پاکستان آج فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے لیئے پراُمید

پاکستان پراُمید ہے کہ آج وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( فیٹف) گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( فیٹف)، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے ایک عالمی نگران ادارہ ہے، آج (جمعہ) کو اعلان کرے گا کہ آیا پاکستان کو اس کی فہرست سے نکالا جائے گا یا اسے برقرار رکھا جائے گا، جسے “گرے لسٹ” بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن حکومت کو امید ہے کہ نتیجہ ملک کے حق میں نکلے گا۔

چار روزہ اجلاس منگل کو جرمنی کے شہر برلن میں شروع ہوا۔ واچ ڈاگ کی ویب سائٹ کے مطابق، حکام آج شام 7:30 بجے ایک پریس کانفرنس کریں گے تاکہ سیشن کے نتائج کا  اعلان کیا جا سکے۔

ایف اے ٹی ایف کے 206 ارکان اور مبصرین کی نمائندگی کرنے والے مندوبین اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ مبصرین میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، اور ایگمونٹ گروپ آف فنانشل انٹیلی جنس یونٹس شامل ہیں۔

اگر ملک کو فہرست سے نکال دیا جائے تو بھی معاملات طے کرنے میں سات سے آٹھ ماہ لگ جائیں گے۔ اگر پاکستان فہرست سے باہر نکلتا ہے تو ایف اے ٹی ایف کی ٹیم ملک کا دورہ کرے گی تاکہ وہ خود کو مطمئن کرے کہ اس کی سفارشات پر کام مکمل ہو چکا ہے۔

خیبرپختونخوا اور پنجاب کےمختلف شہروں میں زلزلہ

جمعے کی سہ پہر اسلام آباد اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات نے کہا کہ زلزلہ، جس کی شدت 5.2 تھی، دوپہر 2 بج کر 22 منٹ پر آیا۔ محکمہ موسمیات نے بتایا کہ اس کا مرکز افغانستان-تاجکستان کے سرحدی علاقے میں تھا اور اس کی گہرائی 220 کلومیٹر تھی۔

راولپنڈی، مری، پشاور، راولپنڈی، چارسدہ، ایبٹ آباد، دیامر، فیصل آباد، ملتان، مانسہرہ، بالاکوٹ اور چلاس میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

سابق صوبائی وزیر بخت بیدار خان انتقال کرگئے

لوئر دیر: سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کے ڈویژنل صدر قلیل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ بخت بیدار خان عارضہ مبتلا تھے اور دو دنوں سے پشاور کے نجی ہسپتال میں داخل تھے۔مرحوم بخت بیدار خان نے 1988 میں عملی سیاست کا آغاز کیا تھا۔وہ 1993 میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

 بخت بیدار خان دو بار صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔ بخت بیدار خان دو دفعہ صوبائی وزیر بھی رہے۔بخت بیدار خان اس وقت پیپلز پارٹی لوئر ملاکنڈ ڈویژن کے صدر تھے۔ مرحوم بخٹ بیدار خان کہنہ مشق اور سینئر سیاستدان تھےطالبانائزیشن کے دور میں وہ آدینزئی قومی جرگہ کے چیئرمین بھی رہے تھے اور بالخصوص آدینزئی کی ترقی میں ان کا کلیدی کردار تھا۔

مرحوم کی نماز جنازہ آبائی گاؤں ترناو آدینزئی میں شام ساڑھے چھ بجے ادا کی جائے گی۔ مرحوم بخت بیدار خان نے 64 سال کی عمر میں وفات پائی۔

پاکستانی افواج ہر خطرے سے نمٹنے کےلیے تیار ہیں: سربراہ پاک فضائیہ

چیف آف دی ایئراسٹاف ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے کہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی خطرے سے نمٹنے کےلیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ جنگی ٹیکنالوجی میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیشِ نظر دفاعی پیداوار میں خود انحصاری ناگزیر ہے۔

ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابرسدھونے پاکستان نیوی وار کالج لاہور کا دورہ کیا۔ کمانڈنٹ وار کالج ریئر ایڈمرل شفاعت علی خان نے چیف آف دی ایئر اسٹاف کا استقبال کیا۔ ایئرچیف نے یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے51 ویں نیول اسٹاف کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی بحری سرحدوں اور مفادات کی حفاظت کے لیے پاک بحریہ کا کردار قابل تحسین ہے۔

امن کی بحالی

تحریر: عمادخان
کسی بھی ملک وقوم کی تعمیروترقی کیلئے بنیادی چیز امن وامان کا قیام ہے جب معاشرے میں امن وامان کی فضاء قائم ہو تووہاں پرلوگ خوشحال زندگی بسرکرسکتے ہیں امن کاقیام اس معاشرے میں ممکن ہے جہاں پرتمام معاملات بغیرکسی اخلاقی، سماجی اورمعاشی تشدد چل رہے ہوں۔ امن انسانی معاشرے کیلئے ایسی ضروری ہے جیسی جاندارشے کوغذااورہوا۔ کسی بھی قوم کی تعلیمی،مذہبی،تہذیبی اورسائنسی ترقی کیلئے ماحول میں امن کاہوناانتہائی ضروری امرہے کیونکہ جس معاشرے میں انسان خوف، دہشت اور ظلم وستم کے سائے میں زندگی گزارتے ہیں وہاں کے لوگ ذہنی،جسمانی اوراخلاقی طورپرتنزلی کے شکارہوتے ہیں کیونکہ بدامنی اوردہشتگردی کی فضاء میں انسان حالات کودیکھتے ہوئے رنجیدہ اورفکرمندی میں مبتلارہتاہے۔
ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں بدامنی پھیلانے سے روکا ہے اسلام بدامنی کوپسند نہیں کرتااس لئے انسان کے قتل کوانسانیت کا قتل قراردیاگیاہے ہمارے خطے میں بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے ہمسائیہ ملک افغانستان میں عالمی طاقتوں کی مداخلت سے حالات خراب ہیں افغانستان تباہ ہوگیاجس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ ہمسائیہ ممالک چین،ایران اوربھارت پربھی پڑیں اورعدم واستحکام یقینی طورپرمتاثرہوا۔ افغانستان بارڈر کے قریب پاکستان کے قبائلی اضلاع بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آئیں خراب حالات کی وجہ سے لاکھوں قبائلی عوام نے نقل مکانی کی اور متاثرین قرار پا کر اورکیمپوں میں زندگی گزارنے پرمجبورہوئے حکومت نے فاٹا میں دہشتگردی کوجڑسے ختم کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی آپریشن کافیصلہ کیا جس کے بعد سیکوررٹی فورسزنے قبائلی علاقہ جات میں شرپسندعناصرکیخلاف بھرپور فوجی آپریشنز کئے جس میں ہزاروں کی تعدادمیں دہشتگردوں کومار دیا اور بڑی تعداد میں گرفتاربھی کئے گئے اس جنگ میں سیکورٹی فورسز اورعوام نے بڑی قربانیاں دیں۔ فاٹاکے عوام قیام امن کیلئے سیکورٹی فورسزکیساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے حکومت نے بھی فاٹاکے عوام کی احساس محرمیوں کاازالہ کرنے کیلئے اسے خیبرپختونخوامیں ضم کرنے کا بل اسمبلی سے پاس کرایا تاکہ باقی پاکستانیوں کی طرح فاٹاکے عوام بھی آئینی دائرے میں آجائے اورانہیں وہ مقام ملے جو پاکستان کے دیگر عوام کو ملا ہوا ہے۔
قیام امن کی بحالی میں تعلیم کا کردارانتہائی اہمیت کاحامل ہے تعلیم کی بدولت انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کوشکست دیاجاسکتاہے معاشرے میں امن کی راہ میں خلل ڈالنے والے عناصر کو ناکام بنانے کا واحد راستہ علم وادب کاہے نوجوان نسل کوفرقہ ورانہ،شدت پسندی اورنفرت انگیزسرگرمیوں سے بچنے کیلئے شہرمیں جگہ جگہ پبلک لائبریوں کاقیام وقت کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ جسمانی سرگرمیوں کیلئے کھیل کودکے مواقع پیداکرنابہت مفید ہیں معاشرے میں پرُامن اورخوشحال زندگی بسرکرنے کیلئے انسان کاذہنی اورجسمانی طور پر تندرست ہوناانتہائی ضروری ہے۔
شہریوں کوامن وامان کا بہتر ماحول فراہم کرنے کیلئے قانون نافذکرنیوالے اداروں کا بھی اہم کردارہے جس کی بدولت آج ان علاقوں میں دوبارہ امن کی فضاء لوٹ آئی ہے جہاں پرعوام خوف کی زندگی گزاررہے تھے جن علاقوں میں دہشتگروں نے ٹھکانے بنائے تھے سیکورٹی فورسز نے ان کیخلاف بھرپور آپریشن کرکے جڑسے اکھاڑدیئے عوام کی جان ومال کی تحفظ کیلئے سیکورٹی فورسزنے نہ صرف شرپسند عناصر کا خاتمہ کیابلکہ ہزاروں کی تعدادمیں فوجی افسروں اور جوانوں نے جان کی قربانیاں دی ہے۔
امن کی بحالی میں میڈیا نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی ہے اس جدیددورمیں میڈیاکی اہمیت سے انکارنہیں کیا جاسکتا پہلے زمانے میں لوگوں کوصرف پرنٹ میڈیا(اخبارات) اور ریڈیوکے ذریعے معلومات دی جاتی تھی تاہم اب الیکٹرانک، ڈیجیٹل اورسوشل میڈیا نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیاکے لوگوں کوایک دوسرے کیساتھ قریب کردیاہے سوشل میڈیاکے پلیٹ فارم مثلا فیس بک، ٹوئیٹر، لنکڈاِن،انسٹاگرام کے علاوہ دیگراپلیکیشن کے ذریعے ہم اپنے پیغام سیکنڈز میں ہزاروں صارفین کیساتھ شیئرکرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی بدولت ہم مختلف مسائل،جنگوں اور اختلافات کو بھی دور کرسکتے ہیں۔ بین الاقومی سطح پرسوشل میڈیااب ایک مضبوط ہتھیاربن چکا ہے جس پر لوگ اپنی رائے کو با آسانی دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔

عمران خان سازش کی تھیوری پر کیوں بضد؟

عمران خان سازش کی تھیوری پر کیوں بضد؟

 عقیل یوسفزئی

سیاسی حکومت، معتبر صحافیوں اور امریکی حکومت کی مسلسل وضاحتوں سمیت پاک فوج کے ترجمان کے واضح موقف کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے حامی کسی ثبوت کے بغیر اب بھی اس بات پر قائم ہیں کہ ان کے خلاف امریکی سازش کی گئی ہے اور یہ کہ عدم اعتماد کا ایک جمہوری عمل ان کے بقول ایک سازش ہی تھی۔

اس ضمن میں موصوف کے پاس ان چند سوالات کا جواب ہونا چاہیے۔ اگر وہ یہ جوابات نہیں دے سکتے یا نہیں دے پارہے تو مہربانی کرکے غلط بیانی کا مسلسل سلسلہ ختم کرکے قوم اور اپنے کارکنوں کے علاوہ اہم ریاستی اداروں کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے سے باز آجائیں۔

1: اگر ان کی حکومت کو 7 تاریخ کو اس مبہم اور خود ساختہ سازش کا پتہ چل گیا تھا تو وہ 27 تاریخ تک خاموش کیوں بیٹھے رہے؟

2: اگر یہ بیانیہ واقعی درست ہے کہ سیکرٹری خارجہ نے وزیر خارجہ سے مراسلہ سمیت دوسری تفصیلات چھپائے رکھیں تو عمران خان اور ان کے وزیر خارجہ نے اس پر ایکشن کیوں نہیں لیا؟

3:اسد مجید کو وضاحت یا متعلقہ اداروں کو تفصیلات شئیر کرنے کے لیے کیوں نہیں بلایا گیا؟

4:عمران خان نے جنرل طارق خان کی معذرت کے بعد جوڈیشل کمیشن کیوں قائم نہیں کیا اور خاموشی کیوں اختیار کی؟

5:قومی سلامتی کمیٹی کے متعلقہ اجلاس میں مبینہ سازش کا  ثبوت کیوں پیش نہیں کیا؟

6:موجودہ حکومت اور عسکری اداروں نے جب دوبارہ ایک تحقیقاتی کمیشن کی پیشکش کی تو عمران خان نے اس کی حامی کیوں نہیں بھری؟

سچی بات تو یہ ہے کہ موصوف ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اقتدار سے محرومی کے بعد نہ صرف شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم جوئی پر عمل پیرا ہیں بلکہ وہ بوجوہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بھی عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش میں ہیں کہ جس سازش کا سرے سے کوئی وجود نہیں اس میں ان کے بقول عسکری قیادت بھی ملوث ہے۔

کل پرسوں انہوں نے فوج کے ترجمان کی ایک بریفنگ پر تضادات پر مبنی جو غیر ضروری موقف اختیار کیا اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مستقبل سے مایوس ہو گئے ہیں بلکہ وہ اہم اداروں کو مشکوک بناکر ان پر پریشر ڈالنے کی ناکام کوشش سے بھی باز نہیں آ رہے چاہے اس کے بدلے ان کی پوری سیاست اور کیریئر ہی داو پر لگ جائے۔

زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ عوام کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں قومی سلامتی کے اداروں کی پشت پر کھڑی ہیں اور عمران خان کا نہ صرف سازش کا بیانیہ دم توڑ چکا ہے بلکہ ان کی مقبولیت میں بے پناہ کمی واقع ہوگئی ہے جس کا اب ان کو ادراک ہونا چاہیے۔

Tourism Opportunities and Tourism Promotion in Merged Districts of KP

Aima Afzaal
Northern areas of Pakistan are backbone of tourism industry in Pakistan. When we say, visit to Northern areas of Pakistan, the words click our minds include Kashmir, Naran and Gilgit Baltistan. Unfortunately, most of us don’t know the tourist sites in tribal areas of Pakistan neither we plan tour there nor any organization conduct their wilderness activities at Majestic tribal areas of Pakistan.
North Waziristan Khyber PakhtunkhwaDue to the tireless efforts of Pak security forces and locals, the peace prevails in the region thoroughly which results into turning the title of Pakistan from terrorism to tourism in previous years. Security forces of Pakistan achieve this success through the price of their blood which eventually make this place the true piece of heaven both on demographic and geographical grounds. They not only take part in curbing the terrorist activities but also provide the basic facilities of roads, institutes, infrastructure and telecommunication services to the local communities.
Khyber Pakhtunkhwa (KP) government already allocated budget for the revival of tourism in Merged areas and focusing on betterment of new tourist attractions and facilitations. There is no doubt that this rise of tourism activities will also bring employment opportunities to locals including hotels, transportation and traditional food.
The tourists should respect the culture and norms of tribal areas. For this purpose, we should discuss the term ” Tribal Tourism ” which include breathtaking sight seeing of Orakzai agency, Bajaur agency, Khurram agency, Razmak and the famous Khyber Pass. These areas are filled with natural beauty, lush green jungles, hiking trials and mighty mountains with numerous lakes and archaeological sites.
tourism in Khyber PakhtunkhwaInitiative to show beauty of the tribal areas to the world will bring business opportunities and financial stability to the region. We have example of Kumrat valley. Earlier only locals know about the valley but after exploration and development, Kumrat valley is catching the tourist as equal to Naran Kaghan Valley due to their wilderness environment and pleasant surroundings. The same scenario will be applicable to tribal areas exploration and their marketing as it will be of low cost to the traveller and more exploring the nature.
Let’s plan next tourism destination to promote the ” Tribal Tourism ”.