چنار سپورٹس فیسٹیول کونج گراؤنڈ ایبٹ آباد میں شروع ہوگیا۔ ثقافتی اور علاقائی کھیلوں کو اجاگر کرنے کے لئے پہلی مرتبہ چنار فیسٹول کے نام سے میلا سجایا گیا جس کی افتتاحی تقریب گزشتہ روز کونج گراؤنڈ ایبٹ آباد میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق احمد غنی تھے ۔
ضلعی انتظامیہ اور ریجنل سپورٹس آفس کے زیر اہتمام پہلی مرتبہ چنار فیسٹول کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد کھیل کود کیساتھ ساتھ ہزارہ ڈویژن کیعلاقائی کھیلوں کو زندہ رکھنا ہے تین روزہ چنار فیسٹول میں،رسہ کشی,کبڈی،نیزہ بازی،تیراندازی،پتھر اٹھانے کے مقابلے، میراتھن ریس اورسائیکلنگ سمیت محفل موسیقی ،کھانے ،مختلف سٹالز ،ہاتھوں سے بنی اشیا کی نمائش، ہندکو اور پشتو مشاعرہ شامل ہیں۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی نے کہا کہ ان علاقائی مقابلوں کو چنار فیسٹول کا نام دینا قابل تعریف ہے کیونکہ ایبٹ آباد کو چناروں کا شہر کہا جاتا ہے اور چنار کی درخت کیساتھ ہماری محبت کی داستانیں ہیں، انہوں نے کہا کہ کھیلوں کیساتھ ساتھ ہمیں اپنے علاقائی کھیلوں میں بھی دلچسپی لینی چاہئے کیونکہ یہ ہماری پہچان ہے اور یہ گیمز ہمارے بزرگوں نے کھیلی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے ویژن کے مطابق کھیلوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے صوبائی حکومت نے سپورٹس انفراسٹرکچر سمیت سپورٹس میگا ایونٹس اور سپورٹس سکالرشپ کی اجرا قابل ذکر ہے ۔انہوں نے کہا کہ بہار کی آمد پر شجر کاری مہم کا آغاز کیا جس میں چنار کے پودوں کو فوقیت دی جارہی ہے۔افتتاحی تقریب کے دوران گورنمنٹ سکول نمبر 4کے طلبہ نے ثقافتی نغفہ جبکہ فینسی ڈریس میں ملبوس لائم لائٹ پبلک سکول کے بچوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے ثقافتی رنگ پیش کئے جیسے حاضرین نے خوب سراہا۔اس موقع پر کراٹے اور علاقائی کھیل گتکہ کا بھی خوبصورت مظاہرہ کیا گیا،پہلے روز کھیلے گئے مقابلوں کے مطابق رسہ کشی میں کنڈیاں کی ٹیم نے ایبٹ آباد بلیو کو جبکہ کبڈی میں شیڈو کلب نے منڈیاں الیون کو شکست سے دوچار کیا۔

اس ضمن میں خویاندے ادبی لشکر (خال) کے زیر اہتمام گزشتہ روز خواتین کے عالمی دن کی مناسب سے ایک ایوارڈ فنکشن کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد صوبے اور پشتون سوسائٹی کی ان خواتین کو خیراج تحسین پیش کرنا تھا جنہوں نے نامساید سماجی، سیاسی حالات کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے کام کے ذریعے نام بنایا ہے ۔
مذکورہ ایوارڈ تقریب کی آرگنائزر اور متحرک شاعرہ ، دانشور کلثوم زیب نے اس ضمن میں بتایا کہ ہم نے اس ایونٹ کو اس لئے ضروری سمجھا کہ اس کے ذریعے نہ صرف اپنے لیجنڈز کو خراج تحسین پیش کیا جائے بلکہ ان نئے لکھاریوں، فنکاروں اور دیگر شعبوں کی باصلاحیت لڑکیوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی بھی کی جائے جو کہ بعض سماجی رکاوٹوں اور مشکلات کے باعث اپنے کام اور صلاحیتوں کو دوسروں کی طرح سامنے نہیں لا سکتی اور ہم ان کی خدمات اور کام سے بے خبر رہ جاتے ہی۔
کلثوم زیب کے مطابق قدرت نے اس خطے اور مٹی کو بہترین اذہان سے نوازا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہیں کہ ایسے باصلاحیت لوگوں کو تحفظ فراہم کرکے ان کی سرپرستی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایوارڈز کے اس سلسلے کو باقاعدگی کے ساتھ ہر سال منعقد کرکے جاری رکھا جائے گا۔ اس ایوارڈ کی خاص بات یہ ہے کہ ہم نے ان کو اس خطے کی لیجنڈ خواتین مثلاً زیتون بانو، گلناربیگم، سلمہ شاہین اور ایسی دیگر کے نام پر رکھا ہے تاکہ نئی نسل کو ان شخصیات کی خدمات سے آگاہی ہو۔ شرکاء نے اس ایونٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج کے جدید دور میں ہم خواتین کی بھرپور اور فعال کردار کو یقینی بنا کر آگے نہیں بڑھ سکتے اس لیے اس قسم کی تقریبات کا اہتمام اور انعقاد بہت لازمی ہے اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔