the poeple of Khyber Pakhtunkhwa and moon sighting issueخیبرپختونخوا کے لوگوں کے سامنے سوال رکھا کہ وہ مفتی منیب الرحمٰن کو مانتے ہیں یا شہاب الدین پوپلزئی کو؟ او

روزہ رکھنے اور عید کرنے کے معاملے میں مفتی منیب الرحمان کی سنیں یا مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی؟

خیبر پختونخوا کے لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔آئیے جانتے ہیں۔

میں نے خیبرپختونخوا کے لوگوں کے سامنے سوال رکھا کہ وہ مفتی منیب الرحمٰن کو مانتے ہیں یا شہاب الدین پوپلزئی کو اور اسکی وجہ کیا ہے؟

اس کا نتیجہ مختلف آراء اور نہایت دلچسپ جوابات جو کہ میں آپ کے پیش نظر کر رہی ہوں۔

پہلے تو وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مفتی منیب کو تو چاند کبھی نظر نہیں آتا۔۔ ہمارے علاقے جیسا کہ کرک، بنوں اور دیگر اضلاع کا ماحول صاف ہے ہمیں چاند نظر آ جاتا ہے لیکن وہ شہادتیں وصول نہیں کرتا۔۔۔پوری دنیا میں روزہ ہے ایک پاکستان میں ہی نہیں۔۔۔ سعودیہ عرب صرف دو گھنٹے ہم سے آگے ہے تو پھر روزہ کیوں 24 گھنٹے کے فرق سے رکھے ۔۔۔ آج پہلے روزے کی افطاری کے بعد ہمیں چاند نظر آیا۔۔۔ تو کل مفتی منیب کو دوربین میں نظر آنا چاہیے تھا۔۔۔۔ اور پوپلزئی غیر سیاسی بندہ ہے اور انکی کمیٹی 1884 میں بنائی گئی تھی یہی اعلان کرتے تھے اور آباؤ اجدد انہی کو مانتے ہیں انہیں تجربہ ہے جبکے مفتی منیب گورنمنٹ کا بندہ ہے ۔۔۔۔

کچھ اس قسم کے نظریات رکھنے والے خیبرپختونخوا کے لوگ شہاب الدین پوپلزئی کی پیروی کرتے ہیں انکے اعلان کے ساتھ روزہ رکھتے اور عید کرتے ہیں چاہے ڈھائی کروڑ کی آبادی کا فیصلہ چند شہادتوں پر کیا گیا ہو جن میں سے ایک کا کہنا تھا کہ میں آسمان کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا اچانک مجھے چاند نظر آیا اور پھر غائب ہوگیا، چاند تھا یا مچھر جو آنکھوں کے سامنے اچانک غائب ہو گیا۔

اب آپ لوگوں کو لگے گا کہ لکھاری منیب الرحمٰن کی پیروی کرتے ہیں۔ نہیں ابھی انکو بھی ہم نے کٹہرے میں لانا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

اب باری آتی ہے ان لوگوں کی جو مفتی منیب کے فالورز ہیں انکے نظریات کچھ یہ ہیں کہ حاکم وقت چاہے جیسا بھی ہو اسکی اطاعت ہم پہ لازم ہے اور اس وقت پاکستانی ہونے کے ناطے ہم پر مفتی منیب الرحمان کی اطاعت لازم آتی ہے کیونکہ وہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ اس بارے میں وہ حدیث کا حوالہ دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ یہ جملہ بڑے فخر سے بولتے ہیں کہ اگر مفتی منیب غلط ہے تو پوپلزئی پارٹی عیدالاضحیٰ ہمارے ساتھ کیوں کرتی ہے۔۔۔ اسکے جواب میں پوپلزئی پارٹی کہتی ہے کہ عیدالاضحیٰ دراصل مفتی منیب ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔۔ پھر منیب پارٹی فرماتی ہے چھوٹی عید سعودیہ کے ساتھ کرتے ہو تو بڑی عید سعودیہ سے ایک دن بعد کیوں کرتے ہو ۔۔۔ میری عید میری مرضی۔۔۔ لاحاصل بحث ختم ہو جاتی ہے۔۔

منیب پارٹی سے ایک اور سوال میں نے کیا کہ چند سال پہلے مفتی منیب صاحب نے اعلان کیا تھا کہ چاند نظر نہیں آیا، اسی شام کو پاکستان کی ایک فلائٹ اتری اور اس میں موجود تمام لوگوں نے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد چاند دیکھا تھا، پھر ہنگامی سطح پر دوسرا اجلاس ہوا اور عید کی نوید سنا دی گئی۔۔ اسکے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اس نے اپنی غلطی ٹھیک کی، اب وہ ٹھیک ہے یا غلط گناہ اسکے سر پہ جائے گا ۔۔۔۔ شاہد اسی ڈر کی وجہ سے مفتی صاحب پاکستان کے چاروں صوبوں میں سے ایک صوبہ سے آئی ہوئی شہادتوں کو بر طرف رکھتے ہوئے ایک اور روزہ رکھوا لیتے ہیں تاکہ انکے کندھوں پر بیس کڑوڑ عوام کے روزہ کھانے کا گناہ نہ آئے۔۔۔۔۔

اگر میں انکی جگہ ہوتی تو اتنے بوجھ تلے شاہد میں بھی یہی فیصلہ کرتی کیونکہ مجھے لوگوں کے گناہ اپنے سر لینے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔

اب تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں مفتی منیب کے ساتھ اور عید پوپلزئی کے ساتھ کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اس صوبے میں رہتے ہوئے دونوں مفتیوں پہ گناہ کا بوجھ پھینک کر مزے کررہے ہیں۔۔۔۔ یہ بھی جرآت ازما کام ہے۔۔۔

چوتھی قسم خیبرپختونخوا میں ایسے لوگوں کی ہے جو ذہنی طور پر حاکم وقت یعنی مفتی منیب الرحمٰن کو ٹھیک سمجھتے ہیں لیکن اپنے علاقے کی مسجد میں رمضان کا اعلان ہوتے ہی روزہ رکھتے بھی ہیں اور عید بھی اسی حساب سے کرتے ہیں انکا کہنا ہے کہ اگر علاقے میں اعلان ہوجائے تو ہم پر روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے اور کانوں میں عید کا خطبہ سنائی دے تو روزہ بھی فاسق ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔

یہ سوال میں نے پچھلے سال محمد مفتی محمد اکمل سے پوچھا تھا کہ ہمارے علاقے میں عید کا اعلان ہو جاتا ہے اس صورت میں کیا کیا جائے، اس بار تو حالات یہ تھے کہ والد صاحب کی عید تھی اور والدہ کا روزہ۔۔۔

انکا جواب تھا کہ “پورے پاکستان کے ساتھ چلیں۔”

اب پانچویں قسم مجھ جیسے لوگوں کی ہے جنکو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا جائے۔ بییس سال سے زائد کا عرصہ پشاور میں گزارنے کے بعد ایک حتمی فیصلہ مجھے اور مجھ جیسے لوگوں کو کرنا چاہیے۔۔۔ جی ہاں، میں نے بھی میرا کی طرح +20 کہا۔۔۔ بھئی خاتون ہوں اپنی عمر کیوں بتاؤں میں۔۔۔

اب نظر ڈالتے ہیں سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے، اس رمضان کے چاند کی پیدائش جمعرات کی صبح سات بج کر چھبیس منٹ (7:26am) پر ہوئی۔ ماہر فلکیات کے مطابق چاند صرف اس وقت زمین پر دکھائی دیا جاسکتا ہے جب اسکی عمر ساڑھے انیس گھنٹے (19.5) سے زیادہ ہو جائے. اس اعتبار سے جمعرات کی شام چاند کی عمر صرف 12 گھنٹے تھی جو سائنسی اعتبار سے زمین پر نظر نہیں آسکتا۔

اب مجھے بھی یہ سجھ آگئی کہ مفتی منیب کو دوربین میں بھی چاند نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔۔

اور یہ بھی کہ باقی ممالک جو ہم سے کچھ گھنٹے پیچھے ہیں وہاں جب شام ہوئی تو اس وقت چاند اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ چکا تھا اسلئے نظر آگیا اور وہاں اعلان بھی ہوگیا۔
لیکن ہمارے لوگ سائنسی باتوں کے بارے میں پتہ ہے کیا کہتے ہیں “زہ مڑہ دہ سا گپ دے “

یہی وجہ ہے کہ اس مسلئے پر میں نے اسلامی نقطئہ نظر کو جانچنے کی کوشش کی اور چند مستند احادیث حوالہ جات کے ساتھ اکٹھی کی۔ تاکہ اس مسلئے کو اسلامی رو سے بھی دیکھا جائے…

اب کچھ مستند احادیث پر نظر ڈالتے ہیں۔
ابو حریرہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے “جس نے میری اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللّٰہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ “۔
صحیح بخاری۔۔۔۔۔7144
صحیح مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔1835
ایک اور حدیث اسی حوالے سے

إسمعوا وأطیعوا وإن استعمل علیکم عبد حبشی کأن رأسہ زبیبۃ.(بخاری،رقم ۶۶۰۹)

 

”تم (اپنے حکمران کی بات) سنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام ہی کو حکمران کیوں نہ بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کے دانے جیسا ہو”
اب سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت چاند دیکھنے کے معاملے میں امیر وقت کون ہے؟

پوپلزئی پارٹی کا یہ کہنا ہے کہ مسجد قاسم علی خان پاکستان بننے سے پہلے 1842سے قائم ہے اور اس وقت سے یہ رمضان اور عید کا اعلان کرتی ہے اسلئے ہم اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف وہ اس بات کو برطرف کر دیتے ہیں کہ اب پاکستان بن چکا ہے، 1842میں رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت تھی آج کے دور میں یہ ذمہ داری مفتی منیب الرحمان کو سونپ دی گئی ہے.

اب حاکم وقت کی اطاعت ہم پہ لازم آتی ہے ورنہ دو عیدیں دو رمضان کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔

اب سب “زہ مڑہ ” کہہ کہ سب باتیں بھلا دیں گے۔ اور میری اس ساری ریسرچ کو ریسٹ ان پیس (RIP) کر دیں گے۔۔۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔
اب اگر ہم سجھتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہے تو ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا اور اگر قبول نہیں کرتے تو پھر واقعی ہم خود جی ہاں بذاتِ خود، اپنے آپ کو الگ قوم تسلیم کرتے ہیں اور پھر گلا کرتے ہیں کہ ہم پٹھانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔

Ehsaas programme underway transparently

The Ehsaas emergency cash Programme, a historical move of the PTI-led government is a new initiative and one of the most comprehensive welfare programmes ever undertaken by any government in Pakistan with an underlying ambition to create a social safety net for under privileged Pakistanis. It will help millions by distributing a total of Rs144 billion to provide cash assistance of Rs12,000 each to 12 million deserving families around the country.

The government has so far distributed Rs 65.249 billion among 5.437 million families across the country and has promised an additional PKR 80 billion to be added to social protection spending in budget 2019-20. Acknowledging that no single area will unlock this ambition alone, Ehsaas encompasses 134 policies that range from tackling corruption, creating educational opportunities and providing the elderly with decent homes.

This move of Prime minister Imran Khan has been greatly lauded by the international community. Ehsaas programme has the potential to help underprivileged and long ignored Pakistanis break the vicious cycle of poverty and also assist in raising low human development index.

Ehsaas is a unique initiative as there is no political interference in the programme. Despite the fact that many Ministers of Imran Khan cabinet wanted to influence the distribution of money for their political goals but the mechanism of Ehsaas programme curb any meddling in the distribution of money.

Ehsaas Programme is purely made on the basis of merit and transparency is ensured throughout the process. Funds distribution is on the basis of biometric verification which do not allow any corruption. Beside this, a simple SMS service has been introduced which can be sent to 8171 containing 13-digit National Identity Card number, which will let a family know if they are eligible for the payment. The simplicity of procedure is helping the citizen to register easily and without any hassle.

To ensure transparency in the disbursement of Ehsaas Emergency Cash, an online Ehsaas Emergency Cash Information Portal has been launched by the federal government, through which anyone can get complete data of the programme. It is also helping people to acquire data regarding the number of families benefiting from the programme as well as the total amount disbursed at district and tehsil levels. The portal outlines the amounts given to partnering banks for disbursements to beneficiaries and the number of beneficiaries who have taken out money.

Moreover, a comprehensive and complete survey for the implementation of the Ehsaas programme was conducted worth Rs 8 billion and this is the reason that the incumbent government deleted the names of more than 800,000 ineligible beneficiaries from BISP lists. The names were removed after thorough inquiry, out of the total ineligible, 14,730 were government employees and 127,826 were wives of government employees.

It must also be noted that unlike other programmes, Ehsaas is distributing funds among the masses with a great pace and this is the reason that within days, the government has disbursed millions of rupees among needy masses transparently.

Despite all these efforts for making Ehsaas programme transparent, there are still questions raised over its transparency and non-provision of cash to some districts such as Wazirstan. When investigated, the blame proved political and entirely misplaced. Govt has set up Seven centres for the distribution of relief package under the Ehsaas Program in all the three subdivisions of South Waziristan tribal district. Government is going to distribute funds among poor families hailing from south and North Wazirstan under the Category 3 of the Ehsaas programme starting in May.

While answering to such allegations on social media, Dr Sania Nishtar the Chief of the Ehsaas programme stated that South Wazirstan and North Wazirstan will get the funds on the basis of their population ratio and a total of over 120000 applications have been received from both the districts and funds distribution will take place after the survey is completed.

The pictures of current beneficiaries of Ehsaas programme hailing from South Wazirstan doing rounds on social media are from survey conducted in 2010 because new survey could not take place due to militancy in the region.

In order to make the Ehsaas Programme more affective, the federal government should direct all their MNAs and MPAs to become active on District and Tehsil level and help the people in getting their funds with no difficulties.

Beside this, the government should also run an effective awareness campaign in tribal areas for the facilitation of masses as many local people hailing from tribal areas are not aware of such programmes and its procedures of registration.

The over use of smartphones makes the people less socialized

Impact of smartphones over our social/daily life:

The pace of adopting smartphones all over the world has been very rapid. Various surveys have shown that popularity of smart phones has escalated to new heights over the past few years. According to the surveys, the number of smart phone users in the world is currently 3.5 billion, which translates to 45.04 % of the world’s population.

As per Pakistan Tele Communication Authority (PTA) report, number of smart phone users in Pakistan reached 55.47 million till 2018 and the number is expected to reach upto 3.8 billion in the year 2021. Keeping with the national pace, the usage of smart phones is also increasing with a rapid speed in Khyber Pakhtunkhwa. Despite low literacy rate, smart phone is now considered the basic need of life, where every individual is completely dependent on it for day to day tasks.

Despite numerous utilities and advantages, smart phones have a lot of side effects and drawbacks. Smart phone, an addictive device, traps a soul into a lifeless planet full of lives. It does not only affect our social life and relationships but have also become one of the top items on children’s wish list. Gone are the days when a child will ask their parents for dolls and rackets, children are now crazy about smartphones and are truly amazed by its limitless attractions. Cell phones have replaced outdoor games with online video games, where kids’ mental health is affected by long screen hours and are also deprived of much needed physical activities.

Observations proves that android overuse distract the focus of people from work to unnecessary visual tasks, thus affecting their overall efficiency. In some departments, such as health, even a little distraction can prove detrimental to patients’ health. Realizing this fact, Government of Khyber Pakhtunkhwa in year 2018, issued a notification, banning use of smart devices by health officials during working hours.

Smart phones have a lot of potential negative impacts on our daily life which are mostly ignored. Using smartphones before bed can make it harder to fall asleep due to the blue light it emits. Researchers have found that the smartphone users who sleep near the small screen, or spend more time looking at screens in general don’t sleep enough which ultimately cause insomnia, anxiety, and depression. Most of the people are suffering from Nomophobia (the fear of keeping away from phone) due to smartphone overuse.

The over use of smartphones makes the people less socialized. They are no longer able to hold interpersonal interaction effectively as they have been communicating solely through online approaches available on the smartphones. It has also been observed that smartphones and hand-held devices are interfering with bonding and parental attention, where parents tend to ignore their children without even realizing it.

Mobile phone provides students, numerous ways of creative learning and improve their overall social experiencing. However, it is also changing their learning habits and affecting students’ concentration in conventional classes. Students mostly feel tempted to use their phones to text their friends, use social media apps, watch videos or browse the web. It also makes the learners more dependent on google search instead of studying by their own or from their teachers.

It is true that smartphones have great impact on our society and has transform every facet of our lives. However, it has significant negative impacts in some prominent areas including health, education, and social life. It is imperative that we as a society, look for ways to exploit the advantages and suppress the negatives by using the smartphones in a smart way. Only then we can truly prioritize our health and well-being while also taking optimum advantage of the technology.