ضلع مہمند۔تینوں تحصیل خویزئی ,صافی اورحلیمزئی کی سنگم پر واقع پہاڑپرآگ لگنے سے تباہی مچ گئی۔سینکڑوں ایکڑپہاڑی گھاس وپودے درجنوں درختوں سیمت بڑی پیمانے پرحشرات جل گئے۔ پرندے اورجنگلی حیات بھی متاثرہوئے۔آٹوخیل وچہ جورہ میں محکمہ جنگلات وائلڈلائف ہلال احمر پولیس اورمیڈیانمائندگان کی سرتوڑ کوشش کے باوجود بھی آگ پرقابونہ پایا جا سکا۔
مذکورہ آگ آٹوخیل وچہ جور صافی آمرہ اورخویزئی مزرینہ کی پہاڑوں میں بھڑک اٹھی۔جس نے چندگھنٹوں کے دوران سینکڑوں مربع پہاڑوں پر گھاس پودے اوردرجنوں درخت متاثرکیئے۔۔۔جبکہ علاقہ امبار میں بھی بڑے پیمانے پرآگ لگنے کی اطلاع موصول ہوئی۔۔وچہ جور پراگ لگنے سے علاقے کی بڑی چراگاہ جل گئی۔۔یادرہے کہ ضلع مہمند میں گزشتہ چندہفتوں سے آگ لگنے کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔جس سے علاقے میں جنگلی حیات کافی حدتک متاثرہوئی۔
خیبرپختونخوا میں 05 سے 09 جون تک گرمی کی لہر برقرار رہنےکا امکان
خیبرپختونخواکےمختلف اضلاع میں 05 سے 09 جون تک گرمی کی لہر برقرار رہنے کا امکان۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ۔صوبے کے بعض حصوں میں شام و رات کے اوقات میں تیز ہواؤں کے چلنے کا امکان ہے۔ پی ڈی ایم اے نے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو مراسلہ جاری کر دیا۔۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ گرمی اور خشک موسمی حالات سے ہیٹ اسٹروک اور آبی ذخائرپر پانی کے دباؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔۔ کسان فصلوں کے لیےپانی کا مناسب انتظام کریں۔ عوام سورج کی روشنی میں باہر نکلتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ہیلتھ/میڈیکل سروسز، پیرا میڈیکس اور ریسکیو ڈیپارٹمنٹ کو الرٹ اور ہیٹ اسٹروک سینٹر کو برقرار رکھنے کی ہدایت کریں۔۔مویشیوں اور پالتو جانوروں کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے۔تمام متعلقہ ادارے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے الرٹ رہیے۔
عوام سفر سے پہلے اپنی گاڑی کے انجن میں پانی اور ٹائروں میں پریشر چیک کریں۔ ۔پی ڈی ایم اے کا ایمرجنسی آپریشن سنٹر مکمل فعال ہے، عوام کسی بھی نا خوشگوار واقعے کی اطلاع ہیلپ لائن 1700 پر دیں۔
شمالی وزیرستان: پولیو آگاہی سیمینار کا انعقاد
شمالی وزیرستان میران شاہ میں پولیو آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔ جسمیں شمالی وزیرستان میں کام کرنے والے تمام فلاحی تنظیموں نے شرکت کی ۔
اجلاس کی صدارت ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان شاہد علی خان نے کی ۔ میٹنگ کا مقصد کامیاب پولیو مہم کے انعقاد کے لیے ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنا تھا ۔
ڈپٹی کمشنر نے شمالی وزیرستان میں موجودہ پولیو وباء کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کی اور ان سے اس لاعلاج بیماری کے خاتمے اور 6 جون سے شروع ہونے والی پولیو مہم کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کی اپیل کی ۔
تمام فلاحی تنظیموں نے عہد کیا کہ وہ اپنے سوشل میڈیا پیجز پر سوشل موبلائزیشن اور پیغام کی ترسیل میں تعاون کریں گے اور علاقے کی سطح پر آگاہی سرگرمیوں میں حصہ لینگے ۔ اخر میں ڈپٹی کمشنر نے تمام فلاحی تنظیموں کا علاقے کی خدمت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔
خیبر پختونخوا میں پولیو کا ایک اورکیس رپورٹ
خیبر پختون خوا میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آگیا۔
خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان سے پولیو کا نیا کیس رپورٹ ہوا۔ 20 ماہ کے بچے میں وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔
ای اوسی کے مطابق متاثرہ بچے کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے گئے۔نیاکیس سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 8ہوگئی۔
حکام کے مطابق تمام متاثرہ 8بچوں کا تعلق خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان تحصیل میر علی اور میران شاہ سے ہے۔
خیبرپختونخوا بندوبستی اضلاع کے سالانہ ترقیاتی فنڈز 22-2021 کی تفصیلات جاری
محکمہ خزانہ خیبرپختونخوا نےرواں مالی سال کے دوران بندوبستی اضلاع میں مختلف شعبوں کے ترقیاتی منصووبوں کےلئے مختص اور خرچ کئے گئے فنڈز کی تفصیلات جاری کردیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بندوبستی اضلاع کے کُل جاری کردہ اے ڈی پی کا 77فیصد حصہ خرچ کیاگیا ہے ۔ 19 محکموں کے ترقیاتی منصوبوں کےلیے 165 ارب روپے مختص کیے گئے تھے ۔
دی گئی معلومات کے مطابق محکمہ خزانہ خیبرپختونخوا نے مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے 19 محکموں کو 156 ارب روپے جاری کیے ۔ جاری کردہ فنڈز میں سے 30 مئی تک 120ارب روپے خرچ کیے گئے ۔ ابتدائی وثانوی تعلیم کےلیے 10ارب 87کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے ۔ محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم اب تک 5 ارب 94کروڑ یعنی 59 فیصد بجٹ خرچ کرسکا۔
اسی طرح شعبہ صحت کے لیے 16ارب 62کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جس میں محکمے نے 12ارب روپے خرچ کرکے 71فیصد ترقیاتی بجٹ استعمال کیا ہے جبکہ لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی بجٹ کےلئے 21ارب 34کروڑ روپے مختص تھے اور بلدیات نے جاری کردہ فنڈز کا 78 فیصد حصہ خرچ کرکے 18ارب 52کروڑ روپے استعمال کئے ہیں ۔
اعداد و شمار کے مطابق شعبہ صنعت کے لیے 1ارب 80کروڑ روپے مختص کیے گیے تھے ۔ صنعت کےلئے جاری 1ارب 73کروڑ میں سے 1ارب61کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ضم شدہ اضلاع میں جاری اے آئی پی اور اے ڈی سکیموں کی تفاصیل اس اعداد و شمار کا حصہ نہیں۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات
عقیل یوسفزئی
ریاست پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان افغان دارالحکومت کابل میں 3 روزہ مذاکرات کا اہتمام کیا گیا جس کے دوران افغانستان کی حکومت نے سہولت کار اور ثالث کا کردار ادا کیا. ابتدائی طور پر اس کاوش کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے سیز فائر میں غیر معینہ مدت تک توسیع کا اعلان کیا جبکہ ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ مذاکرات کے دوران اہم معاملات پر فریقین کے مابین مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور یہ کہ یہ عمل جاری رہے گا. اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان سے آیا ہوا وفد عوامی نمائندوں، علماء اور قبائلی عمائدین پر مشتمل تھا جس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کی گئی. دوسری طرف پاکستان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے جمعہ کے روز ایک بیان میں کہا کہ یہ مذاکرات ایک آئینی طریقہ کار کے مطابق ہورہے ہیں اور اس امن کے تناظر میں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
مذکورہ مذاکراتی عمل کا آغاز سال 2021 کے مئی یا جون کے مہینے میں اس وقت ہوا تھا جب دوحہ مذاکراتی پراسیس ایک حتمی فیز میں داخل ہوگیا تھا اور پاکستان نے افغانستان میں موجود 5000 سے ذائد ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 15 اگست کو جب غیر متوقع طور پر افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا تو پاکستان کا اصرار اور مطالبہ رہا کہ پاکستانی طالبان کے معاملے کا حل نکالا جائے کیونکہ وہ مختلف حملوں میں ملوث تھے اور ان کی خیبر پختون خوا میں سرگرمیوں میں اضافہ ہونے لگا تھا- چونکہ افغان حکومت کو دوسرے مسائل کے علاوہ داعش کے مسلسل حملوں کا بھی سامنا تھا اس لیے اس معاملے پر اس کے باوجود کوئی اہم پیشرفت نہ ہوسکی کہ افغان حکومت کے بعض اہم عہدیداروں کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ اس تاخیر پر افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان کافی تلخی بھی ہوئی اور پاکستان نے سرحد پار دو تین کارروائیاں بھی کیں۔ اسی دوران پشاور کے کور کمانڈر اور ان کی ٹیم نے جہاں قبائلی علاقوں کے امن اور ترقی کے لئے متعدد اہم اقدامات سمیت ایک مشاورتی عمل کا آغاز کیا وہاں اس عمل کے دوران قبائلی عمائدین کی یہ تجویز بھی بار بار آتی رہی کہ مستقل امن کے لئے اگر ان پر اعتماد کیا جائے تو وہ جرگوں کی شکل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس تجویز کا خیرمقدم کیا گیا اور 2022 کے دوران تین بار ان جرگوں کے ذریعے ملاقاتیں کی گئی. اس دوران ٹی ٹی پی پر جہاں افغان حکومت کا دباؤ بڑھتا رہا وہاں پاکستانی فورسز نے بھی متعدد کاروائیوں کے ذریعے ان کے گرد گھیرا مذید تنگ کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان نے خود سے مذاکرات کی بحالی کیلئے رابطے کرکے موجودہ بڑی پیش رفت کا راستہ ہموار کیا۔
ریاستی اداروں نے اب کی بار 53 متعلقہ مشران، مختلف علاقوں اور پارٹیوں کے نمائندوں اور بعض حکومتی عہدیداروں پر مشتمل ایک نمائندہ وفد کابل بھیج دیا جس نے افغانستان کی حکومت کی نگرانی اور سرپرستی میں ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مختلف شرائط اور دو طرفہ مطالبات، تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور یوں نہ صرف غیر معینہ مدت تک سیز فائر کا اعلان ہوا بلکہ اس بات پر بھی اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ فریقین اس سیشن یا پراسیس پر مشاورت کرکے ایک مجوزہ امن معاہدے کا راستہ نکالیں گے۔
اگر چہ بعض حلقے بوجوہ اس عمل پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر امریکہ اور نیٹو جیسی طاقتیں افغان طالبان سے مذاکرات اور معاہدہ کرسکتی ہیں تو پاکستان اپنے قومی مفاد میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ دوسرا اہم نکتہ اس والے مذاکراتی عمل میں یہ ہے کہ اس میں دو مزید فریقین یعنی افغان حکومت اور قبائلی مشران کو بنیادی کردار دیا گیا ہے اور یہ لوگ نہ صرف رابطہ کاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں بلکہ مجوزہ معاہدے کے بعد گارنٹرز بھی بنیں گے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اس لئے اب کی بار صورتحال مختلف ہے۔ اس ضمن میں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ اب طالبان وغیرہ کے پاس امریکی مداخلت یا قبضے پر مبنی بیانیہ بھی نہیں رہا اور ان کے پاس مزاحمت کی وجہ نہیں رہی۔ ایسے میں توقع کی جا رہی ہے کہ یہ عمل کامیابی سے ہمکنار ہوگا تاہم اس ضمن میں متعلقہ ریاستی اداروں کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ قومی قیادت کو مناسب وقت پر اعتماد میں لیا جائے جس کا یقیناً ان اداروں کو ادراک اور احساس ہوگا۔