8f6af025-72be-47e7-86da-ed9f986201f0

لنڈی کوتل: افغانستان سے داخل ہونے والی ٹرک سے کروڑوں کی منشیات برآمد

لنڈی کوتل میچنی چیک پوسٹ کے قریب کسٹم عملہ کی کاروائی افغانستان سے داخل ہونے والی ٹرک سے 7 کروڑ روپے مالیت کے کوکین سمیت 9 کروڑ روپے مالیت کی منشیات برآمد کرکے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔
ایڈیشنل کلکٹر کسٹم طورخم محمد طیب کے مطابق افغانستان سے طورخم سرحد کے راستےداخل ہونے والی خالی ٹرک کو میچنی چیک پوسٹ پر کسٹم عملہ نے روک لیا۔ اور شک کی بنیاد پرٹرک کی تلاشی لی گئی۔محمد طیب کے مطابق ٹرک کے خفیہ خانوں سے ساڑھے چھ کلوگرام کوکین منشیات؛ 35 کلوگرام افیون اور 160 کلوگرام چرس برآمد کرلیاگیا۔پکڑی جانے والی منشیات کی عالمی مارکیٹ میں قیمت 9 کروڑ روپے مالیت بنتی ہے۔ محمد طیب کے مطابق طورخم کسٹم کی تاریخ میں پہلی بار کوکین منشیات برآمد کرلی گئی۔ ٹرک کو ڈرائیور سمیت حراست میں لیاگیا ہے۔ ڈرگ مافیا کو بے نقاب کرنے کےلئے ملزم سے تفتیش جاری ہے۔ایڈیشنل کلکٹر کسٹم محمد طیب کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران طورخم کسٹم عملہ نے 3 ارب 61 کروڑ روپے مالیت کی منشیات پکڑی ہے۔

ججززز

پشاور ہائی کورٹ کے تین ایڈیشنل ججز نے حلف اٹھا لیا

پشاور: پشاور ہائی کورٹ کے تین نئے تعینات ہونے والے ایڈیشنل ججز نے جمعہ کو  اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔

 چیف جسٹس پی ایچ سی جسٹس قیصر رشید خان نے جسٹس کامران حیات میاں خیل، جسٹس اعجاز خان اور جسٹس فہیم ولی سے ایک سادہ تقریب میں حلف لیا جس میں ہائی کورٹ کے ججز، ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر جاوید، صوبائی بار کونسل کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور کابینہ کے اراکین اور عدالت کے پرنسپل افسران نے شرکت کی۔ ان تقرریوں سے ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد 20 کی منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں 17 ہو گئی۔

 جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے 5 جنوری کو 6 افراد کو ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی سفارش کی تھی۔ ان میں نئے تعینات ہونے والے تین جج بھی شامل تھے۔

پولنگ

کے پی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے 13 اضلاع میں دوبارہ پولنگ کل ہوگی

 خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے لیے تیرہ اضلاع میں دوبارہ پولنگ کل (اتوار) ہوگی۔

 الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران پولنگ کے دن حالات کی خرابی یا الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی موت کے باعث بلدیاتی کونسلوں کی مختلف نشستوں پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے گی۔

 تیرہ اضلاع میں پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، مردان، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، بونیر، باجوڑ، کرک، خیبر اور مہمند شامل ہیں۔

 کمیشن نے پولنگ کے لیے کل پانچ سو اڑسٹھ پولنگ اسٹیشنز قائم کیے ہیں۔ ری پولنگ میں سات لاکھ سے زائد ووٹرز اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔

 دریں اثناء پولنگ کے دن امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے سیکورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔ دوبارہ پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوگی اور شام 5 بجے تک بغیر  کسی وقفے کے  جاری رہے گی۔

SCO

Minorities are equal citizens of Pakistan: COAS

Army Chief General Qamar Javed Bajwa visited Nagarparkar on Friday . In a meeting with the Hindu community, General Bajwa said that the protection of minorities was the responsibility of the state.

According to Pakistan Army Public Relations (ISPR), Army Chief General Qamar Javed Bajwa visited Nagarparkar Pak-India border area where he spent the day with the soldiers and visited Hindu Community.

Talking to  the community, the Army chief  said that minorities in Pakistan are equal citizens and it is the responsibility of the state to protect them.

The  Hindu community appreciated Pakistan’s efforts in providing a safe environment to the minorities in the country and said that the community was playing its full role in Pakistan’s economic development.

During the visit, the local commander briefed the army chief  about the operational readiness of the formation. Corps Commander 5 Corps and DG Rangers Sindh also accompanied him on the occasion. The commander appreciated the high morale of the officers and men.

Addressing the troops, General Qamar Javed Bajwa said that they should focus on their professional readiness and continue their training for effective response to any emerging challenge.

 

IMG-20220212-WA0002

اظہار رائے کا اخلاقی معیار اور ہمارے رویے

اظہار رائے کے نام پر پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور کی بورڈ واریئرز پر مشتمل نام و نہاد سوشل میڈیا پر آئے روز جو باتیں سننے اور پڑھنے کو ملتی آرہی ہے وہ نہ صرف ہمارے صحافتی اور سماجی حلقوں کے لئے بہت خطرناک ہے بلکہ اظہار رائے کی توہین بھی ہے۔ گزشتہ روز ایک خاتون اینکر پرسن کی ٹی وی شو میں وفاقی وزیر مراد سعید کے حوالے سے ایک بحث کے دوران ایسی گفتگو کی گئی جس نے اُن حلقوں کو بھی پریشان کر دیا جو کہ میڈیا کی آزادی کے علاوہ اظہار رائے کی مکمل آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور ریاستی، سیاسی معاملات کا ناقدانہ جائزہ لینے کے حامی ہیں۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے رویوں کا اب سد باب ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اور حکمران جماعت کے رویے اور مخالفین کے ساتھ نمٹنے کے طریقہ کار کو کسی طور قابل ستائش نہیں کہا جاسکتا اور سیاست، صحافت میں نازیبا اور غیر ذمہ دارانہ الفاظ اور القابات کی منفی بنیادیں انہوں نے ہی رکھی ہے۔ تاہم وزیراعظم اور لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان وزیر کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے اس پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اگر یہ اظہار رائے ہے تو اس پر پابندی لگانی چاہیے کیونکہ اظہار اور رائے دونوں کے کچھ واضح حدود اور تیور متعین ہے اور اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ عوام کا ایک بڑا حصہ اب اس عمل سے بیزار ہو کر اس کو میڈیا گردی کا نام دے رہا ہے۔
مذکورہ پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی حسن خان نے لکھا کہ ہمیں تہذیب کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر مراد سعید کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ انتہائی پست ذہنیت کا عطاس تھا۔ مراد سعید کی کارکردگی کی بجائے جس طریقے سے ان کی کردار کشی کی گئی وہ کسی بھی طور پر کسی مہذب معاشرے کو نہ تو زیب دیتا ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے۔
اینکر پرسن سید وقاص خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ جس طریقے سے مراد سعید کے کردار پر ٹی وی پر بیٹھ کر ذومعنی سوالات اور جوابات کے ذریعے مزے لیے گئے اس میں صحافتی اور اخلاقی تقاضوں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ وفاقی وزیر کی کارکردگی پر اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر ان کی ذات پر ہونے والے حملہ آوروں کو شرم آنی چاہیے۔


سینئر صحافی محمود جان کے مطابق ایسے اینکرپرسنز کو مزید کام کرنے سے روکا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے صحافت کی بہت بدنامی ہو گئی ہے اور ذہنی مریضوں کے ذریعے صحافت کو مزید بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کالم نگار جویریا صدیق نے کہا کہ ذومعنی گفتگو اور بہتان تراشی کوئی آزادی صحافت نہیں ہے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

صحافی اور کالم نویس عفت حسن رضوی کے مطابق سیاسی بحث کے نام پر میزبان اور سینئر صحافیوں نے جس طریقے سے سطعی گفتگو کی وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ یہ ہماری صحافت اور سیاست کی بدقسمتی بھی ہیں۔ ہمیں اس قسم کے رویے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔