آرمی چیف اور افغان صدر کے درمیان اہم تبادلہ خیال

پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو ٹیلی فون کر کے ان کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی اور مذاکراتی عمل کی اب تک کی پیش رفت پر نہ صرف اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا بلکہ یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا تاکہ ایسا کرنے کے نتیجے میں پورے خطے کو خوشحال بنایا جاسکے ۔افغان صدارتی محل (ارگ) سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تفصیلی ٹیلی فونک رابطے کے دوران ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ پاکستان کے آرمی چیف نے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ دوحہ مذاکرات کے معاہدے کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ کا مرحلہ بھی احسن طریقے سے طے ہو جائے گا اور یہ کہ اس ضمن میں پاکستان ایک پڑوسی اور برادر ملک کی حیثیت سے حسب معمول مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرے گا۔ آرمی چیف نے اشرف غنی کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی اور ان کو ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔
جاری کردہ بیان کے مطابق اس رابطے کے دوران مذاکراتی عمل کے علاوہ دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور اس عزم کا دوطرفہ اظہار کیا گیا کہ خطے کے امن اور استحکام کے علاوہ علاقائی ترقی کے لئے مشترکہ کام کیا جائے گا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اور آرمی چیف نے کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر بھی گفتگو کی۔ اس موقع پر افغان صدر نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے علاوہ ان سینکڑوں افغان باشندوں کو سہولت دینے اور سفر کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کیا جو کہ کاروبار یا دیگر سرگرمیوں کے سلسلے میں پاکستان آئے تھے اور سرحدوں کی بندش کے باعث پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ آرمی چیف نے اس ضمن میں افغان صدر کو بتایا کہ حکومت نے افغان مہاجرین کی ریلیف کے لئے خصوصی پیکیج اور دیگر اقدامات کے اعلانات اور فیصلہ کر رکھے ہیں اور یہ کہ طورخم اور چمن کی سرحدیں بھی ان افغان بھائیوں اور تاجروں کے لیے کھول دی جائیں گی جو کہ اپنے ملک واپس جانا چاہ رہے ہیں ۔ دونوں شخصیات نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم بڑھانے کی مختلف تجاویز پر بھی تبادلہ خیال کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ بزنس اور آمدورفت کو تیز اور آسان بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کئے جائیں گے۔ اس موقع پر بعض دیگر معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس میں افغان بھائیوں کے لئے صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
دیکھا جائے تو اس اعلٰی سطح رابطہ اور تفصیلی تبادلہ خیال کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے جاری مذاکراتی عمل اور انٹر افغان ڈائیلاگ کے سلسلے میں بھی مدد ملے گی۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں گزشتہ دو تین برسوں کے دوران افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے اور الزامات کے روایتی رویہ میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ مسئلے کے پرامن حل کے لیے پاکستان کے کردار کو نہ صرف افغان قیادت بلکہ امریکی قیادت اور بعض دیگر متعلقہ ممالک کے علاوہ عالمی میڈیا نے بھی کئی بار سراہا۔ جہاں تک کرونا سے پیدا شدہ صورت حال کا تعلق ہے پاکستان نے 4 اپریل کو ایک اعلامیہ جاری کیا ، اس میں اعلان کیا گیا کہ طورخم اور چمن کے بارڈرز6 سے 9 اپریل تک تین دنوں کے لئے کھول دئیے جائیں گے تاکہ افغان بھائی واپس جا سکے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم اور آرمی چیف نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ افغانستان میں اشیاءخوردونوش کی کمی کی صورت میں بھی خوراک کی مواد کی فراہمی کے سلسلے میں اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے لیے 200 ملین روپے کےخصوصی پیکیج کا اعلان کر دیا ہے تاکہ کرونا بحران سے متاثرہ افراد کی بحالی اور امداد کو ممکن بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ افغان حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ کاری اور ممکنہ تعاون کی بات بھی کی گئی ہے۔ اس وقت افغانستان میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اتوار کے دن تک افغانستان میں کروناسے 9 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ افغان حکومت نے پاکستان سے واپس جانے والوں کے لیے طورخم بارڈر کے دوسری جانب ایک بڑا قرنطینہ مرکز بھی بنایا ہے جہاں ان کی سکریننگ کی جائے گی۔

وزیراعظم عمران خان کا تاریخی کارنامہ

پاکستان میں جمہوری حکومتیں پہلے بھی آئی ہیں، لیکن کسی بھی حکومت نے اپنے وزراء اور ساتھیوں کے کرپشن اور لوٹ مار کی تفتیشی رپورٹ پبلک نہیں کی ہے اور اگر عدالت یا کسی دوسرے دباؤ کے تحت حکومت وقت کو اس طرح کے تحقیقات بہ امر مجبوری کرنا پڑی ہیں تو ان تحقیقات کو سرد خانے کی نذر کیا گیا، اس لئے شائد یہ پہلی بار ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم نے اپنے ہی حکومت میں شامل طاقتور وزراء و سیاسی شخصیات کی مبینہ کرپشن ( آٹا اور چینی) کی تحقیقات کے لئے غیر جانبدار کمیٹیاں بنائیں، حکومت نے نہ صرف تحقیقاتی کمیٹی کو آزادانہ کام کرنے دیا بلکہ جو تحقیقات سامنے آئی انہیں من و عن تسلیم کیا اور بجائے اپنے دوستوں کو بچانے اس تحقیقاتی رپورٹ کو پوری قوم کے سامنے رکھ دیا، یہ بلاشبہ ایک قابل تحسین اقدام ہے جس کی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔

پانامہ لیکس جے آئی ٹی سے شہرت پانے والے اور موجودہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان تمام کرداروں کو بے نقاب کیا ہے جنہوں نے2019 میں آٹے اور چینی کی مصنوعی بحران پیدا کرکے اربوں روپے کمائے، تحقیقاتی رپورٹ میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی بھی بتائی گئی ہے کہ کس طرح پہلے چینی بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی اور ایکسپورٹرز کو قومی خزانے سے سبسڈی بھی دی گئی اور پھر جب ملک کے اندر چینی کی قلت پیدا ہوئی تو انہی ایکسپورٹرز کو چینی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی اور اس پر ڈیوٹی معاف کرکے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ ایف آئی تحقیقاتی کمیٹی نے ملک میں آٹے کی ذخیرہ اندوزی کرکے اربوں کمانے والے فلور مالکان اور مافیا کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس پورے مصنوعی بحران سے جہاں دوسرے سرمایہ داروں نے فائدہ اٹھایا وہاں پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں میں شامل سیاسی شخصیات نے بھی قومی خزانے کو لوٹا۔

ایف آئی اے پورٹ کے مطابق گزشتہ برس چینی پر تین ارب کی سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ یعنی 22 فیصد جہانگیر ترین نے اٹھایا۔ جہانگیر ترین کے جے ڈبلیو ڈٰی گروپ نے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی، وفاقی وزیر صوبہ بندی خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروہ نے 35 کروڑ سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔ اسی طرح ال موئز گروپ (مونس الہی، سپیکر پنجاب اسمبلی کے فرزند) نے 40 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں حکومتوں نے جو سبسڈی دی ان میں سے آر وائی کے گروپ نے چار ارب ، جہانگیر ترین نے تین ارب روپے سے زائد جبکہ ہنزہ گروپ نے دو ارب 80 کروڑ اور فاطمہ گروپ دو ارب 30 کروڑ کی سبسڈی لی۔ رپورٹ کے مطابق شریف گروپ نے ایک ارب 40 کروڑ جب کہ اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی، اومنی گروپ وہی ہے جس پر نیب عدالت میں منی لانڈرنگ کیس چل رہا ہے۔ رپورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومتوں کی نااہلی بھی سامنے لائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں خرید کا سیزن اپریل کے مہینے سے شروع ہوتا ہے جو جون تک چلتا ہے۔ اس دوران وزیراعلی عثمان بزدار نے محکمہ فوڈ سیکیورٹی کے چار سیکریٹری تبدیل کئے، جن میں شوکت علی، نسیم صدیق، ظفر نصراللہ اور وقاص علی محمود شامل ہیں۔ تقرر کیے گئے چار سیکرٹریوں کے لیے تیار کی گئی سمریوں میں وجوہات درج نہیں کی گئیں اور یہ تمام زبانی احکامات کے تحت کی گئیں۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ انتظامی تبدیلیاں شوگر انڈسٹری کی دباؤ پر کی گئی۔ اسی طرح تحقیقاتی رپورٹ میں خیبرپختونخوا میں گندم کی قلت اور اوور پرائسنگ کی ذمےداری وزیر خوراک قلندر لودھی، سیکریٹری اکبر خان اور ڈائریکٹر فوڈ سادات حسین پر ڈال دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف وزیراعظم عمران خان کو موصول ہو چکی ہے بلکہ انہی کی حکم پر پبلک بھی کی گئی ہے، اگر چہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں اور تجزیہ کار اب بھی اس رپورٹ کو حکومتی چال اور نمبر سکورنگ قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ ان جیسے بڑے مگرمچھوں کو سزا نہیں ملے گی، تاہم وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فرانزک رپورٹ آنے کے بعد ملوث تمام شخصیات کے خلاف ضرور قانونی کارروائی کی جائے گی، بعض باخبر ذرائع یہ خبر بھی دے رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بی آر ٹی تحقیقاتی رپورٹ کو بھی عوام کے سامنے لانے اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ بہت اہم پیش رفت ہے اگر وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت سے احتساب شروع کرتے ہیں اور کرپٹ وزرا کو سزائیں دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عوام کا نہ صرف احتسابی عمل بلکہ حکومت پر بھی اعتماد بحال ہوگا۔

Is saluting doctors and offering tributes enough?

Pakistani nation has proved its resilience every time it has come face to face with a calamity. whether it is flood, earthquake or any other natural disaster, Pakistani people have forded its way back through unity and sheer determination.

COVID 19, a novel virus has currently hijacked the entire globe where more than 205 countries and territories around the world have reported more than million confirmed cases. Pakistan has also been affected by this pandemic where the virus has affected a considerable strength.

Despite a late start on response measures, government has been able to control the rapid spread of the virus while improving the overall health facilities to cope with emergency situation. Every department, whether public or private sector has stepped up to ensure that pandemic do not spread further. However, major responsibility of tackling the virus rest on the shoulders of doctors and paramedics.

Doctors and paramedics are constantly on the frontlines against COVID 19, risking their lives to save others. The fact that the virus has no proven cure right now and is currently treated through various trial methods, makes doctors and paramedics jobs more challenging. Despite shortage of personal protective equipment, their commitment and dedication is commendable. In fight against COVID 19, doctors are the real soldiers on borders, who are facing the main burnt of this pandemic. Dr. Osama Riaz (late) lost his life while screening and treating COVID 19 patients and became the first Pakistani doctor who died of coronavirus.

Pakistan payed a rich tribute to their fighting spirit and sacrifices by saluting and raising white flags at their homes. However, the question arises that are such tributes enough or we need to do more. Expecting a doctor to fight against COVID 19 without protective equipment is ignorant and callous. Though due to global spread of virus, there is a shortage of supplies and government is trying hard to provide as much as it can. However, this pandemic should lead to major reforms in our health departments.

The pandemic has exposed numerous flaws in our health system, where we do not have enough lifesaving equipment nor the skill to locally manufacture it. Whenever, there will be a global crisis, it is only the local industry which will be available to rescue the situation. Therefore, in long term we need to enhance our local manufacturing while ensuring enough stockage level of such equipment through priority purchase. We need to learn fast otherwise, i am afraid, next time saluting doctors would not be enough. Being son of the soil, they will still be on the frontline but expecting them to fight without proper equipment is heartless and cruel. So saluting doctors and offering tribute may work for optics but to really value them we need to provide them the requisite tool to fight against pandemic.