teachran

KP CM announces regularisation of 58,000 ad hoc teachers

PESHAWAR: Khyber Pakhtunkhwa Chief Minister Mahmood Khan has announced to regularise all the ad hoc teachers from the date of their appointment.

He made the decision while talking to a delegation of the young teachers association, which called on him here on Tuesday.

The chief minister said seniority of all the regularised teachers would remain intact from the same date, whereas annual increments of employees would be absorbed in their basic pay.

The chief minister said he had signed the summary for regularisation of teachers and a draft bill to this effect would be submitted to the provincial assembly after approval from the provincial cabinet.

Mahmood Khan said protest of ad hoc teachers was unjustified since the provincial government had already announced in the budget to regularise them.

He said the education sector was the top priority of his government as multiple reforms had been taken, including merit-based recruitment of thousands of new teachers, to raise standard of education.

He said 63,000 ad hoc employees, including 58,000 teachers, would be regularised.  _APP

افغانستان زلزلہ زدگان کے لئے خیبر پختون خوا حکومت کے اقدامات

پشاور: افغانستان زلزلہ زدگان کے لئے خیبر پختون خوا حکومت نے طبی سامان اور امدادی ٹیمیں سٹینڈ بائے کر دی ہیں۔صوبائی حکومت کے معاون خصوصی بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ جیسے ہی افغان حکام اجازت دیں تو امدادی ٹیمیں اور طبی سامان روانہ کیا جائے گا۔

ساوتھ وزیرستان میں 2 جدید سٹیٹ آف دی ارٹ ہسپتال شولم اور توئی خولہ میں افغان زلزلہ زدگان کو طبی امداد دینے کے لئے بیڈز مختص کئے گئے ہیں۔ دونوں ہسپتالوں میں جنرل اور آرتھوپیڈک سرجنز سمیت طبی عملہ تعینات ہے۔ ضرورت پڑنے پر مزید سٹاف بھی فراہم کیا جائیگا۔

 نارتھ وزیرستان میں ہر قسم سہولیات سے مزین ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں بھی بیڈز مختص کئے جائینگے۔ نارتھ وزیرستان ہسپتال میں پہلے سے سپیشلسٹ آرتھوپیڈک اور جنرل سرجینز تعینات ہے ضرورت پڑنے پر مزید سرجنز بھی تعینات کر سکتے ہیں۔  بیریسٹر سیف نے کہا کہ ٹرشری ہسپتالوں میں بھی افغان بھائیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں گیخیبر پختون خوا حکومت افغان زلزلہ زدگان کیساتھ دکھ کی اس گھڑی میں برابر شریک ہے۔
افغان بھائی دکھ کی اس گھڑی میں اپنے آپکو اکیلا نہ سمجھیں۔ زلزلہ زدگان کو ہر قسم طبی سہولیات فراہم کی جائیگی۔خیبر پختون خوا حکومت اس سلسلے میں افغان حکام کیساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ہدایت پر افغان بھائیوں کی ہر قسم مدد کی جائیگی۔  طبی امداد کے علاوہ اشیاء خوردنوش اور دیگر اشیاء بھی بھیجی جائیگی۔

baraaa

خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ جاری

پشاور: خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ جاری۔
آئندہ چند گھنٹوں کے دوران صوبے کے میدانی اور بالائی علاقوں سمیت جنوبی اضلاع میں مزید بارش کا امکان ہے۔
آج سہ پہر کے بعدبارشوں کا موجودہ سلسلہ روک جانے کا امکان ہے ۔سب سے زیادہ بارش خیبر وادی تیراہ میں 59 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ۔
پشاور میں 57 ، باجوڑ میں 46 ، چراٹ میں 43 ، تخت بھائی میں 42 ملی میٹر بارش ہوئی ۔تیمرگرہ میں 40 ، مالم جبہ 29 ، دیر میں 30 ، پٹن میں 28 ،میر کھنی میں 13اورکالام میں13 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
پشاورمیں کم سے کم درجہ حرارت 21 اور زیادہ سے زیادہ 25 سنٹی گریڈ ریکارڈ کی گئی۔ پشاورمیں ہوا میں نمی کا تناسب 95 فیصد ہے ۔
بارشوں کا موجودہ سلسلہ روکنے کے بعد آئندہ چند روز تک موسم خشک رہے گا ۔حالیہ بارشوں کے بعد صوبے کے گرم اور مرطوب علاقوں میں درجہ حرارت گر گیا ہے۔

افغانستان میں زلزلے سے 950 افراد جاں بحق

بدھ کی صبح افغانستان میں 6.1 کی شدت کے زلزلے سے کم از کم 920 افراد جانبحق ہوئے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حکام نے بتایا کہ 600 سے زیادہ
زخمی ہوئے ہیں اور دور دراز پہاڑی دیہاتوں سے معلومات ملنے کے بعد ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
قبل ازیں ڈپٹی وزیر برائے ڈیزاسٹر منیجمنٹ نے پریس کانفرنس کے دوران 950 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی تھی۔

وزارت داخلہ کے عہدیدار صلاح الدین ایوبی کا کہنا ہے کہ اموات میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ کچھ گاؤں دور دراز پہاڑی علاقوں میں ہیں اور معلومات اکٹھی کرنے میں وقت لگے گا۔ افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے امدادی کارروائیوں کے لیے ٹیمیں روانہ کردی گئی ہیں۔

صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ حکام نے ریسکیو آپریشن شروع کردیا ہے اور زخمیوں تک رسائی اور انہیں طبی سامان اور خوراک کی فراہمی کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایوبی نے مزید کہا کہ زیادہ تر تصدیق شدہ اموات مشرقی صوبے پکتیکا میں ہوئیں، جہاں 255 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ صوبہ خوست میں 25 ہلاک اور 90 کو ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

tarbela

دریائوں اور آبی ذخیروں میں پانی کی صورتحال

تربیلا میں پانی کی آمد 88 ہزار 500 کیوسک اور اخراج ایک لاکھ ایک ہزار 900 کیوسک ہے. ترجمان واپڈا کے مطابق منگلا میں پانی کی آمد 31 ہزار کیوسک اور اخراج 29 ہزار 200 کیوسک ہے۔

چشمہ میں پانی کی آمد ایک لاکھ 60 ہزار 900 کیوسک اور اخراج 1 لاکھ 49 ہزار کیوسک ہے۔ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کی آمد 27 ہزارکیوسک اور اخراج 17 ہزار 200 کیوسک ہے۔

نوشہرہ کے مقام پر دریائے کابل میں پانی کی آمد 27 ہزار 800 کیوسک اور اخراج 27 ہزار800 کیوسک ہے۔منگلا میں آج پانی کا ذخیرہ 1 لاکھ 37 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔چشمہ میں آج پانی کا ذخیرہ 27 ہزار ایکٹرفٹ ہے جبکہ  تربیلا ، منگلا اور چشمہ ریزوائر میں پانی کا مجموعی ذخیرہ 1 لاکھ 64 ہزار ایکڑ فٹ ہے، ترجمان واپڈا۔

e239e3cf-25c2-4bf4-b12b-bb76be36ca35

پختونخوا حکومت کی شکایات

پختونخوا حکومت کی شکایات

عقیل یوسفزئی

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت مسلسل الزامات لگاتی آرہی ہےکہ وفاقی حکومت صوبے کے ساتھ اقتصادی معاملات میں ذیادتی کررہی ہے اور یہ کہ صوبے کو اسکے وہ اربوں روپے ادا نہیں کررہی جو کہ قبائلی علاقوں کے لیے وفاق نے دینے ہیں۔ ساتھ میں بجلی کے خالص آمدن اور گیس، تیل کی رائلٹی کی مد میں بھی رقوم کی ادائیگی نہ ہونے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔

وزیر اعلیٰ، وزیر خزانہ اور مشیر اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت نے قبائلی علاقوں کے لئے مختص تقریباً اربوں روپے روک رکھے ہیں جس سے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ اگر صوبائی حکومت کا موقف واقعی درست ہے تو اس مسئلے اور رویے کا وزیر اعظم شھباز شریف اور دوسرے اتحادیوں کو نہ صرف فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے بلکہ وضاحت بھی پیش کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے. قبائلی علاقوں کے متعدد اہم عوامی نمائندے پہلے ہی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ اس سے قبل کے پی حکومت نے تقریباً 40 ارب روپے ضم اضلاع کی بجائے صوبے کے بندوبستی علاقوں میں خرچ کیے ہیں۔ اب اگر وفاقی حکومت ایسا ہی رویہ اختیار کرتی ہے تو یہ بہت ذیادتی والی بات ہوگی کیونکہ سات قبائلی اضلاع پہلے ہی سے بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہیں اور انضمام کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ان شورش زدہ علاقوں کی مین سٹریمینگ کرکے ان کی ترقی کو ممکن بنایا جائے۔ یہ علاقے دہشتگردی کا شکار رہے ہیں اور اب بھی مجموعی صورتحال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔

امن و امان کے علاوہ ترقیاتی عمل اور متعدد وہ ذمہ داریاں بھی پاک فوج نبھاتی آرہی ہے جو کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فرائض میں شامل ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ دونوں حکومتوں نے عملاً قبائلی علاقوں سے لاتعلقی اختیار کی ہے۔ ایسے میں اگر ان علاقوں کے فنڈز جاری نہیں کئے جاتے یا وفاقی حکومت صوبے کے جائز حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتی تو اس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا کیونکہ قبائلی علاقوں کے امن اور استحکام سے پورے ملک بلکہ خطے کا امن اور استحکام جڑا ہوا ہے۔ ماضی میں ہونے والی ذیادتی کا ازالہ کرنا پاکستان کی سلامتی اور استحکام کیلئے لازمی ہے۔ اسی طرح صوبے کے جنوبی اضلاع کی ترقی پر بھی خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان علاقوں کو بھی اس کے باوجود پسماندہ رکھا گیا ہے کہ یہاں قدرتی وسائل کے اتنے ذرائع موجود ہیں کہ اگر ان کو بروئے کار لا یا جائے تو ملک کے توانائی کے آدھے مسائل حل ہوجائیں۔

یہ بات بھی حل طلب ہے کہ 5000 میگاواٹ کی سستی بجلی پیدا کرنے والے صوبے کو چند مہینوں سے بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے جبکہ بجلی کی رائلٹی کی مد میں بھی وفاقی حکومت مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتی آرہی ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ عمران خان کے اپنے دور حکومت میں بھی پختون خوا کو اس کے جائز حقوق نہیں ملے۔ موجودہ حکومت کو تو ابھی اقتدار سنبھالے چند ہی مہینے ہوگئے ہیں اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بہت سے معاملات صوبے کی ڈومین میں آتے ہیں اس لیے لازمی ہے کہ صوبائی حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر وفاقی حکومت پر الزامات لگانے کا سلسلہ ختم کرے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا محمود خان حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کیونکہ صوبے کے زیادہ تر اقتصادی معاملات کا انحصار اب بھی وفاقی حکومت کے فنڈز پر ہے اور دونوں حکومتوں کی محاذ آرائی کی قیمت صوبے کے عوام کو ادا کرنی پڑے گی۔ یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ 2010 کے بعد نئے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء نہیں ہوا ہے۔ اس معاملے پر بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا تاکہ صوبے کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔