یوم مئی اور پختونخوا میں صنعتی ترقی کے امکانات
خیبرپختونخوا بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالامال خطہ ہے تاہم ماضی کی حکومتوں کی لاپرواہی کے باعث یہ صوبہ صنعتی ترقی نہ کر سکا حالانکہ افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے تناظر میں اس صوبے کو صنعتی ترقی دےکر اربوں کے زرمبادلہ کے علاوہ روزگار کے بہترین مواقع پیدا کیے جا سکتے تھے۔ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ صوبے کے لاکھوں لوگ سندھ ،پنجاب اور باہر کے ممالک میں مزدوری اور ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں اور صوبے کو بوجوہ بے روزگاری کے مسئلے کا سامنا ہے۔
ماضی میں گدون آمازئی انڈسٹریل اسٹیٹ پر اربوں روپے خرچ کئے گئے اور سینکڑوں کارخانے لگائے گئے تاہم انہوں نے اس کو محض ٹیکس بچانے اور مراعات کے لیے استعمال کیا اور چند ہی برسوں میں یہ منصوبہ دم توڑ گیا اور اسے کارخانوں کا قبرستان کہا جانے لگا۔ اسی طرح سوات کی سلک انڈسٹری اور نوشہرہ کی انڈسٹری کے علاوہ حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ کا بھی حشر ہوا اور سینکڑوں کی تعداد میں یونٹس بند ہونے لگے کیونکہ سابقہ حکومتوں نے جہاں درکار سہولیات دینے سے گریز کیا وہاں بجلی اور گیس کی عدم دستیابی اور امن و امان کی صورتحال نے بھی مسائل پیدا کئے۔
موجودہ حکومت کی دلچسپی اور عملی اقدامات کو بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم اس حکومت نے وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر اسد قیصر کی غیرمعمولی دلچسپی کے باعث جہاں ایک طرف رشکئ اکنامک زون کو سی پیک کا حصہ بنایا وہاں مختلف علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر بعض نئے انڈسٹریل زونز کے قیام پر بھی توجہ دی۔ رشکئ اکنامک زون سے صوبے کے صنعتکاروں، مزدوروں اور عوام کو اس حوالے سے بہت توقعات ہیں کہ اس کو نہ صرف خصوصی مراعات حاصل ہوں گی بلکہ اس کی مانیٹرنگ چین کرے گا اور وہ سرمایہ کاری بھی کرے گا۔
دوسری طرف حکومت نے ان سرمایہ داروں کو خصوصی مراعات دینے کا اعلان کر رکھا ہے جو کہ بو جوہ اپنا سرمایہ دوسرے صوبوں میں منتقل کر چکے تھے اور اب واپس آنے کو تیار ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ماربل اور کوئلہ کی انڈسٹریز کو بھی فعال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ بند پیداواری یونٹس کی بحالی کے علاوہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کو ان کے مطالبات کے مطابق خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں۔ ان اقدامات سے کافی بہتری کی امید کی جا رہی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے لئے اس کی گنجائش کے مطابق زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔