اعظم خان پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے گریڈ بائیس کے آفیسر ہیں ، جوکہ اختیارات کے لحاظ سے بیورو کریسی کی سب سے طاقتور پوسٹ ہوتی ہے، اعظم خان کا تعلق ضلع مردان کے علاقے رستم کے گائوں کھنڈر کس کو ترپان سے ہے، پشاور میں میری عملی صحافت سال ۲۰۱۰ میں شروع ہوئی، اس لئے، اس سے پہلے کے معلومات کیلئے میں نے سیکرٹریٹ بیٹ کرنے والے سینئر صحافیوں اور کئی سینئرریٹائرڈ بیورو کریٹس اور سیاستدانوں سے رابطے کئے، اکثریت کے مطابق اعظم خان کی پوسٹنگ جہاں بھی ہوئی اور جس نے بھی کی تو وہ دو سے تین ماہ کے دوران متنازعہ بن جاتے۔ ہاں یہ بات تقریباً سب نے تسلیم کی کہ اعظم خان فائلوں کا انبار نہیں لگاتے بلکہ فوری اور بلاخوف بولڈ فیصلہ لیتے چلے آرہے ہیں، یہ بتایا جارہا ہے کہ سال ۱۹۹۸ میں جب صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور سردار مہتاب عباسی وزیراعلی تھے،تو انہوں نے ڈپٹی کمشنر پشاوراعظم خان کو ناراضگی کی بنیاد پر عہدے سے ہٹا دیا تھا۔جب سال ۲۰۰۲ میں صوبہ میں ایم ایم اے کی حکومت بنی، اور اکرم خان درانی وزیراعلیٰ بنے تو ذرائع کہتے ہیں کہ وزیراعلٰی اکرم خان درانی نے اپنی پہلی ہی سرکاری میٹنگ کے بعد اعظم خان کی خدمات وفاق کے حوالے کیں اور یوں صوبہ بدر کیا، ۲۰۰۶میں اعظم خان جنوبی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ بنے، یہ وہ دور تھا جبکہ قبائیلی علاقوں میں غیر ملکی دہشتگردوں کے خلاف پاک فوج کی کاروائیاں شروع ہوچکی تھیں، کئی ڈرون حملے بھی ہوئے ، ان تمام واقعات کی تفصیلات پولیٹیکل ایجنٹ اعظم خان ملکی و غیر ملکی میڈیا کو دیتے رہے، جس کی وجہ سے انٹرنیشنل میڈیا کے لوگ جوق درجوق جنوبی وزیرستان آنے لگے، ذرائع کے مطابق اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل شوکت سلطان کی جانب سے منع کرنے کے باوجود وہ پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے میڈیا کو بریفنگ دیتے رہے جس پر انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا گیا، بعد میں جب میں اور حضرت خان مومند سال ۲۰۱۸ میں اعظم خان ( جو چیف سیکریٹری خیبر پختونخواہ بن چکے تھے) سے ملے ، اور حضرت خان مومند نے ان سے آئی ایس پی آر والے تنازعے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اقرار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ وہ پی اے اور ایجنسی کے انتظامی سربراہ تھے،اس لئے تفصیلات فراہم کرنا ان کی ذمہ داری بنتی تھی۔
۲۰۰۷کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بنی، مردان سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی امیرحیدر خان ہوتی نے اعظم خان کو مردان سے تعلق کی بنا پر پرکشش عہدوں پر تعینات کیا، امیر حیدر ہوتی کی حکومت میں اعظم خان مختلف اعلیٰ انتظامی عہدوں پربراجمان رہے جس میں ایم ڈی ٹوارزم، سیکریٹری ، کلچر واثار قدیم ،سیکریٹری سپورٹس کمشنر پشاور اور انتہائی اہم پوزیشن سیکریٹری ہوم اینڈ ٹرائیبل افئیرز شامل ہیں، اپریل ۲۰۱۲ اے این پی کے دور حکومت میں جب دہشتگردوں نے بنو ں جیل پر حملہ کرکے جیل توڑا اور بڑی تعداد میں اپنے ساتھی دہشتگرد فرار کروائے، تو اس وقت اعظم خان سیکریٹری ہوم اینڈ ٹرائیبل افئیرز تھے۔
۲۰۱۳کے عام انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی مخلوط حکومت بنی، نئی حکومت کے ابتدائی تین ماہ کے دوران یعنی 29 جولائی کو دہشتگردوں نے ڈی آئی خان جیل توڑا، اوروہ 175قیدی جن میں 35 ہائی پروفائل دہشتگرد بھی شامل تھے، چھڑوانے میں کامیاب ہوئے۔ اس واقعہ میں چار پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک بھی ہوئے۔ جیل بریک کا یہ دوسراواقعہ بھی اعظم خان کے اس دور میں ہوا جب وہ سیکریٹری ہوم اینڈ ٹرائیبلافئیرز تھے ا،جس کی تحقیقات کیلئے وزیراعلی پرویز خٹک کی ہدایت پر سینئر بیورو کریٹ ڈاکٹر حماد اویس آغا کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنی،کمیٹی نے اعظم خان سے پوچھ گچھ کی جس پر انہوں نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے وزیراعلی کو فون کیا تھا، لیکن وزیراعلی پرویز خٹک نے ان کا فون اٹینڈ نہیں کیا، یکے بعددیگرے جیل بریک کی وجہ سے اعظم خان کوسیکریٹری ہوم اینڈ ٹرائیبل افئیرزسے ہٹا دیا گیا۔اعظم خان کی ملازمت تنازعات سے بھری پڑی ہے۔
جب سال 2014 میں اس وقت کے گورنر کے پی سردار مہتاب عباسی نے اعظم خان کو بطور ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا تعینات کیا۔تو دو ماہ کے دوران ہی گورنر سردار مہتاب عباسی او ر اے سی ایس اعظم خان کے درمیان اختلافات کھل کرسامنے آگئے،
ذرائع کے مطابق گورنر مختلف قبائیلی ایجنسیوںمیںمن پسند پولیٹیکل ایجنٹ /اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ تعینات کرنا چاہتے تھے، لیکن ،اعظم خان ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ان کا موقف تھاکہ وہ انتظامی تقرریاں اور تبادلے خود کیا کریں گے، یاد رہے فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ لگانے کیلئے کروڑوں کی رشوت دی جاتی تھی اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔
بعض ذرائع کے مطابق ان کے درمیان اختلافات فاٹا میں ریڈیواسٹیشنوں کے قیام پرپیدا ہوئے ، جس پر سردار مہتاب احمد خان عباسی نے اعظم خان کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اب ایک دلچسپ واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ ۲۰۱۴ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور انکی سیکریٹری اطلاعات مرحوم نعیم الحق خیبر ٹی وی کے دورہ پر آئے تھے۔ یہ ایک بے تکلفانہ ملاقات تھی، جس میں چیف ایگزیکٹیو اے وی ٹی چینلز نیٹ ورک کامران حامد راجہ صاحب اور خیبر ٹی وی کے سینئر منیجمنٹ کے چار دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔ عمران خان نےصوبائی حکومت کے ساتھ بیورو کریسی کی عدم تعاون کا گلہ کیا اور کہا کہ کہ پرویز خٹک محنت کرتے ہیں بیورو کریسی فائل کے اوپر بیٹھ جاتی ہے، اور جب ہم مرکز سے کسی بیوروکریٹ کو مانگتے ہیں تو وہ شہباز شریف کو دے دیتے ہیں۔اس وقت خیبر پختونخواہ میں محمد شہزاد ارباب چیف سیکرٹری تھے اور پرویز خٹک کے ساتھ تعلقات انتہائی خراب تھے۔ جس پر ارباب صاحب نے پرویز خٹک کے خلاف عمران خان کو ایک خط بھی لکھا تھا۔عمران خان نے مجھ سے تیز کام کرنے والے اور بلا خوف فیصلہ کرنے والے بیوروکریٹس کے بارے میں پوچھا، تو میں نے تین نام جن کو میں کام کے حوالے سے جانتا تھا خان کو بتا دیئے۔ وہ تینوں نام نعیم خان، ڈاکٹر حماد اویس آغا اور اعظم خان کے تھے، خان نے مرحوم نعیم الحق کو کہا کہ ان ناموں کے بارے میں تھوڑی معلومات چاہئیے، مرحوم نعیم الحق نے تھوڑی دیر بعد کسی سے رابطے کرنے کے بعد خان صاحب کو بتایا کہ نعیم خان جونئیر ہیں، ڈاکٹر حماد اویس سیکریٹری فارسٹ ہیں اوراعظم خان کی گورنر کے ساتھ اختلافات اور مسائل کےبارے میں خبریں ہیں، لیکن عمران خان کی دلچسپی اعظم خان میں اس لئے بڑھی کہ ان کی مسلم لیگی گورنر کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے تھے،اس لئے وہ پی ٹی آئی حکومت کو فطری طور پر سپورٹ کرینگے۔ اس طرح شائد یہ پہلی بار تھا کہ عمران خان کے ساتھ اعظم خان کا تعارف خیبر ٹی وی کے دفتر میں ایک نشست میں اتفاقاً ہوا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت میں اعظم خان سیکریٹری ٹوارزم بنا ئے گئے۔اور غالباً ۲۰۱۵ میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری پی اینڈ ڈی بنائے گئے، اس دوران وزیراعلی پرویز خٹک کے نئے چیف سیکریٹری امجد علی خان کے ساتھ بھی نہیں بنی، جنہیں اکتوبر ۲۰۱۶ میں ہٹاکر عابد سعید کو چیف سیکریٹری بنا دیا گیا۔ اگست ۲۰۱۷ میں عابد سعید کی ریٹائرمنٹ کے بعد تقریبا ایک ماہ تک چیف سیکریٹری کی پوسٹ خالی تھی، وجہ یہ بتائی جارہی تھی، کہ عمران خان ، اعظم خان کو چیف سیکریٹری بنانا چاہتے ہیں، جبکہ پرویز خٹک ان کی مخالفت کررہے تھے، تاہم ۱۴ستمبر۲۰۱۷ کو اعظم خان کو چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا بنا دیا گیا۔ شروع کے چند مہینوں میں وزیراعلی پرویز خٹک اور اعظم خان کے تعلقات نارمل تھے، لیکن جوں جوں چیف سیکریٹری اعظم خان ، عمران خان کے درمیان قربت بڑھتی رہی، پرویز خٹک کے ساتھ انکے تعلقات خراب ہوتے گئے، پرویز خٹک نے انہیں ہٹانے کی کوشش کی لیکن اعظم خان عمران خان کی اشیر باد کے باعث چیف سیکریٹری کے عہدے پر برقرار رہے، ۲۰۱۸میں الیکشن کا اعلان اور نگران حکومتیں بن جانے سے اعظم خان کا تبادلہ ہوا، اورعام انتخابات کے بعد جب عمران خان وزیراعظم بن گئے، تو انہوں نے اعظم خان کو اپنا پرنسپل سیکریٹری مقررکردیا ، باوجود اس کے کہ وہ 21 ویں گریڈ میں اور سینیارٹی لسٹ میں کافی نیچے تھے،کے پی میں پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت سے لیکر اب تک یہ تاثر تھا کہ اعظم خان اور عاطف خان کے درمیان بہترین تعلقات ہیں اور یہ بھی ایک وجہ بنی تھی کہ پرویز خٹک اور اعظم خان کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوئی تھی،لیکن باخبر ذرائع کے مطابق سینئر وزیرعاطف خان اور شہرام ترکئی سینئر بیوروکریٹ ڈاکٹر فخرعالم کو چیف سیکریٹری بنانا چاہتے تھے، ان کے مقابلے میں مشیر وزیراعظم برائے اسٹبلیشمنٹ محمد شہزاد ارباب شہزاد بنگش کیلئے کوشش کررہے تھے ، لیکن اعظم خان کاظم نیاز کو چیف سیکریٹری کے پی بنانے میں کامیاب ہوئے۔اسی طرح ائی جی کے پی پولیس کی تعیناتی میں بھی اعظم خان اور محمد شہزاد ارباب کے اختلافات کی وجہ سے ڈاکٹر نعیم خان کو ہٹا کر ڈاکٹر ثنا اللہ کو ائی جی پی لگا دیا گیا ، اس کی وجہ سے ان کے اختلافات شدید ہوگئے۔ اس دوران وزیردفاع پرویز خٹک کے چونکہ محمد عاطف خان اور ارباب شہزاد کے ساتھ تعلقات خراب چلے آرہے تھے ۔ وہ اعظم خان کے قریب آگئے ، جس کی وجہ سے پہلے عاطف خان اور شہرام ترکئی اور اب کے بار محمد شہزاد ارباب وزیراعظم عمران خان کا اعتماد کھو بیٹھے عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں اعظم خان پرکشش عہدوں پر تعینات رہے، لیکن وہ کبھی بھی وزیراعلی امیرحیدرہوتی کی قربت حاصل نہیں کرسکے تھے، اس لئے یہ جاننا اہم ہے کہ آخر اعظم خان نے عمران خان کو اپنا گرویدہ کیسے بنالیا، اس کے بارے میں پشاور کے بہت ہی باخبر سینئر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں، کہ اعظم خان عمران خان کی پسند وناپسند کو جان گئے تھے، مثلا سیاحتی اور ثقافتی سرگرمیاں جیسے موسیقی، میلوں کا انعقاد کرنا،نشترہال کی رونقیں بحال کرنا، آرٹسٹوں اور فنکاروں کیلئے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنا، آثار قدیمہ کی پروموشن، نوجوانوں کیلئے یوتھ سمٹ،صوبائی سطح پر گیمز کا انعقاد، ڈپٹی کمشنر کی کھلی کچہری کا انعقاد اور سب سے بڑھ کر میڈیا کے ذریعے ان تمام کاموں کی زبردست تشہیر شامل ہے، اور عمران خان کو یہ چیزیں پسند تھیں، اعظم خان بالواسطہ یا بلاواسطہ الزامات کی زد میں بھی آئے۔ جیسے کہ ڈائریکٹر آثار قدیمہ ڈاکٹر عبدالصمد کو نیب نے کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا جس کی تعیناتی اعظم خان نے کی تھی، اس طرح انکے تحت ٹورازم کے کئی ایک ایونٹس میں کرپشن کے الزامات لگے، انکوائری بھی ہوئی،لیکن انکوائری رپورٹ دبا لی گئی، مالم جبہ اراضی سکینڈل تو بہرحال نیب میں ہے، اس کے علاوہ اعظم خان پرایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ فیورٹزم کرتے ہیں جس کی مثال طارق خان اور عادل صافی کی اہم عہدوں پر تعیناتی ہے، یہ بھی کہا گیا کہ اعظم خان نے 22گریڈ کی پروموشن بورڈ کی سربراہی کی جس میں انکی اپنی پروموشن کیس بھی شامل تھا، جہانگیر خان ترین کی حالیہ الزامات کے بعد اعظم خان میڈیا کی شہ سرخیوں میں آگئے ہیں۔