں تو آپ کو کوئی اشارہ نہیں ہوگاکہ یہ بچے خودکشی کر رہے ہیں
نشہ آور سنٹر کے مطابق ، نوعمر افراد سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں کے عادی ہوکر ضرورت سے زیادہ استعمال میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،جس سے وہ نشہ کے عادی لوگوں کی طرح علامات ظاہر کرتے ہیں جیسے موڈ میں ترمیم ، وہم، دلائل سے دستبرداری ، اور گھبرا کر پریشان ہوجانا ۔ اگر انہیں سوشل میڈیا تک مستقل رسائی سے روکا جائے تو وہ ان میں تناؤ ، افسردگی ، اسکول میں کم کامیابی ، کم تجسس اور نیند کی کمی سمیت دیگر مسائل کو جنم دیتی ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی حاصل کردہ معلومات کا معیار اہم ہے کیونکہ یہ ان کے فیصلہ سازی کو متاثر کرسکتا ہے ، ان کی معاشرتی زندگی کو متاثر کرسکتا ہے ، اور ان کے رویوں کی تشکیل کرسکتا ہے۔ انفارمیشن ڈس آرڈر کو ختم کرنے میں ان کی مدد کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سوچنے کی ضروری صلاحیتیں ہوں۔ اس وقت یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بڑھتی ہوئی سوشل میڈیا یوزر کی تعداد کلک گیم میں بڑاچلینچ اور حاصل کردہ معلومات کے معیار کے لیے خطرہ ہے۔