کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے 5 فروری کو پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں اجتماعات، جلوسوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا گیا جن کے دوران مقبوضہ وادی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور بھارت، عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کر کے مسلمانوں کی نسل کشی روک دی جائے اور جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے عالمی طاقتیں اپنا کردار ادا کریں۔
اس ضمن میں ہر پارٹی، طبقے اور علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے موقف اپنایا کہ برسوں کی کشیدگی اور بھارتی رویے سے جہاں کشمیریوں کے حقوق 21 ویں صدی میں بھی پامال ہو رہے ہیں ان کا کھلے عام قتل عام ہورہا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں اور میڈیا پر پابندی ہے وہاں اس صورتحال میں پورے خطے اور عالمی امن کو بڑے خطرے سے دوچار کر رکھا ہے اور اگر بھارتی انتہا پسندی کا راستہ نہیں روکا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
وادی کشمیر میں سال 1989 کے بعد جو خطرناک صورتحال بنی ہوئی ہے اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی رپورٹس کے مطابق بھارتی فوج نے تقریباً پچاس ہزار آپریشن کیے جو کے کسی بھی علاقے میں کی گئی فوجی کاروائیوں کا عالمی ریکارڈ ہے۔ ان کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران ایک لاکھ 15 ہزار آبادیاں، مارکیٹیں اور دکانیں مسمار کی گئیں جبکہ ہزاروں افراد کو شک کی بنیاد پر یا تو مارا گیا یا ان کو جیلوں میں ڈالا گیا جبکہ اُن کشمیری رہنماؤں کو بھی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی گئی جو کہ ماضی میں دہلی کے طرفدار، وفادار اور اتحادی رہے ہیں۔ کہا گیا کہ اس مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگیں لڑی گئیں جبکہ صرف سال 2020 میں ایل او سی پر 400 جھڑپیں ہوئیں۔
حالیہ مزاحمت مودی سرکار کے 5 اگست 2019 کے اس آئینی اقدام کے بعد شروع ہوئی جس کے ذریعہ کشمیر کی نیم آزادانہ اور متنازعہ حیثیت کو ختم کرکے بعض دوسری ریاستوں کے طرز پر اس کے امتیازی اسٹیٹس کو تبدیل کیا گیا جس پر کشمیریوں کے علاوہ کانگریس سمیت متعدد دوسری پارٹیوں نے بھی شدید احتجاج کیا۔ سال2019 کے یکطرفہ فیصلہ کے بعد جہاں بھارت کے دوسرے علاقوں میں بھی کشمیریوں کے شہری حقوق سلب کیے گئے وہاں ایک پالیسی کے تحت تقریباً ایک لاکھ ایسے خاندانوں کو کشمیر میں بسایا گیا جو کہ انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھتے آیے ہیں تاکہ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ دبایا جاسکے بلکہ ان کو اقلیتوں میں تبدیل کیا جا سکے۔
آج جو کشمیر پاکستان کے پاس ہے اس کی آزادی کے لیے پاکستان بھر خصوصاً خیبر پختونخوا کے ہزاروں شہریوں نے بہت قربانیاں دی ہیں کیونکہ 1948 میں ایک قبائلی لشکر نے سرینگر کے دروازے پر ڈھیرے رکھے تھے جس سے خوفزدہ ہوکر بھارت اقوام متحدہ میں گیا اس لئے یہاں کے عوام کو کشمیریوں سے نہ صرف بہت محبت ہے بلکہ وہ اس صورت حال کو تشویش کی نظر سے بھی دیکھ رہے ہیں۔
اسی تناظر میں 5 فروری کو صوبے میں بڑے مظاہرے کیے گئے اور عالمی امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے پرامن سیاسی حل کو ناگزیر قرار دیا گیا۔