transgender

خیبرپختونخوا خواجہ سراؤں کی مالی معاونت کا بل تیار

 مالی مشکلات سے دو چار خیبرپختونخوا کے خواجہ سراؤں کے لیے انڈونمنٹ فنڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت نے بل تیار کرلیا ہے جس کے تحت فنڈز کے ذریعے حکومت خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود،مالی معاونت، باروزگار بنانے کی کوشش کرے گی۔

خیبرپختونخوا خواجہ سرا ویلفئیر انڈونمنٹ فنڈ ایکٹ 2022 تیار، آج اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔  خواجہ سراؤں کو کاروبار کے لیے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے۔ بل کے تحت 6 ممبران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ بل کا مقصد خواجہ سراؤں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا، مالی لحاظ سے مستحکم بنانا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔

262a44cd-a919-412f-adb1-423f881d8253

پشاور :انسداد پولیومہم کا آغاز، 866603 بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے

انسداد پولیو مہم۔صوبائی دارلحکومت پشاور میں سات روزہ انسداد پولیومہم میں 866603 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔ صوبائی دارلحکومت پشاورمیں ضلعی انتظامیہ کی زیر نگرانی سات روزہ انسداد پولیو مہم 23 مئی سے 29 مئی تک جاری رہے گی۔ ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان نے سول ڈسپنسری شاہین مسلم ٹاؤن میں بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلا کر مہم کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ڈپٹی کمشنر پشاور نے علاقے کا دورہ کرتے ہوئے انکاری والدین کو قائل کرتے ہوئے بچوں کو انسداد پولیو قطرے بھی پلوائے۔

اس موقع پر ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ صوبائی دارلحکومت پشاور میں ضلعی انتظامیہ کی زیر نگرانی آج 23 مئی سات روزہ انسداد پولیو مہم شروع ہو گئی ہے جو کہ 29 مئی تک جاری رہے گی۔ مہم کے دوران پشاور بھر میں 866603 بچوں کو انسداد پولیو قطرے پلائے جائیں گے جس کے لیے 2496ٹیمیں پشاور کے مختلف علاقوں میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مصروف ہے اور ان ٹیموں کی سیکیورٹی کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنرپشاورشفیع اللہ خان نے والدین سے اپیل کی ہے کہ اپنے بچوں کو مستقل معذوری سے بچانے کے لیے پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلائیں اور پولیو ٹیموں سے تعاون کریں تاکہ پشاور سے پولیو وائرس کا خاتمہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پولیو کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر نا ہو گا اور ہماری مشترکہ کوششوں سے ہی پولیو کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

66bc48bf-84a1-4fe0-8f58-41e426f0815e

وادی تیراہ میں میں باغ امن میلہ


خبیر پختونخواہ کے علاقے ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کے باہمی اشتراک سے “باغ امن میلہ” کا انعقاد کیا جا رہا ہے. افتتاحی تقریب میں شرکاء نے قومی ترانہ پڑھا جبکہ بچوں نے قومی پرچم لہرایا. میلہ میں مارچ کرتے ہوئے بینڈ نے خوبصورت دھنوں کے ذریعے شرکاء سے خاص داد وصول کی.

 

افتتاحی تقریب میں بچوں نے مختلف ٹیبلوز پیش کئے. اس موقع پر پاکستان آرمی کی ملٹری پولیس کے بائیک رائیڈز نے بھی مہارت کا مظاہرہ کیا. تقریب میں خٹک ڈانس اور دیگر علاقائ رقص بھی پیش کیا گیا. افتتاحی تقریب کی سب سے خاص بات پیرا گلائیڈنگ اور پاور گلائیڈنگ کا مظاہرہ تھا. جسے وہاں موجود شرکاء نے خصوصی داد دی. اس موقع پر شرکاء نے اس میلہ کے انعقاد پر انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں اس طرح کے ایوینٹس کا انعقاد امن کی واضح مثال ہیں. ضلعی انتظامیہ اور فرنٹیئر کور نارتھ کے اشتراک سے منعقدہ باغ امن میلہ کی افتتاحی تقریب میں اعلی سول اور فوجی حکام, قبائلی اضلاع کے مشران, علاقہ مکین, بچوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دیگر مہمانوں نے شرکت کی. 25 مئ تک جاری رہنے والے باغ امن میلہ میں کرکٹ, والی بال, گھڑسواری اور رسہ کشی سمیت دیگر علاقائ کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوں گے۔

 

Imran Khan press conference 2022

عمران خان کا جارحانہ رویہ جاری، 25 کو لانگ مارچ کی کال

سابق وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد سازش کا بیانیہ اپناکر ایک مہینے تک ملک کے مختلف شہروں میں ریکارڈ جلسے کیے اور ان کا مطالبہ ہر جگہ یہ رہا کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ دوسری طرف شھباز شریف کی زیرقیادت اتحادی حکومت انتخابی اصلاحات اور معیشت کی بحالی کے بغیر یہ مطالبہ ماننے سے انکار کرتی رہی۔ اس مسئلے نے گھمبیر شکل اختیار کی اور عمران خان کارکنوں اور عوام کو حکومت اور اہم ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت پر کھلے عام اکساتے رہے۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بارے باغیانہ باتیں کرتے رہے اور الزام تراشی کرتے رہے کہ شھباز شریف کی حکومت کو لانے میں ملٹری قیادت نے امریکی سازش کے مطابق ان کا ساتھ دیا حالانکہ سازش محض ایک ایسا حربہ رہا جس کا کوئی عملی وجود بھی وہ ثابت نہیں کرسکے اور فوج بار بار یہ واضح کرتی رہی کہ اس معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس تمام صورتحال میں عمران خان نے کوشش کی کہ قوم کو تقسیم کیا جائے اور ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالا جائے۔ جلسوں کا فوکس انہوں نے دو صوبوں پختون خوا اور پنجاب پر رکھا اور اس مہم میں وہ پختون خوا کی اپنی حکومت اور اس کے وسائل بھی کھلے عام استعمال کرتے رہے۔ صوبائی حکومت کی تمام تر توجہ بھی اپنے لیڈر کو خوش رکھنے پر مرکوز رہی اور یہ حکومت وہی کردار ادا کرتی دکھائی دی جو کہ پچھلے دھرنا کے دوران پرویز خٹک کی حکومت ادا کرتی رہی تھی۔ عمران خان نے متعدد بار صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کو استعمال کیا اور حکومت اس معاملے پر مضحکہ خیز قسم کے دلائل دیتی رہی۔ سابق وزیراعظم نے سی ایم ہاوس پشاور کو اپنا بیس کیمپ بنایا اور حالت یہ رہی کہ جب انہوں نے 19 میء کو ملتان میں اپنا آخری جلسہ کیا تو وہ لاہور یا بنی گالہ کی اپنی رہائش گاہوں کی بجائے ڈایریکٹ پشاور پہنچ گئے اور دو دن بعد سی ایم ھاوس ہی میں کور کمیٹی کا اجلاس بلاکر انہوں نے اگلے دن اعلان کیا کہ وہ احتجاجی تحریک کے اگلے مرحلے میں 25 میء کو اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور اس وقت تک وہاں بیٹھے رہیں گے جب تک حکومت فوری الیکشن کا اعلان نہیں کرتی۔ اس اعلان کے بعد حکومت نے ایسے کسی بھی مطالبہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس کو بلیک میلنگ اور ملک کو بحران سے دوچار کرنے کی کوشش کا نام دیا۔ کہا گیا کہ عمران خان کو کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات قبل از وقت انتخابات کی اجازت نہیں دے سکتے۔ عمران خان نے ملک کی معیشت کی تباہی کی ذمہ داری بھی اتحادی حکومت پر ڈال دی حالانکہ تقریباً چار سال تک وہ خود برسراقتدار رہے اور یہ انہی کی ناکامی تھی کہ وہ ملک کی معیشت درست نہ کر سکے۔ جس صوبے یعنی پختون خوا میں 9 برسوں سے ان کی حکومت رہی اور اب بھی ہے اس صوبے کی حکومت نے بھی نہ صرف بیڈ گورننس اور کرپشن کی مثالیں قائم کی بلکہ اپریل کے آخری دنوں میں پتہ چلا کہ حکومت نے 600 ارب کے قرضے لیے ہیں اور یہ افسوسناک رپورٹ بھی سامنے آئی کہ اس دوران قبائلی علاقوں کے لئے مختص 44 ارب روپے بھی صوبائی حکومت نے ہڑپ کر دیے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ کے پی اور عمران خان بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات دوسروں پر لگا تے گیے۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ محمود خان نہ صرف وزیراعظم شھباز شریف اور دیگر کے بارے میں عمران خان کی طرح نازیبا الفاظ استعمال کیے بلکہ ایک تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ شھباز شریف کی شکل دیکھنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ افغانستان چلے جائیں۔ اس رویے نے پورے ملک بالخصوص جنگ ذدہ پختون خوا میں بے چینی اور کشیدگی کو مذید ہوا دی اور مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان کو مذید کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ عمران خان لانگ مارچ کے مقاصد حاصل کر پائیں گے یا نہیں اس سے قطع نظر افسوسناک امر یہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں تشدد، بدکلامی، بداحتیاطی اور کشیدگی کی جو بنیادیں رکھ دی ہیں اور اداروں کو سیاست میں غیر ضروری طور پر جس طریقے سے استعمال کرنے یا کھینچنے کی کوشش کی اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے اور معاشرے میں اس سے جو بگاڑ پیدا ہوئی ہے اگر وہ خدانخواستہ کسی تصادم یا سانحے میں تبدیل ہوگئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری عمران خان اور ان کی پارٹی پر عائد ہوگی۔