صحت کارڈ پروگرام بند ہونے کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں، یہ صوبے کا اپنا پروگرام ہے، کوئی مائی کا لال اسے ختم نہیں کرسکتا۔
صحت کارڈ پروگرام وفاقی حکومت کے قطعی محتاج نہیں۔ صحت کارڈ کو ضروری قانونی تحفظ دینے کیلئے اگلی کابینہ اجلاس میں قانون سازی کی منظوری دیں گے، قانون سازی سے پختونخوا میں یونیورسل ہیلتھ کوریج لازمی ہوگی : وزیر صحت و خزانہ تیمور جھگڑا کا ٹوئیٹر پر اظہار خیال۔
1. There is absolutely no truth in any rumours that the Sehat Card programme is being discontinued.
In Pakhtunkhwa, the programme is independent of the federal govt.
In the next cabinet we will approve legislation to ensure that universal health coverage is mandated by law in KP.— Taimur Khan Jhagra (@Jhagra) April 19, 2022
سوشل میڈیا اور عوامی حلقی میں صحت کارڈ پروگرام کے اختتام سے متعلق افواہوں پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیرصحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا ہے کہ صحت کارڈ پروگرام بند ہونے کی افواہوں میں کوئی صداقت نہیں، یہ صوبے کا اپنا پروگرام ہے، کوئی مائی کا لال اسے ختم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے ان خیالات کے اظہار سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹوئٹر اپنے ٹویٹس میں کیا۔ ان کے مطابق صحت کارڈ پروگرام وفاقی حکومت کے قطعی محتاج نہیں۔ صحت کارڈ کو ضروری قانونی تحفظ دینے کیلئے اگلی کابینہ اجلاس میں قانون سازی کی منظوری دی جائیگی۔ اس قانون سازی سے پختونخوا میں یونیورسل ہیلتھ کوریج لازمی ہوگی ۔
اپنے ٹویٹس میں وزیر سحت کا کہنا ہے کہ پختونخوا میں صحت کارڈ سے اب تک تقریباً 1.1 ملین افراد مستفید ہوچکے ہیں، انشاء اللہ اس پروگرام کو مزید مضبوط اور بہتر بنائینگے۔ صرف مارچ میں پختونخوا کے 80,000 سے زیادہ شہریوں نے صحت کارڈ سے استفادہ کیا۔ وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر خزانہ نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ فاقی حکومت عمران خان کے اُس اہم اقدام پر خاموشی اختیار کی ہے جو اب 150 ملین سے زیادہ پاکستانیوں کو مفت صحت سہولیات فراہم کررہاہے، پاکستان کے رہائشیوں اور صحت سہولیات فراہم کرنے والوں کو بھی یقین ہونا چاہئے کہ اس پروگرام کو واپس لینا اب ممکن نہیں۔
طرف خوست اور کنڑ میں ہونے والی بعض مبینہ کارروائیوں پر افغان حکومت نے پاکستان سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا۔ افغان حکومت کے بعض اعلیٰ عہدیداران نے رد عمل میں بعض دھمکی نما بیانات بھی دئیے حالانکہ یہ بات ان کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان ان کے لیے کیا کچھ کرتا آرہا ہے اور اس کے بدلے پاکستان کو کتنے دباؤ کا سامنا ہے۔
میں ایک میجر کو شہید کیا گیا جبکہ اس سے پہلے ٹانک میں ایف سی کے قلعے پر دہشت گرد حملہ کیا گیا۔ ان تمام حملوں میں جو ایک چیز مشترک رہی وہ یہ تھی کہ حملہ آور افغانستان سے ہو کر آئے تھے اور ان کے ٹھکانے خوست میں ہیں۔ ان حملوں کو نظر انداز کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ پاکستان کی وہ مفاہمتی اور مذاکرات کی کوششیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہیں جو کہ اس نے افغان حکومت کی خواہش پر بعض بنیادی خدشات کے باوجود ٹی ٹی پی کے ساتھ شروع کی تھیں۔