یہ بات انتہائی افسوسناک بلکہ خطرناک ہے کہ پاکستان کی مختلف پارٹیاں اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے مذہب کا کارڈ استعمال کر رہی ہیں اور اس طریقے سے کوشش کی جا رہی ہے کہ سیاسی کارکنوں کے علاوہ عام لوگوں میں نفرت اور دوریوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے اپنے جلسے کے لیے جو نام یا سلوگن رکھا وہ امر بالمعروف تھا جس میں مخالفین کے علاوہ غیر سیاسی سنجیدہ حلقوں نے بھی حیرت اور خدشات کا اظہار کیا جبکہ وزیراعظم کی کابینہ کے بعض ارکان اور ایک صوبے کے گورنر نے پارلیمنٹ پر خود کش حملے کی خواہش جیسے بیانات دےکر مغربی میڈیا کو پاکستان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈے کا موقع فراہم کیا جو کہ انتہائی غیر محتاط طرز عمل ثابت ہوا۔
عدم اعتماد آئینی اور جمہوری نظام کا ایک حصہ ہے جبکہ سیاسی دفاع کرنا دوسرے فریق کا بھی بنیادی حق ہے تاہم حالیہ دنوں کے دوران فریقین نے جہاں ایک بار پھر اس معاملے کو پاکستان اور اسلام کا معاملہ بنانے کی جو روش اپنائی اس کو کسی طور جائز اور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ یہ اقتدار کی حصول کی لڑائی ہے اور سیاسی قائدین شوق سے یہ لڑائی لڑتے رہیں تاہم اس کی آڑ میں ملک کی ساکھ اور سماجی ڈھانچے کو داؤ پر لگانے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جس شام وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں خطاب کیا اسی رات کو پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی اسی شہر اقتدار میں ایک جوشیلی تقریر کرکے عمران خان کے بارے میں خلاف عادت نہ صرف نازیبا الفاظ استعمال کیے بلکہ انہوں نے متعدد بار ان کو اسرائیل اور امریکی ایجنٹ بھی قرار دے دیا۔ مولانا نے غیر محسوس طریقے سے اپنے لیڈروں اور کارکنوں کے ذریعے اسلامی انقلاب کے نعرے بھی لگوائے اور اس بات پر فخر بھی کیا کہ ملک میں مدارس کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ کسی کو بھی دوسرے ملک کا ایجنٹ قرار دینا انتہائی نامناسب رویہ یا اور خطرناک عمل ہے حب الوطنی اور غداری کے طعنے بانٹنے کا یہ سلسلہ اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ مولانا نے عمران خان کی حکومت کا اپنی ہم خیال پارٹیوں کے ہمراہ خاتمہ کرنا ہے تو اس کے لیے پارلیمنٹ کا فورم اور طے شدہ طریقہ کار موجود ہے اس کے لیے یہ بالکل ضروری نہیں کہ وزیراعظم کو اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیا جائے حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آج جو پارٹیاں عمران خان کے خلاف اکٹھی ہوگئی ہیں ان کے نظریات میں کوئی چیز قدر مشترک نہیں ہے اور یہ ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف ایسے ہی الزامات لگاتی رہی ہیں۔ سیاست میں مذہبی کارڈ کا حالیہ استعمال نہ تو ملک کے مفاد میں ہیں نہ معاشرے کے مفاد میں اور نہ ہی سیاسی قوتوں کے مفاد میں اس لیے اس رجحان اور رویے پر نظر ثانی کی جائے۔