فاٹا انضمام اور وزیرستان کا ضلعی ہیڈ کوارٹر

ضلع جنوبی وزیرستان جو کہ تین سب ڈویژن پر مشتمل ہے جس میں سب ڈویژن لدھا ، سب ڈویژن وانا اور سب ڈویژن سرویکئی شامل ہے ۔اسے پہلے یہاں پر مذکورہ تقسیم قبیلوں کی بنیاد پر کی گئی تھی جس کے مطابق سب ڈویژن لدھا اور سب ڈویژن سر ویکئی محسود قبیلے پر مشتمل ہے جبکہ سب ڈویژن وانا وزیر دوتانی اور سلیمان خیل قبیلے پر مشتمل ہے۔ آ بادی کے لحاظ سے ضلع جنوبی وزیرستان میں محسود قبیلہ سب سے بڑے تعداد میں آباد ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر محسود قبیلہ75 فیصد، وزیر دوتانی اور سلیمان خیل قبیلے کو 25 فیصد کے تناسب سے تمام تر حکومتی مراعات اور ترقیاتی فنڈ دئے جاتے ہیں ۔

سب ڈویژن وانا کے علاوہ آج بھی دیگر ڈویژن کے تمام تر سرکاری معاملات کئی کلو میٹر دورضلع ٹانک سے چلائے جاتے ہیں جب کہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ فاٹا انضمام کے باوجود بھی یہ سلسلہ اسی طرح بدستور جاری ہے اور شاید دنیا کا یا پھر پاکستان کا واحد ضلع ہے کہ جسکے انتظامی معاملات کئی کلومیڑ دور دوسرے ضلع سے ریمونٹ کنٹرول کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ سب ڈویژن لدھا اور سب ڈویژن سروکئی کے اسسٹنٹ کمشنر سے لیکر تحصیلدار تک تمام اہلکاران ٹانک سے انتظامی امور چلاتے ہیں جبکہ خانی پوری اور اعلیٰ حکام کو وزیرستان میں انتظامیہ کو فعال دیکھانے کے لیے ہر تحصیل کے معاملات پولیٹکل محرر کے زریعے چلائے جاتے ہیں ۔ ہر تحصیل میں انتظامی معاملات چلانے کے لئے حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے کی مالیت کے عمارتیں تو تعمیر کی گئی ہیں لیکن وہ بھی بوت بنگلے کے منظر پیش کر رہے ہیں۔ سب ڈویژن لدھا اور سر وکئی کے اکثر علاقے آج بھی موبائیل نیٹ ورک جیسے سہولت سے محروم ہے جبکہ انٹرنیٹ کا تو یہاں تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ یہی سب سے بڑا بہانہ ہے جسکی وجہ سے انتظامی معاملات ٹانک میں چلائے جاتے ہیں۔کیونکہ جب بھی اس حوالے سے انتظامیہ کے ذمہ داروں کے ساتھ بات ہو تو وہ وزیرستان میں سہولیات کی عدم موجودگی کا رونا روتے ہیں اور اس میں سر فہرست کمیونیکشن نظام کے نہ ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔

وزیرستان کو ریمونٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کا یہ سلسلہ آ ج سے نہیں برطانیہ کے دور حکومت سے جارہی ہے۔برطانیہ حکومت کی جانب سے یہاں پر جو قانون ایف سی آر لاگوں کیا تھا۔اللہ اللہ کرکے اسے چھٹکارہ تو مل گیا لیکن انتظامی امور کا ڈھانچہ تاحال اسی طرز کا موجود ہے ۔اس دور میں پولیٹیکل ایجنٹ جس کو اب ڈی سی کہا جاتا ہے موسم سرما میں ٹانک جبکہ موسم گرما میں وانا میں بیٹھتا تھا ۔ برطانیہ کا اس خطے سے انخلا کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح جارہی رہا شاید یہی وجہ ہے کہ ضلع جنوبی وزیرستان میں حکومتی رٹ قائم رکھنے کے لئے خون کی قربانی دینی پڑی۔انتظامی ڈھانچے کی طرح محسود قبیلے کی ایک بڑی آبادی آج بھی موسم گرما میں وزیرستان جبکہ موسم سرما میں ٹانک ڈیرہ اسمعیل خان اور دیگر بندوبستی علاقوں میں منتقل ہوتے ہیں جسکی بنیادی وجہ وزیرستان میں صحت اور نظام تعلیم کی خستہ حالی ہے ۔

ضلع ہیڈ کوارٹر کو ٹانک سے وزیرستان منتقل کرنے کے لئے مختلف ادوار میں آوازیں اٹھی ہیں لیکن آج تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ یہ آوازیں یاتو صرف بلیک میلنگ کے لیے اٹھائی گئی یا پھر جس نے بھی اٹھائی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اٹھائی اور یہی وجہ ہے کہ اس کو حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ دوسری جانب آج تک وزیرستان اور خصوصی طور پر محسود قبیلے کے مستقبل کے حوالے سے جو بھی فیصلے ہوئے ہیں وہ پشاور اور اسلام آباد میں مقیم محسود قبیلے کے افراد کے مشورے پر ہوئے ہیں جو کہ زمینی حقائق سے ناواقف پشاور اور اسلام آباد سے اپنے علاقے پر حکمرانی کرتے ہیں ۔

فاٹا انضمام کے بعد بالا پتھر کے مقام پر حکومت کی جانب سے ضلع ہیڈ کوارٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ ایک تو انتظامیہ کے اکثر اہلکاران ٹانک سے وزیرستان منتقل ہونے کے لئے راضی نہیں تھے جس کا ان کی جانب سے اظہار تو نہیں ہوا لیکن مراعت یافتہ ملکان کے مخصوص ٹولے کے ذریعے اس کو متنازعہ بنایا گیا ۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ علاقہ دور دراز اور وہاں پر سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث وزیرستان کے اکثر عوام کی رائے انکے خلاف تھی ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب بھی ہیڈ کوارٹر کی منتقلی کی بات ہو تی ہے تو انتظامیہ ان کو منتنازعہ بنانے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتی ہیں لیکن اب جو ضلع ہیڈ کوارٹر اور عدلیہ کے دفاتر کو وانا منتقل کرنے کی بات کی جارہی ہیں یہ بالکل یک طرفہ ہے کیو نکہ وانا منتقلی کی صورت میں محسود قوم کی رائے کو بلکل نظر انداز کیا جارہا ہے جو کہ یہا ں پر سب سے زیادہ تعداد میں آباد ہیں لیکن اگر اسی طرح منتقلی کے حوالے سے اٹھنے والی آوازوں کو متنازعہ بنانے کا سلسہ جارہی رہا تو یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا جس کی وجہ سے ایک طرف تو وزیرستان میں ضلعی انتظامیہ کے رٹ کو بحال کرنے اور قائم رکھنے میں دشواری ہوگی تو دوسری جانب ضلع ٹانک سے کئی کلومیٹر انگور اڈہ افغان بارڈر کے قریب آباد وزیرستانیوں کو ایک معمولی سے دستاویز کے لئے ٹانک آنا انکی محرومیوں میں اضافے کا باعث بنے گا ۔ اگر حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہے تو جنوبی وزیرستان کو تین اضلاع کے تحت تقسیم کرنا اس سارے مسائل کا حل ہے ۔سب ڈویژن سر ویکئی ، سب ڈویژن وانا اور سب ڈویژن لدھا کو اگر اضلاع کا درجہ دیا جائے تو یہ ان کا آسان حل ہے کیونکہ ایک طرف تو ان سب ڈویژن کی آباوی ضلع کے برابر آچکی ہے جبکہ اس طرح کے فیصلے سے یہاں پر آباد اقوام کی حق تلفی بھی نہیں ہوگی ۔

وزیراعظم عمران خان نے دورہ وزیرستان کے موقع پر وانا میں وزیرستان کو دو اضلاع کی حثیت دینے کا اعلان انکے اعلانات میں شامل تھا لیکن محسود قوم کی جانب سے ردعمل کے بعد یہ اعلان نہیں کیا گیا اور محسود قوم کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے رکھا گیا کہ ہمیں دو اضلاع بالکل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم یہاں 75فیصد کے حقوق کے مالک ہے اسی لیے یا تو تین اضلاع کا اعلان کیا جائے یا پھر دوسری صورت میں ہمیں یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں ہے۔ اس کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آج بھی محسود قبیلے کے اکثر افراد کا یہی مطالبہ ہے کہ وزیرستان کو تین اضلاع کا درجہ دیا جائے جبکہ وزیر قبیلہ تو آج بھی دو اضلاع پر راضی ہے جبکہ محسود قبیلے میں بھی ایسے افراد موجود ہے جن کا یہی مطالبہ ہے کہ وزیرستان کو دو اضلاع کی حثییت دی جائے۔اگر حکومت نے عوامی مشاورت کے بغیر ہیڈ کوارٹر کے حوالے سے یطرفہ فیصلہ کیا تو انکے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں اور اسکے باعث کئی کشیدگیاں پیدا ہوسکتی ہے۔

کوہ ایلم کے دامن میں آباد سکھ

تقسیم ہند سے پہلے متحدہ ہندوستان میں مختلف اقوام کے لوگ ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ ان کے درمیان تعلق اتنا مضبوط تھا کہ باہر سے آنے والے لوگ اسے ایک ہی قوم اور مذہب کے پیروکار سمجھ بیٹھتے تھے۔ آج آپ کو خیبر پختونخواہ کے ایک ایسے علاقے کے بارے میں معلومات دیتا ہوں جہاں سکھ اور مسلمان ابھی بھی ایک ساتھ رہتے ہیں اور اُن کا آپس میں محبت اور اعتماد دیکھ کر یقینا ً آپ کو خوشی اور حیرانی ہوگی۔

خیبر پختونخواہ کے شمال میں واقع اس ضلع کا نام بونیر ہے۔ لفظ بونیر کے معنی جنگل کے ہیں۔ وسیع پیمانے پر جنگلات کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا اور خوبصورتی قابل دید ہے۔ انیسویں صدی میں لڑی گئی امبالہ جنگ (جو رستم اور بونیر کے بارڈر امبالہ کے مقام پر لڑی گئی) پختونوں کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیگی۔ جس میں پشتونوں نے مل کر انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہاں کے لوگوں کی غیرت اور وطن سے محبت کا اندازہ 2009ء دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ کر لڑنے اور ضلع میں داخلے کے وقت سخت مزاحمت سے لگایا جاسکتا ہے۔ امن اور محبت کا ذکر کیا جائے تو یہاں شرح جرائم باقی اضلاع کی نسبت انتہائی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیت کی بڑی تعداد یہاں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ جس میں اکثریت سکھ برادری کا ہے۔

آزادی کے وقت درجنوں سکھ اور ہندو خاندان بونیر سے ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے۔ لیکن ان میں سے کچھ اپنے آبائی علاقے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے، اور وہ یہیں رہ گئے۔ یہ اس علاقے کا امن ہی تھا کہ بعد میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے سکھ بونیر آکر بسنے لگے جس کی وجہ سے تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

سکھ کمیونٹی کے زیادہ تر خاندان کوہ ایلم کے دامن میں واقع پیربابا کے گاؤں میں آباد ہیں۔ 2017ء میں کی گئی ایک سروے کے مطابق لگ بگ تین سو سکھ خاندان بونیر میں رہتے ہیں۔جس کی تعداد میں اب اضافہ ہوچکا ہے۔ پیر بابا کے غورغوشتو اور دیوانہ بابا میں بھی درجنوں سکھ خاندان رہائش پذیر ہے۔

مسلمان اور سکھ برادری کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جدید دور میں بھی لوگ اپنے امانت اور پیسے بینکوں کے بجائے سکھ بھائیوں کے پاس رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں پیربابا سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی دکاندار کا کہنا ہے کہ جس وقت بینکنگ سسٹم موجود نہیں تھا اس وقت سے لوگ اپنی امانتیں سکھوں کے پاس رکھا کرتے تھے، جن میں بونیر کے دور دراز علاقوں کے لوگ بھی ہوتے تھے۔

عمران کا کہنا ہے کہ مذہبی رسومات ، خوشی اور غم کے لمحات میں ہم ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ جب بھی ہم میں سے کسی کو مالی مشکل پیش آتی ہے تو دونوں برادریوں کے لوگ کھل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما ءاور سوشل ایکٹیوسٹ مرحوم سردار سورن سنگھ کا تعلق بھی پیر بابا سے تھا۔ جنہوں نے سکھ اور مسلمان برادری کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مرحوم سورن سنگھ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بائیس سال تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے۔ تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت ان کا موقف تھا کہ جماعت اسلامی بہترین جماعت ہے، لیکن تحریک انصاف میں شمولیت سے برادری کی طرف سے حمایت زیادہ ہوگئی۔

سکھ بزرگوں کے مطابق انھیں مذہبی عقائد اور رسومات کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ بابری مسجد پر حملے اور 2009ء میں دہشتگردی کی وجہ سے انھیں وقتی طور پر مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہم ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے لیکن وہ سکھ اور مسلمان دونوں کے لئے مشکل وقت تھا۔

پیربابا میں سکھ کمیونٹی کے لوگ مختلف قسم کے کاروبار کرتے ہیں۔ جس میں کپڑے اور بیکری کا کام سرفہرست ہے۔ یہاں کے سکھ اعلیٰ کوالٹی کے سویٹس تیار کرتے ہیں۔ لیکن مشہور سوغات “میسو” ہے۔ میسو وہ منفرد سوغات ہے جو آپ کو صرف بونیر میں ہی ملے گی۔ پختونخواہ کے مختلف علاقوں کے لوگ جب پیربابا آتے ہیں تو میسو کی ڈیمانڈ ضرور کرتے ہیں۔ لوگ اسے بطور تحائیف بھی دیتے ہیں۔ اس کا ذائقہ بہترین ہوتا ہےاور ایک دفعہ کھانے کہ بعد دوبارہ اس کی مانگ ضرور کی جاتی ہے۔

بونیر کے سکھ اور مسلمان برادری کا یہ اعتماد اور اتحاد باقی لوگوں کے لئے ایک مثبت پیغام ہے۔ مذاہب اور رسومات میں اختلاف سے کوئی فرق نہیں۔ اگر دلوں میں انسانیت کا جذبہ پیدا کیا جائے تو ہم امن کا ما حول پیدا کرسکتے ہیں۔ ہر مذہب ہمیں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے اچھے برتاؤ کا درس دیتا ہےاور یہی جذبہ ہمارے پیارے ملک کو امن کا گہوارا بنا سکتا ہے۔

Swat valley through the ages

Swat, the land of enchanting beauty is a mesmerizing and peaceful valley situated in the Hindukush mountain range. Its majestic beauty attracts tourists from all over the world who enjoys the beauty, tranquility and peaceful environment of the valley. Any tourist who visits Pakistan never returns without visiting Swat.

History of Swat goes back around 2000 years and the region has witnessed many rulers, cultures, civilizations & religions. Alexander the Great came to Aornos (present day Swat Valley) where the last siege of his famous campaign in this part of the world took place in the winter of 327 – 326 BC. He fought for six months with Raja Arnos of that time and was fatally injured in a battle.

Sultan Mehmood Ghaznavi arrived in Swat and conquered the entire valley in the 11th Century AD. He assigned the task of defeating Raja Geera to one of his Generals Pir Khushal. The Raja was killed while escaping the fortress. Pir Khushal, too, was martyred in this battle. His mausoleum is located in Odigram Swat.

Swat Valley remained under the control of Dalzaks and Swatis. Consequently, Yousafzai from Afghanistan (Kabul) captured Swat through Bajaur and Dir.

Zaheer-ud-din Babar observed the rising power of the Yousafzai in the valley and sensed a grave threat from them. He ordered his military to attack the Yousafzai force. The then Head of Yousafzai, Malak Ahmad and his advisor confined themselves in the fortress and Mora Mountains. Babar brutally failed to break into the fortress and therefore offered a treaty to Malak Ahmad as his main aim was to invade the entire India which seems impossible without the active support and help of Yousafzai.

In 1555, Man Singh attacked the Yousafzais with an army of fifteen thousand soldiers but faced defeat. In 1787, Raja Tordal camped at Attock Fort and prepared for a battle with the Yousafzais but ultimately had to cease fighting and sign a treaty.

In the 1800s, British observed the significant strategic value of the Swat Valley and in the year 1863, they attempted to crush the freedom fighters in Buner (one of the districts of Swat). The people fought bravely and defended their land by defeating British soldiers at Ambela. After a few years, in 1897, the tribesmen of Swat under the command of Swat Sartor Faqir won the battle against Britishers and stopped them from entering Swat.

However, the Swat valley witnessed many wars and some political rivalries through the ages. Miangul Abdul Wadood brought many social, economic and political changes in the valley. In 1949, he handed over Swat’s government to his son Miangul Abdul Haq Jahanzeb.

Jahanzeb tried his best to improve the system of Swat state in conformity with the requirements of modern times. He improved the fields of communication, Education and Health. He promoted Tourism in the area by holding fairs on Eid festivals. The princely state of Swat was merged into the provincial setup through a presidential ordinance issued by the then military ruler, General Yahya Khan on 29th July, 1969.

The valley saw a short Taliban rule in 2007 followed by a military operation which was able to evict Taliban and return normalcy to the region. Tourism was badly affected due to terrorism. However, the situation now has significantly improved and the tourism has returned to the area. Current government is endeavoring hard to develop tourism as an industry and has focused its efforts to develop Swat as a tourist hub with requisite facilities. The valley saw gradual improvement in tourism on yearly basis since last five years. However, this year tourism has declined sharply due to corona pandemic.