دو میگا ایونٹس

دسمبر 19،  2021 کا دن اس حوالے سے غیر معمولی طور پر اہم رہا کہ اس روز جہاں ایک طرف اسلام آباد میں افغانستان میں جاری انسانی بحران کے خاتمے اور مشاورت کے لیے او آئی سی کا اہم اجلاس ہوا وہاں خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی الیکشن بھی منعقد ہوئے جس کے دوران عوام کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈال کر نئے نمائندے منتخب کئے۔

 او آئی سی کے اجلاس میں اسلامی ممالک کے 20 وزرائے خارجہ اور 12 ڈپٹی منسٹرز کے علاوہ اقوام متحدہ،  یورپی یونین،  روس اور چین کے علاوہ امریکہ کے خصوصی نمائندے بھی شریک ہوئے جبکہ مختلف امدادی اور مالیاتی اداروں کے تقریبا 50 غیر ملکی نمائندوں نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی جسکے باعث اس ایونٹ کو کافی بڑی پیش رفت اور کامیابی کا نام دیا گیا۔  طالبان کا جو وفد اسلام آباد آیا تھا اس نے دوسروں کے علاوہ امریکی وفد سے بھی ملاقات کر لی تھی اور فریقین نے اس ملاقات کے دوران اہم متعلقہ امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

کانفرنس کا واحد ایجنڈا طریقہ کار کے مطابق افغانستان کے عوام کو انسانی المیوں اور بحرانوں سے نکالنا تھا جس پر اسلامی ممالک کے علاوہ عالمی نمائندوں نے بھی اتفاق رائے کا اظہار کرکے ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کرائی تاہم وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں خطے کو درپیش سکیورٹی خطرات اور ان کے نتائج پر بھی کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ اگر افغانستان کا بحران شدت اختیار کرتا ہے تو اس سے صرف افغان عوام اور پاکستان سمیت دوسرے پڑوسی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی بڑا خطرہ بنے گا۔  انہوں نے بعض مغربی ممالک کی جانب سے اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے ممکنہ خطرات اور منفی اثرات سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا۔

 کانفرنس کے ذریعے جہاں طالبان حکومت کو اسلامی ممالک اور بعض اہم عالمی طاقتوں کے علاوہ عالمی اداروں کے بعد خدشات کا اندازہ ہوا بلکہ دوسرے فریقین کو افغانستان کو درپیش مسائل اور افغان حکومت کا موقف سمجھنے میں بھی مدد ملی جوکہ  ایک مثبت پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔

 جس روز او آئی سی کا اجلاس اور صوبہ پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہو رہا تھا اس دن باجوڑ میں عرصہ دراز کے بعد ایک خودکش دھماکاہوا جس میں 4 افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔  یہ اس جانب اشارہ ہے کہ افغانستان کے حالات سے خصوصاً خیبرپختونخواہ کی صورتحال کے پھر سے خراب ہونے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں تاہم دوسری طرف خوش آئند بات یہ ہے کہ تین قبائلی اضلاع اور پشاور سمیت صوبے کے 17اضلاع میں دو تین کشیدہ واقعات سے قطع نظر پر امن ماحول میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا جس سے یہ ثابت ہوا کہ عوام جمہوریت اور ترقی چاہتے ہیں۔

قدیم ہنر کندہ کاری ٹیکنالوجی کے خطرے سے دوچار

تحریر : موسیٰ کمال یوسفزئی

پشاور کی اندر شہر مارکیٹ سونے، چاندی  کی  خرید  و  فروخت  اور  زیوارت  بنانے کیلئے  مشہور  ہے۔ اس  قدیم  مارکیٹ کی  بارے میں  کہا جاتا ہےکہ آزادی سے  پہلے  یہاں  پر  ہندو  اور  سکھ  مذہب سے تعلق رکھنے  والے  لوگ سونے کی خرید  و  فروخت   اور کندہ کاری کا کام کرتے تھےاور آزادی  کے  بعد یہاں مسلمانوں نے سونے اور چاندی کا کاروبار جاری رکھا ۔اس مارکیٹ میں اب بھی ایسے سنار موجود  ہیں جو  ٹیکنالوجی کے اس جدید  دور  میں ہاتھ سے کام  کرتے ہیں۔اندر شہر بازار میں تیس سال  سے کام کرنے والے شیراز  احمد نے وائس آف کے پی کو  بتایا  کہ کندہ کاری ایک مشکل ہنر ہے اسے سیکھنے کیلئے ہم نے بہت تکلیف برداشت کی ہے کم عمری ہی میں ہم نے استادوں کی شاگردی کی اور تب کام سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ “مارکیٹ میں ٹیکنالوجی آنے کے بعد ہمارا کام اور بھی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اب جب مارکیٹ میں لوگ مشینوں کے ذریعے جو کام کرتے ہیں وہ ہمیں ہاتھ سے بنا کر کرنا پڑتا ہے ۔اب لوگ وہی ڈیمانڈ کرتے ہیں جو مشینوں پر تیار ہوتا ہے لیکن ہم تو مشین کا استعمال نہیں کرتے صرف ہاتھ سے زیورات بناتے ہیں  اورکوشش کرتے ہیں کہ ہر وہ ڈیزائن سیکھیں جو مشین پر تیار ہوتا ہے۔”

شیراز نے بتایا کہ  مشین  اور  ہاتھ  کے  کام میں بہت فرق  ہوتا  ہے  ہاتھ  کے کام میں سونے  کا  وزن  زیادہ  آتا ہے جسکی وجہ  سے  وہ  مضبوط ہوتے ہیں،  اسلئے  ہاتھ سے بنا ہر آئٹم بہت پائیدار  اور  زیادہ وقت کیلئے کار آمد  ہوتا ہے  اب بھی بہت سے  لوگ ایسے ہیں جو  ہاتھ سے  بنے ہوئے زیورات کو پسند کرتے ہیں۔

” ہم جتنے بھی آئٹمز بناتے ہیں  اس میں مشین کا استعمال نہیں کرتے،  ایک بھی چیز  یا  ڈیزائن  ہم  مشین سے تیار نہیں کرتے  بلکہ ہاتھ سے  بناتے ہیں۔شیراز نے کہا کہ  گاہک  ہمیں جو  بھی ڈیزائن پیش کرتا ہے  ہم بلکل وہی ڈیزائن اْس کیلئے  ہاتھ سے  تیار کرتے  ہیں جو وہ دکھاتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں شیراز نے کہا کہ موجودہ  وقت میں سونے کا کاروبار  بہت   مشکل ہے  غریب  کاریگرکےپاس اتنے  پیسے  نہیں  ہوتے  کہ  لوگوں  کیلئے  نیا  سونا خریدیں اور  اسے پھر  بیچیں۔  وہ صرف اس گاہک کا  کام کرتے ہیں جو سونا  خود خرید کر  لاکے دیتا  ہے اور  اس کے  لائے گئے سونے  پر بتائے گئے ڈیزائن  تیار  کرتے ہیں   اور  اْن  سے صرف  ا پنی  مزدوری  لیتے ہیں۔”

مشین  پر کام  کرنے  والے  مزدوری  کم  لیتے  ہیں  اور  ہاتھ  کی بنائی گئی چیز  کی مزدوری  زیادہ  ہوتی ہے کیونکہ  اس کام  میں  محنت  بہت زیادہ  ہوتی ہے  اور  ہم  صرف  مزدوری  لیتے  ہیں  مشین وہ  لوگ  استعمال کرتے  ہیں  جنکے پاس خود  کا سونا زیادہ  ہو۔  انہوں نے  بتایا  کہ  سونا بنانے کے اوزار  اب بھی ملتے  ہیں پر  اس میں  چند ایسی چیزیں  یا  آلات ہیں جو بازار  میں  نہیں  ملتے  وہ خود  ہاتھوں  سے  بناتے  اور  اس کے ذریعے اپنا کام  آسان  کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں ملک میں  مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور  سونے کی قیمت میں بھی اضافہ  ہوا ہے تو اس وجہ سے کاروبار  پر  بہت  منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں مگر  اس  کے  علاوہ  ہم  کوئی اور کام کر نہیں سکتے۔   تاہم،  اب ہم  اپنے  بچوں  کو  اس  کام  سے  دور  رکھتے ہیں اور سکھانے کیلئے  ساتھ  نہیں  لاتے کیونکہ دن بہ دن ہمارا  کاروبار کمزور ہوتا جا رہا ہےجسکی وجہ  سے  ہمارے  لئےگھر کے اخراجات بھی پورا  کرنا مشکل ہوتا  ہے مگر ہماری  مجبوری  ہے ۔اس  نےکہا کہ امیر  کاروباری  لوگ  تو  سونا بنانے  کے ساتھ  ساتھ  اس  کی خرید  و  فروخت  کرتے  ہیں اسی سے اپنا  منافع   بڑھاتے ہیں  مگر ہم صرف اس  کے کاریگر ہیں، خرید  اور  فروخت   ہمارے بس  کی  بات  نہیں  اسلئے  ہمیں  اتنا  منافع  نہیں  ہوتا  کہ  ہم  اس پر گزارہ  کر سکیں   بس  مجبوری میں  اپنا کام جاری  رکھتے  ہیں کیونکہ  مارکیٹ  میں  ہر چیز  مہنگی  ہو چکی  ہے ۔ ہمیں اس بات کی بہت  فکر ہے کہ مہنگائی اور ٹیکنالوجی ہمارے کاروبار کو ختم ہی نہ کردے۔