کابل یونیورسٹی پر حملہ اور امریکی انتخابات

افغان دارالحکومت کابل کو دہشت گردوں نے چند روز قبل ایک بار پھر اس وقت بدترین حملے کا نشانہ بنایا جب کابل یونیورسٹی کے ایک حصہ میں طلباء ایک ایرانی کتب میلے میں شریک تھے۔ تین حملہ آوروں نے یونیورسٹی میں گھس کر کتب میلے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جبکہ ایک نے آخر میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا ۔ جس کے نتیجے میں طلباء اور طالبات سمیت 26 افراد جاں بحق جبکہ 30 زخمی ہوگئے۔ یہ آرمی پبلک سکول کے حملے کی طرز کا ایک خوفناک حملہ تھا اور اس کی بڑی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں حملوں کی پلاننگ ایک ہی مخصوص تنظیم نے کی تھی۔ کابل حملے سے افغان طالبان نے نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی تاہم حملے کے اگلے چند گھنٹوں کے دوران داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ داعش نے اس سے قبل بھی درجنوں بار افغانستان خصوصا ًکابل میں اس قسم کے حملے کرائے ہیں جن میں بعض امام بارگاہوں کے علاوہ دو ہسپتالوں، ایک بچوں کے مرکز ، چار سکولوں اور تین شادی ہالز کو نشانہ بنانے کے واقعات بھی شامل ہے۔

اطلاعات کے مطابق فورسز بہت تاخیر سے حرکت میں آئیں اس دوران بندوق بردار حملہ اور ہال میں موجود طلباء و طالبات کو گولیوں کا نشانہ بناتے رہے جبکہ درجنوں نے دیوار پھلانگ کر اپنی جان بچائی۔ فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان تقریباً پانچ گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا جس کے بعد دو حملہ آور گولیوں کا نشانہ بنے جبکہ تیسرے نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ۔

اس واقعہ نے امن پسند حلقوں خصوصاً والدین کو ذہنی اور جذباتی طور پر ہلا کر رکھ دیا کیونکہ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سانحہ اے پی ایس کا افسوس ناک منظر گھومنے لگا جس کے دوران ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران 100 سے زائد معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ کابل حملے سے قبل پشاور میں موجود ایک مدرسے کو بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں درجن بھر طلباء نشانہ بنے اس لئے قابل واقعہ نے جہاں عام لوگوں کو تشویش میں مبتلا کیا وہاں اس تاثر یا خدشے کو بھی تقویت ملی کہ خطے بالخصوص افغانستان کی بدلتی صورت حال کے تناظر میں اس قسم کے حملوں یا سانحات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے تاکہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے امکانات کو کم کرکے ان قو توں کے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے جو کہ پاکستان میں جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے۔

یہاں ایک معتبر امریکی میگزین کی اس رپورٹ کا ذکر بہت ضروری ہے جس میں گزشتہ مہینے کہا گیا تھا کہ بھارت اور داعش کے درمیان نہ صرف یہ کہ غیر معمولی کوآرڈینیشن قائم ہے بلکہ دونوں نے افغانستان اور پاکستان میں متعدد بڑی دہشت گرد کارروائیاں بھی کیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کے حملوں میں جہاں ایک طرف بعض امن دشمن قوتیں براہ راست ملوث ہیں بلکہ افغان حکومت میں موجود بعض طالبان مخالف عہدیداران بھی اس گیم کا حصہ ہیں اور وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے جاری عمل کو سبوتاژ اور ناکام بنانا چاہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کابل حملے کے فوراً بعد شہر میں بعض ایسے بینرز لگائے گئے جن پر دوہا مذاکراتی عمل کے خلاف نعرے درج تھے کہا گیا کہ یہ بینرز پہلے سے تیار کئے گئے تھے جو کہ اس جانب اشارہ ہیں کہ بعض طاقتور افغان حلقے بھی اس گیم میں برابر کے شریک ہیں اور ملک میں پراکسیز کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

گزشتہ روز کی دوسری بڑی خبر امریکا میں سابق نائب صدر جو بائیڈن کے ہاتھوں صدر ٹرمپ کی شکست کا غیر متوقع واقعہ ہے جس کے بعد پاور کوریڈورز میں یہ بحث پھر چل نکلی کہ اس سیاسی اور حکومتی تبدیلی کے افغان مسئلے کے حل کی کوششوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ مسٹر بائیڈن اگر اقتدار میں آتے ہیں تو ماہرین کا خیال ہے کہ خطے میں امریکی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا کیونکہ مسٹر بائیڈن نہ صرف افغان وار کے ڈیزائنرز میں سے ہیں بلکہ افغانستان کے بارے میں ان کا رویہ ماضی میں غیر معمولی طور پر جارحانہ بھی رہا ہے۔ وہ ماضی میں متعدد بار آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو اپنی فورس کے بے جا استعمال کی بجائے پاکستان جیسے اتحادیوں سے کام لینا چاہیے تھا جبکہ ان کا یہ موقف بعد میں صدر ٹرمپ نے بھی پالیسی کا حصہ بنایا کہ امریکہ کو افغانستان سمیت کسی بھی ملک میں پولیس مین کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔

کچھ عرصہ قبل بائیڈن نے ایک انٹرویو میں افغانستان کو ایک ناقابل اصلاح ملک قرار دے کر یہاں تک کہا کہ افغانستان نہ تو کوئی ملک ہے اور نہ ہی ایک قوم، اس لیے یہ تقسیم بھی ہو سکتا ہے اور یہ کہ امریکہ کو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس قسم کے بیانات سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ صدر بنتے ہیں تو افغان مسئلہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے اور مزید کئی علاقائی تبدیلیاں بھی متوقع ہے۔ اس صورتحال کو خطے کے حالات کے تناظر میں سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ کی ترجیحات بدل بھی سکتی ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے۔