یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ حکومت پاکستان نے کرونا بحران ،محدود لاکھ ڈاؤن اور افغان بدامنی کے باوجود نہ صرف یہ کہ پاکستان میں پھنسے افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے ایک بار پھر طورخم اور چمن کے بارڈرز کھول دئے بلکہ افغانستان کے مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں بارڈرز محدود تجارت اور مستقل آمدورفت کے لیے بھی کھولنے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی تناظر میں ہفتے کے روز طورخم بارڈر کے ذریعے ہزاروں افغانیوں کو افغانستان بھیج دیا گیا جبکہ سینکڑوں پاکستانی بھی بارڈر کراس کرکے اپنے ملک واپس آ گئے جہاں ان کو ضلع خیبر میں قائم قرنطینہ مراکز میں ٹیسٹ اور سکریننگ کے لیے رکھا گیا۔
تین ماہ سے جاری کرونا بحران کے باعث دیگر ممالک کی طرح پاک افغان تجارت اور رَسد کا عمل بھی بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا تھا جس کی وجہ سے کابل سمیت افغانستان کے مشرقی اور جنوبی صوبوں میں نہ صرف خوراکی مواد کی قلت پیدا ہوگئی تھی بلکہ مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا تھا کیونکہ اب بھی افغانستان کی خوراک کی رَسد کا تقریباً 65فیصد انحصار پاکستان پر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راستے سنٹرل ایشیا اور ایران کے مقابلے میں سستے اور مختصر پڑتے ہیں اور تاریخ میں یہی راستے ہر دور میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ تمام بڑے شہر اور آبادی والے علاقے پاکستان کی سرحد پر واقع ہیں۔ اس لیے زیادہ ضرورت ان پشتون علاقوں کو ہی پڑتی ہے۔
دوسرا فائدہ ان راستوں کا یہ ہے کہ اس دو طرفہ تجارت سے جو تاجر مزدور اور ٹرانسپورٹرز وابستہ ہیں ان میں 80 فیصد کا تعلق خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں سے ہیں جس کے نتیجہ میں ان علاقوں کے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے اور ان کے معاشی حالات بہتر ہو جاتے ہیں۔
اسی ضرورت کے پیش نظر پاکستان کی حکومت نے16 مئی کے روز اعلان کیا کہ کرونا بحران اور سرحد پار بدامنی کے باوجود ہفتے کے روز طورخم اور چمن کے راستے ٹرک اور کنٹینرز تجارتی مال لے کر افغانستان لےجایا کریں گے تاہم ان کی تعداد محدود رہے گی اور ایس او پیز پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
پاکستان اور افغانستان کی کاروبار اور آمدورفت سے وابستہ لوگوں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ جاری حالات کے باعث ان کو روزانہ کروڑوں کا نقصان ہورہا تھا اور سینکڑوں گاڑیاں بھری ہوئی حالات میں طورخم اور چمن کے بارڈر پر منتظر کھڑی تھیں۔ تجارت کے لئے بارڈر 6 روز جبکہ شہریوں کی دوطرفہ واپسی کے لیے ہفتے میں ایک دن مقرر کیا گیا ہے جو کہ احسن اقدام ہے۔ اس کے ساتھ اگر متعلقہ حکام غلام خان ، انگوراڈا اور بعض دیگربارڈر کے کھلنے کا بھی جائزہ لیں تو اس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہونگے اور پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت میں نہ صرف یہ کہ مزید اضافہ ہوگا بلکہ اس سے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی ۔ یہاں یہ ذکر لازمی ہے کہ سال 2002 سے لے کر 2012 کے درمیان افغانستان میں مسلسل جنگ اور علاقے میں کشیدگی کے باوجود افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقریباً ساڑھے تین سے پانچ بلین ڈالرز کے قانونی اور غیر قانونی تجارت ہوا کرتی تھی تاہم بعد میں بعض رکاوٹوں ، طاقتور مافیا ، غیر قانونی تجارت اور بعض اداروں کی کرپشن کے باعث یہ تجارت 80 اور 70کروڑ کی نچلی سطح تک آگئی حالانکہ اس عرصہ کے دوران نہ صرف دوطرفہ تعلقات بہتر تھے بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر تھی۔ افغانستان اور پاکستان کے متعلقہ کاروباری حلقے جہاں ایک دوسرے پر اعتماد کرکے مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں بلکہ بعض مشترکہ چمبرز بھی قائم کیے گئے ہیں تاہم ان میں بعض ایسی مافیاز اور اسمگلرز گھس گئے ہیں جو کہ بہتر تعلقات اور آسان ترین قانونی تجارت میں رکاوٹیں ڈال کر بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت خصوصا ًبارڈر فورسز اور متعلقہ حساس ادارے ایسے عناصر کا سخت نوٹس لے کر صحیح لوگوں کی سرپرستی کریں اور اس کے نتیجے میں افغانستان اور سینٹرل ایشیا کی منڈیوں تک اپنی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو اس سے پاکستان کو ہر سال کم از کم بیس ارب ڈالرز کا فائدہ ہوگا اور اس سے پشتونوں کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔
Dir police arrest kidnappers
UPPER DIR: Police here the other day arrested alleged kidnappers of a trader from Patawo area of the district.
District police officer Mian Naseeb Jan said that the kidnappers had kept the trader in their illegal custody for three days during which he was also tortured.
He said that he was shocked after knowing that the hosiery seller was badly beaten with visible marks of wounds on his body.
Mr Jan said that af ter registration of FIR they formed a special team which during a raid arrested the kidnappers and also recovered weapons, stolen money and motorcycle.
He said that one Kalashnikov, a rifle, five magazines and Rs31,000 cash was recovered from the house of alleged kidnappers. The trader thanked the police for their timely action and the arrest kidnappers.
Source: Dawn
Tarnab – an emerging hub of honey industry
The Peshawar’s Tarnab Farm is one of the biggest honey markets in the world, which usually generates revenue of more than Rs 3 billion annually exporting 30 thousand to 40 thousand tons of honey to different countries of the world. Arab countries are the main importers of honey produced in Peshawar.
However, besides many other issues including deforestation, climate change, and neglect of the government, the Covid19 lockdown has greatly affected the production of the honey in the current year. Its production is likely to decrease in current season due to lack of transportation, other facilities and safe environment for honey production.
According to official figures, during current season, export in excess of 35 thousand ton was expected to Arab countries. However, due to uncertainty in markets and coronavirus lockdown, the export is likely to significantly decline. As per revised estimates, 10 thousand tons of export to the Arab countries and rest of the world is expected.
While talking to us, a senior member of All Pakistan Honey Traders Association, Gul Bacha Khan said that the honey produced in Tarnab Farm of Peshawar is the purest honey in the world and this is the reason that most of the Arab countries particularly Saudi Arabia, Qatar and UAE citizens preferred the honey produced in KP.
He further claimed that the honey is produced in other parts of the country as well but most of the honey traders use the Peshawar’s Tarnab Farm market for selling their products to the rest of the world. He revealed that most of the honey traders in the country were Pashtuns as they had inherited this business from their ancestors in past ages.
The president of the All Pakistan Honey Traders Association, Sher Zaman on phone told us that the honey can be a good source for generating huge revenue for the country, if the industry is promoted and developed on preferential basis.
He demanded the government to provide reasonable facilities to honey traders in order to upscale its production and improve its packing in order to extend the export to European countries.
It is pertinent to mention that 1.2 million population in Pakistan are associated with the honey business and a total of 7,000 farmers are registered with the association officially. If government is able to develop this industry on modern lines with requisite incentives, it is likely to earn a significant revenue to support the ailing economy and also create thousands of new jobs.