11 corps commander Peshawar Lt General Faiz Hameed

بدلتے حالات، قبائلی علاقے اور درکار اقدامات

اس بات سے قطع نظر کہ وفاقی حکومت کی ہونے والی تبدیلی کے سیاسی محرکات اور اثرات پر غیر ضروری بحث کی جائے خوش آئند بات یہ ہے کہ بحران ٹل گیا ہے اور اب نئی حکومت نے ملک کو بہت سی مشکلات سے نکالنے کے عملی اقدامات کرنے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان کا یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ شہباز شریف کو درکار پروٹوکول نہیں دے سکتے اس لیے وہ مستعفی ہو رہے ہیں ایسا کرنا ان کا حق ہے ویسے بھی ان کو ہٹانا طے تھا اور نئے گورنر نے آنا تھا۔

پختونخوا کی صورتحال دوسرے صوبوں سے بہت مختلف اور پیچیدہ ہے اس لئے بدلتی صورتحال میں یہاں کی عسکری، سیاسی اور حکومتی قیادت کو اسی تناظر میں ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ یہاں پی ٹی آئی کی حکومت برقرار رہے گی اس لیے وزیر اعلیٰ اور کابینہ وفاقی حکومت سے صوبے کے مفادات اور ضروریات کے پیش نظر میں تصادم سے گریز کریں گے تو اس کا صوبے کو فائدہ ہوگا۔ عمران خان اب بھی صوبے کے مقبول لیڈر ہیں اس لیے وہ اس معاملے پر صوبے کے عوام کو کسی آزمائش میں نہ ڈالیں۔

 دوسرا مسئلہ اس صوبے کے ان قبائلی اضلاع کے حال اور مستقبل سے وابستہ ہیں جوکہ بدترین حالات سہنے کے بعد پختونخواہ میں ضم کئے گئے ہیں۔  اس سے بڑھ کر پاک افغان بارڈر کی سکیورٹی کا ایشو بھی نہ صرف بہت توجہ طلب ہے بلکہ کراس بارڈر ٹیررزم  اور تجارت کی بحالی جیسے معاملات بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں۔  ان مسائل سے نکلنے کا کام صرف صوبائی حکومت کا کام نہیں ہے اس کے لیے سب کو مل کر غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ حالات پھر سے خراب ہو سکتے ہیں۔

 مشاہدے میں آیا ہے کہ صوبائی حکومت نے  قبائلی اضلاع کے معاملات سے بڑی حد تک خود کو دور یا لاتعلق رکھا ہے حالانکہ سابق وزیراعظم عمران خان ان علاقوں میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس تمام عرصہ کے دوران اگر عملی اقدامات کیے گئے ہیں یا قبائلی عوام کی داد رسی کی گئی ہے تو اس کا کریڈٹ عسکری قیادت اور متعلقہ عسکری اداروں کو ہی جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف ان علاقوں میں امن قائم کیا اور قربانیاں دیں بلکہ عوام کی مشاورت اور تجاویز کے تبادلے کی روشنی میں اس علاقے کی سماجی، ثقافتی اور اقتصادی حالات بہتر بنانے پر بھی بھرپور توجہ دی۔

پشاور کے کور کمانڈر اور ان کی ٹیم نے اپنی تمام توجہ قبائلی اضلاع کی تعمیر نو اور بحالی پر مرکوز کیے رکھی۔ انہوں نے جہاں بہت سے دیرینہ مطالبات تسلیم کر کے عملی اقدامات کیے بلکہ انہوں نے ان علاقوں کے ریکارڈ دورے کرکے بیوروکریسی کو متحرک کیا اور متعدد عوامی جرگوں میں شرکت کرکے عوامی نمائندوں، افسران، مشران اور نوجوانوں کی شکایات، مطالبات اور تجاویز کو غور سے سن کر ان کو عملی اقدامات کے ذریعے یقین دلایا کہ ریاست ان کے ساتھ ہے اور ان کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی تلافی ہو گی۔

کور کمانڈر نے  اپنی ٹیم اور متعلقہ اداروں کے ہمراہ گورننس کے مسائل دور کرنے پر بھی توجہ دیں اور اس بات کا بھی خاص خیال رکھا کہ تمام فیصلوں میں عوام کی مشاورت اور مرضی شامل ہو اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں عوام کا ریاست پر اعتماد بڑھتا گیا وہاں ان لوگوں کو یہ احساس بھی ہونے لگا کہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں  میں ان کی آراء کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اسی طرز عمل کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ امن وامان کی مجموعی صورتحال ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہونے لگی اور نئی نسل کو تحفظ کا احساس ہونے لگا جس کے نتیجے میں وہ دل کھول کر نہ صرف تعلیم کی حصول پر توجہ دینے لگے بلکہ انہوں نے سماجی ثقافتی اور سپورٹس کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ اس تمام منظر نامے کا اس حوالے سے خیرمقدم کرنا چاہیے کہ اس غیر معمولی دلچسپی اور عملی اقدامات میں قبائلی علاقوں کے انضمام اور مین اسٹریمنگ کے مقاصد کو عوام تک پہنچانا شروع کردیا ہے اور اگر یہ پالیسی اسی طرح جاری رہی اور ان اقدامات کو وفاقی حکومت کی سرپرستی بھی حاصل رہی تو یہ صوبہ مثالی علاقہ بن جائے گا اور جب یہاں امن اور استحکام ہوگا تو اس کے مثبت اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی سیکیورٹی اور اکانومی پر اثر انداز ہوں گے۔

پختونخواہ کو سیکورٹی کے مسائل کا اب بھی سامناہے جسکی تازہ مثال گزشتہ روز بنوں میں سی ٹی ڈی کی وہ کارروائی ہے جس کے نتیجے میں 5 دھشت گرد مارے گئے جبکہ اس سے قبل ٹانک میں بھی ایک بڑی کارروائی عمل میں لائی گئی تھی اور وزیرستان میں بھی دھشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔