پاکستان کا پرچم اور ایمل ولی خان

ولی خان کی کتاب , پاکستان کا پرچم اور ایمل ولی خان

اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے خیبر نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں بالکل واضح انداز میں کہا ہے کہ وہ ، اِن کے کارکن اور پارٹی پاکستان کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں ہیں اوراُنہیں اُن کو ان لوگوں کی ذہنیت اور اعتراضات پر حیرت ہے جنھوں نے اِن سمیت بعض دوسرے لیڈروں کی ٹویٹر پروفائل پر پاکستانی جھنڈا لگانے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دو الگ ممالک ہیں، ہم نہ صرف یہ کہ پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں بلکہ اس کے اہم عہدوں اور وزارتوں پر فائز رہے ہیں اور اس ملک کے اندر رہتے ہوئے آئین کے مطابق صوبائی خودمختاری کے حصول کی پرامن سیاسی جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ “لروبر “کا مطلب ان کی نظر میں یہ ہے کہ افغان ہمارے بھائی ہیں تاہم بعض حلقے اس نعرے کو اگر کسی اورمقصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں ۔
چند روز قبل جب ان سمیت بعض دوسرے لیڈروں نے ٹویٹر پروفائل پر پاکستانی پرچم کی تصویر لگائی تو اے این پی کے بعض کارکنوں سمیت ان حلقوں نے اس پر حیرت کے علاوہ شدید اعتراضات کیے جن کا خیال ہے کہ اے این پی کوئی ریاست مخالف پارٹی ہے یا ان کی نظرمیں اے این پی کے نعرے لر او بر کا مقصد یا مطلب یہ ہے کہ یہ پارٹی پشتونوں کو افغانستان کے ساتھ ملانے کی کوئی خواہش یا پالیسیوں رکھتی ہے ۔ یہ غیر ضروری بحث کئی روز تک جاری رہی مگر اس مسئلہ کا ایمل ولی خان نے حالیہ انٹرویو میں جو تفصیلی اور واضح جوابات دئے اس کے بعد اس مسئلہ پر مزید بحث نہیں کرنی چاہیے تھی۔ تاہم انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد نے پھر سے مخالفانہ تبصرے شروع کئے اور یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے حالانکہ انہوں نے کوئی انہونی بات نہیں کی ہے۔
ایمل ولی خان نے مذکورہ انٹرویو میں جو موقف اپنایا ہے سچی اور تاریخی بات تو یہ ہے کہ اے این پی کا ہمیشہ سے یہی نقطہ نظررہا ہے۔ یہی وہ موقف تھا جس پر 70 کی دہائی میں بلوچ سربراہان سے خان عبدالولی خان نے اپنا راستہ الگ کیا اور نیشنل عوامی پارٹی ٹوٹ گئی۔ ولی خان نے نہ صرف پاکستان مخالف کوششوں سے ماضی میں کئی بار معذرت اور لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ وہ پشتونستان کے نام و نہاد تحریک کے بھی عملاً بڑے مخالف رہے ۔ان کی مشہور کتاب “باچا خان اور خدائی خدمت گاری “میں ایک افغان حکومتی عہدیدار دوران فرہادی کے ساتھ ان کی تفصیلی گفتگو کا وہ حصہ موجود ہے جس میں ولی خان افغان حکمرانوں کے رویے پر باقاعدہ چارج شیٹ کرتے بہت مدلل انداز میں لراوبر اور پشتونستان کے مسائل پر اپنا موقف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ تاثر بہت سے حلقوں میں اب بھی موجود ہیں کہ این پی ریاست مخالف قوت رہی ہے یا یہ بھارت اور افغانستان کی بہت قریب رہی ہے تاہم اس پس منظر پر شاید ہی کسی نے غور یا بحث کی ہو کہ ماضی کے بعض پاکستانی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور منفی رویوں نے اے این پی سمیت بعض دیگر پارٹیوں کو بھی مزاحمت اور مخالفت پر مجبور کیا مگر جب بھی ریاست نے ان لیڈروں اور پارٹیوں کو گلے لگایا انہوں نے پاکستان کے لیے بہت کچھ کیا جس کی سب سے بڑی مثال اُن لیڈروں کا 1973 کے آئین کی تشکیل میں وہ تاریخی کردار ہے جس نے ایک نئی وفاقی ڈھانچے اور ملک کی بنیاد رکھی۔ جو حلقے اےاین پی کو حب الوطنی کے طعنے دے رہے ہیں ان کو بھی یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ پارٹی پانچ بار پاکستان کے دو صوبوں یعنی پختونخوا اور بلوچستان میں برسراقتدار رہی ہے بلکہ 2008 کے بعد سندھ میں بھی یہ شریک اقتدار رہی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ بات اے این پی کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے پشتون نہ تو بلوچوں کی طرح علیحدگی پسند ہیں اور نہ ہی ایسے کسی ایسے نعرے یا سیاست کو عوامی سطح پر کوئی پذیرائی ملی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے سیاسی انتظامی اور دفاعی ڈھانچے میں پشتونوں کی وہ نمائندگی یا حصہ ہیں جو کہ بلوچوں یا سندھیوں کے مقابلے میں نہ صرف بہت زیادہ ہیں بلکہ سیاسی نعروں کے برعکس ان کی بالادستی کا نقشہ بھی پیش کرتی ہے۔
اس کے برعکس افغانستان میں پشتون واضح اکثریت میں ہیں مگر ہر دور میں افغان ریاستی اداروں میں ان کی نمائندگی آبادی کے مقابلے میں کم رہی ہے۔
حالیہ انٹرویو میں پیش کیا گیا ایمل ولی کا موقف پوری اے این پی کا موقف ہے اس لئے اس کے بعد بعض نادیدہ خواہشوں کے علاوہ غلط فہمیوں کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔

Role of Christian Missionary Institutes in shaping Pakistan future

Christians alongwith Hindus are the two largest religious minorities in Pakistan. Christianity originated in Pakistan through Taxila with the arrival of Apostle Thomas in first century A.D. Over time the faith expanded under colonial era as a fraction of western commercial imperialism in 15th century. As per the recent census, total strength of Christians in Pakistan is 4.0 million, while in KP their population is 0.84 million. Despite very less population, Christian minority has contributed significantly in different fields specially in education sector.

Institutes like St Joseph’s Convent, The Convent of Jesus and Mary, St. Patrick’s High School, St. Michael’s High School, Presentation Convent High School, St. Mary’s High School, St. John’s Cathedral School, St. Deny’s High School, St. Francis High School, Edwardes School and Edwardes College were primarily established by the Christians in different time periods mostly before partition. The concept of higher education in Pakistan was initially introduced by colleges such as Forman Christian College, Murray College, Lawrence College, Gordon College and Kinnaird College (first-ever women-oriented college).

These missionary educational institutes are still educating Pakistanis, and in turn have contributed positively to shape country’s future. The missionary education institutes have also actively supported women empowerment. Girls’ schools have been established all over the country to promote women education. These institutions are still running under the efficient management of Christian churches, producing and teaching generations of academics, leaders, sportsmen, poets, scientists and lawyers.

One of the most important features of these institutions is the outstanding and unmatchable quality of education which has enabled these institutes to generate renowned intelligentsia. Out of thirteen Presidents of Pakistan, six have got their educations from a missionary school or college. These institutes have groomed personalities like Zulfiqar Ali Bhutto, Pervez Musharraf, Pervaiz Rasheed, Pervez Khattak, Maliha Lodhi, Benazir Bhutto, Sherry Rehman, Sharmeen Obaid Chinoy, Shehbaz Sharif, Nawaz Sharif, Ishaq Dar, Najam Sethi, Salman Taseer and Sardar Ayaz Sadiq to name a few. Pakistan national poet Allama Iqbal and iconic poet Faiz Ahmed Faiz have also remained students of missionary institutes. The nationalization of missionary schools in the Bhutto regime broke the backbone of education in the Christian community. However, today Convent or Cathedral and other Christian institutions are still the most honoured centres for education in the country, where most of these institutions are owned and run by the diocese and religious congregations.

Despite such a significant contribution by missionary institutions in the field of education, Christians community itself are deprived of quality education. The Christian students cannot access these educational institutes that were built solely to educate them due to various reasons. Currently less than 1% Christian students are studying in these institutes.

In order to address this anomaly, these institutes should be allowed to maintain and enhanced fixed quota for Christian community all over Pakistan. Moreover, these students should only pay nominal fees as maximum Christian community belongs to lower or lower middle class. This will not only enable provision of quality education to deserving students but also help in social uplift of Christian community. Churches and Para Churches should also come forward and play their part as a main stakeholder by creating a network of projects to develop the community and provide free education to the most deserving and underprivileged children.