اے وسیم خٹک
میرے سامنے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں صوبہ خیبر پختونخوا سے چھپنے والے اخبارات پڑے ہیں۔ جس میں بہت سی خبریں مجھے اس بات پر مجبور کر گئی کہ اس موضوع پر لکھا جائے ورنہ میری یہ خواہش تھی کہ رمضان المبارک میں کوئی بھی مضمون نہیں لکھوں گا کیونکہ میرے مضامین میں صرف مایوسیاں ہی ہوتی ہیں کیونکہ امید ایک عرصہ ہوئی اس ملک سے غائب ہوگئی ہے اور یقین نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے کیونکہ اگر نظر دوڑائیں تو ہر طرف مایوسیوں کے ہی بادل ہیں کوئی عام عوام کے لئے خاص خبر نہیں ہے۔ سیاسی گرمیوں میں عوام پھنس چکی ہے اپنے اچھے اچھے دوست احباب کو اس سیاسی گہماگہمی کی نذر کر چکے ہیں مگر ہمارا موضوع یہ نہیں ہے ہم یہاں پر ہمارے شہروں میں قتل وغارت کے واقعات کا احاطہ کریں گے۔ یعنی قتل مقاتلہ جس نے خاندانوں کے عید کی خوشیاں غارت کردی ہیں۔ یہ خبریں صوبہ کے بڑے شہروں کی ہے جس میں پہلی خبر کے مطابق ضلع صوابی میں ایک دن میں دس افراد ہلاک کردیئے گئے جس میں زیادہ تر معمولی چپقلش پر لڑائیاں تھیں اور اس ایک مہینے میں کم ازکم دو درجن سے زیادہ لوگ اس بابرکت مہینے میں ضلع صوابی میں بھینٹ چڑھے۔ پھر ساتھ ہی ضلع نوشہرہ کی جانب چلتے ہیں جہاں بھی ایک دن میں چار افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور ایک مہینے میں یہاں بھی درجن بھر افراد موت کا شکار ہوئے یہاں بھی لڑائی کی کوئی خاص وجہ شامل نہیں تھی۔ پھر مردان میں ایک دن میں مختلف جگہوں پر معمولی باتوں پر پانچ افراد لقمہ اجل بن گئے اور ایک مہینے میں یہاں بھی درجن بھر سے زیادہ افراد قتل کئے گئے۔ پھر چارسدہ کی جانب جاتے ہیں جہاں بھی تین افراد ایک دن قتل کئے گئے اور وہی ایک مہینے میں قتل کے واقعات کم نہیں ہوئے۔ پھر جب جنوبی ضلع کوہاٹ میں دیکھتے ہیں تو یہاں بھی چھ افراد ایک دن ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔ پھر پشاور کے نواحی علاقوں میں صورتحال مختلف نہیں رہی۔ یہاں بھی ایک دن چھوٹی چھوٹی باتوں پر گولیاں چلیں اور موت کے فرشتے نے روح قبض کرلی۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہورہے ہیں اس کے علاوہ ایکسیڈنٹ کے واقعات الگ ہیں جس میں بھی ہم لوگوں کی اپنی غلطیاں شامل ہیں۔ سوچ رہا ہوں ان سب واقعات کا شکار ہونے والے افراد کے گھر والے یپ عید کس طرح منائیں گے۔ صرف ایک گھر کی بات نہیں ہے جومقتول ہیں ان کے گھر میں تو صف ماتم بچھی ہوگی جو قاتل ہیں کیا اُن کے گھروں میں شادیانے بج رہے ہوں گے۔ بالکل بھی نہیں کیونکہ قاتل خاندان والے اب ڈر کے جی رہے ہوں گے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ مقتولین بدلہ لینے کی تاک میں ہوں گے تو اُن کے روزے بھی غارت اور عید کا بھی ستیاناس ہوگیا ہوگا صرف اُس کانہیں اُس کے پورے خاندان کی عید سوگواری میں گزر رہی ہوگی۔ اُن کے بچوں کو وہ خوشیاں نصیب نہیں ہوں گی جو کہ عید کا خاصہ ہوتی ہیں ۔یہ کس وجہ سے صرف اور صرف انا کی وجہ سے اور بدلے کی آگے کے ساتھ ساتھ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہورہاہے۔ حالانکہ ایسے واقعات کے بعد لازمی طور پر پچھتاوا ہوتا ہے جب اپنے سگے بھائی کو صرف پانی کے نکاس کے مسئلے پر زندگی سے محروم کردیا جاتا ہے تو عمر بھر ایک چھپن اور گلٹ کا احساس ہوتا ہے۔ عیدیں تو ویسے بھی کچھ دہائیاں پہلے ختم ہوگئیں ہیں اب تو صرف عیدوں کی رسمیں ہورہی ہیں اور اُن رسموں میں بھی جب ہلکی سی مٹھاس نہ ہو تو اس کا فائدہ کیا ہے۔ سوچتا ہوں ہمارے پختون کب عقل کے ناخن لیں گے۔ جب روزوں میں بھی وہ صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے جو کہ ایک ڈھال ہے اور روزہ برداشت سکھاتا ہے۔مگر ہم پختونوں میں برداشت نہ پہلے ہوتی ہے اور نہ ہی ہم میں روزوں میں برادشت ہوتی ہے بلکہ ہم تو روزوں میں مزید بگڑ جاتے ہیں جس کی بنیادہ وجہ دنیا کو دین پر مقدم کرنا ہے۔ اور جب تک ہم اسلام کے اصولوں پر نہیں چلیں گے اور دوسروں کو انسان نہیں سمجھیں گے تب تک ایسے ہی ہماری عیدیں سوگوار رہیں گی۔