NL

وائس آف کے پی کا ایک سال مکمل

خدا کاشکراورساتھیوں کی سرپرستی اورسینئرزکی رہنمائی کہ وائس آف کے پی، کو شروع ہوئے ایک سال ہوچکا ہے۔

ایک سال قبل یعنی 22 فروری 2020 کو وائس آف کے پی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے شروع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے اس جدید دورمیں ایک مکمل غیر جانبداراور پروفیشنل ملٹی لینگوئج ویب سائٹ کے ذریعے خصوصاً خیبرپختونخواہ کے مسائل چیلنجز اور بدلتے حالات کوقارئین اورناظرین کے علاوہ دوسرے صوبوں اورعلاقوں تک پہنچایا جا سکے۔اس ضمن میں تمام ترصحافتی ذمہ داریوں اور پیشہ ورانہ فرائض کو سامنے رکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس ادارے کی ساکھ اورموئثرایڈیٹوریل پالیسی کو یقینی بنایا جائے۔

نیوزاور ویوزکو تمام تردرکار معلومات غیر جانبداری اور پیشہ وارانہ تقاضوں کے مطابق عوام تک پہنچانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ وائس آف کے پی نے بالکل ایک نیا اور انوکھا تجربہ کرنے کے باوجود معتبر اور سنجیدہ حلقوں میں ایک برس کے مختصر عرصے میں اپنا مقام بنا کراس خطے کے ایشوز کو اجاگر کرنے میں اپنا ایک موثر کردار ادا کیا۔ ٹاپ مینجمنٹ اور ایڈیٹوریل سٹاف کی اس عرصے میں کوشش رہی کہ سینیئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے علاوہ صوبے سے تعلق رکھنے والی نئی نسل کے لکھاریوں صحافیوں اور بلاگرز کی بھی وائس آف کے پی کے ذریعے بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے ۔اس پریکٹس کے نتیجے میں جہاں  نئے لکھنے والوں نے بہترین دلچسپی اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے خود کو منوایا وہاں ان میں سے متعدد اس تجربے کے سبب مین سٹریم میڈیا میں جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہوئے جوکہ ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔

صوبے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی جنرلزم کی طالبات اور بلاگرز کو وائس آف کے پی نے بلاناغہ جس طریقے سے مواقع دے کر آگے لانے کی کوشش کی اس عمل نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا کہ اس خطے کے لوگ خاص کر طالبات لکھنے پڑھنے میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔ بعض لکھاریوں نے بہترین کام کیا جس کی عالمی سطح پر ستائش ہوئی یوں یہ ادارہ صوبے اور ملک کو ایک بہترین محنتی اور با صلاحیت لاٹ فراہم کرنے کا ایک پلیٹ فارم ثابت ہورہا ہے۔

ادارے نے اردو انگریزی اور پشتو میں جہاں نیوز اور کرنٹ افیئرز کو اپنے بنیادی مقاصد میں سرفہرست رکھا وہاں کوشش کی گئی کہ صوبے اور ملک میں انسانی ترقی اور کامیابیوں کے ایونٹس اورواقعات کو بھی مناسب جگہ دی جائے تاکہ دنیا کو اس خطے کی عوام خصوصاً نئی نسل کی صلاحیتوں اور کامیابیوں سے آگاہ کرکے یہ بتایا جا سکے کہ یہ مٹی بہت زرخیز ہے اور اس کا مستقبل بہت تابناک ہے۔

ملٹی میڈیا کے ذریعے کوشش کی گئی کہ ان حلقوں کو رپورٹس اورانٹرویوز کے ذریعے بنیادی معلومات پہنچائی جا سکیں اور یہ کوشش ان لوگوں کے لئے معلومات کے حصول کے لیے کافی مفید ثابت ہوئی جو کہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ مختلف ایونٹس میں سیاحتی، ثقافتی تقریبات اور سرگرمیوں کی رپورٹس تصاویراور ویڈیو کلپس کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی جس کے باعث ایک مثبت اور خوبصورت پختونخواہ کا سافٹ ایمیج سامنے آیا۔ اس مختصر عرصے کے دوران ادارے نے ایک شاندار معلوماتی اور خوبصورت نیوز لیٹر بھی شائع کیا جس کو سنجیدہ حلقوں نے ناصرف بہت سراہا بلکہ یہ پشاور کی حالیہ تاریخ کا ایک نیا مگرکامیاب تجربہ ثابت ہوا۔ خیبر پختونخواہ ہردور میں سیاسی ،سماجی ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے ہونے کے علاوہ افغانستان اور قبائلی علاقہ جات کی عالمی اہمیت کے تناظر میں اس کا ایک منفرد مقام رہا ہے۔ اس لیے اس کی نیوز ویلیو میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

 کوشش کی جا رہی ہے کہ سال 2021 کے دوران وائس آف کے پی کو ناصرف پھیلایا جائے اور اس میں نئے تجربات کیے جائیں بلکہ اس کو مزید موثر اور قابلِ رسائی بنایا جائے۔ اس ضمن میں جہاں اس  کی ٹاپ مینجمنٹ، ایڈیٹوریل سٹاف اور لکھاری پہلی سالگرہ کے موقع پر مبارکباد کے مستحق ہیں وہاں ہمارے ناظرین اور قارئین کی سرپرستی پسندیدگی اور اعتماد کا بھی بہت شکریہ جنہوں نے ایک برس کے عرصے میں ادارے پراعتماد کرکے اس کو اپنا سمجھا۔

جوبائیڈن سے پاکستان کی ممکنہ توقعات

جوبائیڈن سے پاکستان کی ممکنہ توقعات

حال ہی میں امریکہ کے عام انتخابات میں برتری حاصل کرنے والے جوبائیڈن نے باقاعدہ طور پر 48 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے- سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر جو پابندی عائد کی گئی تھی جوبائیڈن نے اسے ختم کرکے مسلم ممالک کو پہلا تخفہ دیا ہے- اسلامی دنیا میں ان کی جو مثبت تصویر بنی تھی جوبائڈن نے اسے مذید تقویت بخش دی ہے- مسلم ممالک سمیت پوری دنیا کی نظریں نومنتخب صدر پر ٹھہری ہوئی ہیں بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی جوبائڈن سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔

جوبائیڈن سے مثبت توقعات رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے- چند ممکنہ توقعات کا ذکر ہم کریں گے، یقیناً ان میں سے کچھ ایسی توقعات بھی ہیں جو شاید جلدی پوری ہوسکیں لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جنکو لے کر مایوسی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پہلی ممکنہ توقع پاکستان کی کہ امریکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد کرے گا- گزشتہ سال 21 سے 23 اکتوبر تک ہونے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس  (ایف اے ٹی ایف جو کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کی روک تھام کا عالمی ادارہ ہے) کے اجلاس میں پاکستان کی طرف سے سفارشات اور پیشرفت کا جائزہ لیا- ایف اے ٹی ایف نے 23 اکتوبر کو یہ کہتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا کہ 27 میں سے چھ سفارشات پر چار مہینے کے اندر عمل کیا جائے یعنی رواں سال کے فروری تک کا وقت دیا گیا- پاکستان ان چھ سفارشات پر جزوی طور پرتو کام کررہا تھا اور اب فروری میں مزید تین حدف حاصل کرلیئے  لیکن ٹاسک ممکل نہ کرنے کی وجہ سے اب جون تک کا وقت دیا گیا ہے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیئے۔ اب منتخب امریکی صدر پاکستان کی ان کوششوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ جون میں معلوم ہوسکے گا۔

دوسری  ممکنہ توقع ہماری یہ ہو گی کہ بائیڈن سرکار عسکری امداد بحال کرے گی – یکم جنوری 2018ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کرتےہوئے لکھا کہ پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے کر بیوقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا بلکہ وہ ہمیں بیوقوف سمجھتا ہے- اس ٹویٹ کے بعد 3 جنوری کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد میں کٹوتی کردی گئی- اب جوبائیڈن ٹیم کے نامزد دفاعی سربراہ جنرل لائیڈ جے آسٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عسکری امداد کی معطلی پاکستان کے تعاون پر اثر انداز ہوئی ہے- اس بیان کے بعد امریکہ کی طرف سے عسکری امداد بحال ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ 

تیسری توقع افغان امن عمل میں داد وصول کرنے کے حوالے سے ہوسکتی ہے- افغان طالبان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، بائیڈن سرکار نے اس پر عمل درآمد کرنے کا عندیہ تو  دیا مگر اب حالات کچھ خراب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف افغان طالبان نے نئی حکومت آنے سے پہلے امید ظاہر کی تھی کہ بائڈن معاہدہ جاری رکھیں گے-  لیکن اس امن عمل میں پاکستان کے کردار کو ٹرمپ انتظامیہ نے ٹھیس پہنچائی تھی جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے- اب پاکستان بائڈن انتظامیہ سے توقع رکھے گا کہ وہ پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرے اور اسے سراہے۔

چوتھی ممکنہ توقع کشمیر کے حوالے سے ہوسکتی ہے- بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے کبھی مثبت رویے کا مظاہرہ نہیں کیا گیا- البتہ ٹرمپ انتظامیہ نے ثالثی کی پیشکش ضرور کی تھی- لیکن بھارت کی ناراضگی کی وجہ سے یہ پیشکش بھی دفن ہوگئی- پاکستان یقینا بائڈن انتظامیہ سے توقع رکھے گا کہ وہ کشمیر ایشو پر گرمجوشی کا مظاہرہ کرے اور پاکستان کے موقف کو فالو کرے-  کشمیر میں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن کی تازہ مثال پچھلے سال لگنے والا کرفیو ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑا رہا ہے- اسکول، ہسپتال اور کاروبار بند تھے- انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہوچکی تھی- پاکستان چاہے گا کہ بائیڈن انتظامیہ مودی سرکار پر دباؤ ڈالے اور اس مسئلے کو قانونی حل کی طرف لے جائے۔

پانچویں توقع پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہوسکتی ہے- پاکستان امداد کی بجائے سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہوئے امریکہ سے توقع کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے- اس حوالے سے پاکستان نے ایک پیشکش بھی کی ہے کہ سی پیک کے ذریعے جو اقتصادی ذونز پیدا ہوں گے، امریکہ اس میں سرمایہ کاری کرے۔ پاکستان کی ممکنہ توقعات کس حد تک پوری ہوتی ہیں یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا