Iptikhar

فضل الرحمان کے بیان پر اے این پی کا ردعمل

جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا ہے کہ اے این پی نے پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔اس بیان کے بعد ایمل ولی خان سمیت دوسرے لیڈروں نے نازیبا الفاظ کے استعمال سمیت جو ردعمل دکھایا اور کارکنوں نے جو الفاظ استعمال کیے وہ نہ صرف انتہائی نا مناسب تھے بلکہ مشاہدے میں آرہا ہے کہ اس پارٹی کی لیڈرشپ شدید ڈپریشن کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجہ افغانستان کی جاری صورتحال ہے جس کو اس پارٹی نے غیر ضروری طور پر اپنے اعصاب پر سوار کردیا ہے۔

جہاں تک مشرف کے ریفرنڈم کا تعلق ہے یہ بات آ ن دی ریکارڈ ہے کہ اسفندیار ولی خان نے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کے دوران عجب قسم کا موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے این پی اس ریفرنڈم سے لاتعلق رہے گی ۔نہ اس کی حمایت کرے گی نہ مخالفت۔سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں نے اس وقت اس عجیب فارمولہ کو ریفرنڈم کی حمایت کا نام دیا تھا کیونکہ ایک امریکی پلان کے تحت اے این پی اور پرویز مشرف کے درمیان ڈیل چل رہی تھی اور اس ڈیل میں اس پارٹی کو بوجوہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار میں لانا شامل تھا۔ریفرنڈم تو بعد کی بات ہے اے این پی نے پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کا بھی کھل کر خیر مقدم کیا تھا اور بیگم نسیم ولی خان کے متعدد بیانات تاریخ کا حصہ ہیں کہ مشرف اور صدر بش اے این پی کا ایجنڈا لیکر چل رہے ہیں۔

یہ حقیقت بھی باخبر حلقوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی پلان کے تحت 2008 کے الیکشن میں پرویز مشرف نے نہ صرف اس پارٹی کی ان ڈایریکٹ فنڈنگ کی بلکہ انڈرسٹینڈنگ کی یہ حالت تھی کہ جرنل احسان الحق اور مرحوم اسد منیر کی ٹیم کے ذریعے نہ صرف متعدد امیدوا روں کو ٹکٹ دیے گئے بلکہ خواجہ محمد خان ہوتی سمیت ایک درجن رہنما بھی اے این پی میں شامل کئے گئے۔پرویز مشرف نے بعد میں ایک انٹرویو کے دوران ان باتوں کے علاوہ بعض دیگر انکشافات بھی کیے تھے۔مرحوم اسد منیر کھلے عام کہا کرتے تھے کہ اسفندیار ولی خان نے محض اس بنیاد پر پشاور سے ان کے تبادلے کی کوشش کی تھی کہ وہ پشتون ہونے کے باعث مجوزہ ڈیل کی تفصیلات لیک کرسکتے ہیں۔تاہم یہ مطالبہ نہیں مانا گیا۔

 بعد میں سینٹ کے ایک الیکشن میں جب بعض ایشوز پر معاملات خراب ہو گیے تو اے این پی مذکورہ ادارے کے ایک اہم افسر کے گھر جرگہ لیکر گئی۔اس کے باوجود اسفندیار ولی خان پیپلز پارٹی کے ظاہر علی شاہ کے ووٹ سے محض چند ہی پواینٹس  کی بنیاد پر ہارنے سے بچ گئے۔اے این پی گزشتہ دو  الیکشن کے دوران عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دینے پر بھی راضی ہوگئی تھی مگر الیکشن نتائج نے اس اقدام کو عملی ہونے نہیں دیا۔یہ تاثر دینا کہ یہ پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے زمینی حقائق کے منافی ہے۔اگر ایسی ہی بات ہوتی تو آج اے این پی بلوچستان حکومت میں ڈیڑھ وزارتوں کی شیئر ہولڈر نہ ہوتی۔

آج کل اے این پی لندن میں میاں نواز شریف اور ایک افغان وفد کی متنا زعہ ملاقات کا دفاع کر رہی ہے۔حالانکہ یہ وہی نواز شریف ہیں جنھوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کے قتل کے بعد کابل جاکر مجاہدین کی فتح پر شکرانے کے نوافل ادا کئے تھے۔شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم یا یاد ہے کہ اس وقت جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اے این پی مرکز اور پختونخوا میں نواز شریف کی اتحادی تھی اور حکومت میں شامل تھی۔ اے این پی جب حکومت میں ہوتی ہے تو اس کو سب کچھ ٹھیک لگتا ہے مگر بوجوہ جب باہر ہوتی ہے تو مزاحمت پر اتر آتی ہے اور اس کی تازہ مثال افغانستان کے معاملے پر اس پارٹی کا یکطرفہ اور جانبدارانہ موقف ہے۔

Afghan troops were given refuge

Afghan troops were given refuge and safety in Pakistan

According to ISPR, 46 personnel including five Afghan Army officers, have been given shelter and safe passage in Pakistan. According to ISPR, the Afghan troops arrived in Chitral’s Arandu sector late night. The local commander of the Afghan National Army had sought asylum from the Pakistan Army in Arandu sector Chitral.

According to ISPR, Pakistan Army contacted the Afghan authorities for information and other necessary measures, providing food, shelter and medical assistance to the Afghan soldiers. ISPR says Afghan troops will be handed over to the Afghan government after due process. Earlier on July 1, 35 Afghan soldiers had requested a safe passage, according to ISPR.

industrial policy

Meeting regarding implementation of industrial policy chaired by CM KP

Another important step of the provincial government for the promotion of industrial activities in the province. Approved action plan for implementation of Industrial Policy 2020. A 15-member committee was also formed to monitor and implement the policy. Under the industrial policy, concrete measures have been proposed for the rehabilitation of weak and closed industries in the province. Under the policy, uninterrupted supply of gas and electricity to the industries of the province will be ensured. Construction of roads to industrial units and other infrastructure are also part of the industrial policy.

Ten economic zones will be set up in the next ten years for industrial development in the province. The policy also proposes the creation of at least two special economic zones over the next five years. Under the policy, 19 small industrial estates will also be set up in the next ten years. Abbottabad, DI Khan, Bannu, Dara Adamkhel, Shah Kas and Mardan Small Industrial Estates will be given the status of Special Economic Zones. Special industries will be set up according to the natural resources available in the province.

Under the policy, easy loans will be provided to existing and newly established small and medium enterprises in the province.

Implementation of Industrial Policy 2020 will become the hub of industrial activities in the province, Mahmood Khan said.

The provincial government is taking serious steps to provide employment opportunities to the people by promoting industries in the province, said CM. Locally generated electricity is being supplied to industries at a discounted price,  all services are being provided under one window service for the convenience of investors. the Chief Minister directed, for setting up of new industries in the province, all concerned departments should be required to issue NOCs within the stipulated time. All government departments should ensure payment of Rs 21,000 per month to daily wage staff, said Mahmood Khan.