94da0fd9-85c7-4942-b7d6-0563e188cead

پشاور میں منعقدہ نیزہ بازی کے مقابلوں میں خیبرپختونخوا کی جیت

پشاور: محکمہ کھیل خیبرپختونخوا کے زیراہتمام پشاورکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیزہ بازی مقابلوں کا شاندار انعقاد کیاگیا جس کے انفرادی مقابلوں میں ایبٹ آباد کے جدون خان جبکہ سیکشن کے مقابلوں میں خان وجاہت خان کے سربراہی میں الکبیر اعوان کلب بنوں نے پہلی پوزیشن حاصل کرلی.اس موقع پر مہمان خصوصی ڈائریکٹرجنرل سپورٹس خالد خان تھے۔نیزہ بازی کے مقابلوں میں اٹک ، فتح جنگ ، فیصل آباد، ملتان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے نیزہ بازوں نے حصہ لیا. جس کو دیکھنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں پشاور سمیت مختلف اضلاع سے شائقین موجود تھیں ۔ ،پشاور کے نواحی علاقے سربند میں مصنوعی روشنی میں منعقدہ ایونٹ کے انفرادی مقابلوں میں ایبٹ آباد کے خان جدون خان نے پہلی،کرک کے نعمت اللہ خان نے دوسری جبکہ تیسری پوزیشن اظہر نواز خان نے اپنے نام کرلی اسی طرح سیکشن کے مقابلوں میں خان وجاہت خان کے سربراہی میں الکبیر اعوان کلب بنوں نے پہلی پوزیشن حاصل کرلی،دوسری پوزیشن بابا شانگلہ کلب کے حصے میں رہی جبکہ تیسری پوزیشن ابدالین حارث حسین کلب نے حاصل کرلی ۔،صوبائی محکمہ کھیل کے زیر اہتمام صوبے کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی غرض سے ثقافتی گیمز کے نام سے مقابلوں کا سلسلہ شروع کیا گیاہے جس میں ہر ضلع کی مناسبت سے وہاں پر کھیلی جانے والی روایتی کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

اسی سلسلے میں گزشتہ روز پشاور میں نیزہ بازی کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا جیسے دیکھنے کے لئے پشاور سمیت دوسرے اضلاع سے کثیر تعداد میں شائقین آئے ہوئے تھے اور مقابلوں سے خوب محضوظ ہوئے تماشائیوں میں بوڑے ،بچے جوان شامل تھے جنہوں نے گھوڑ سواروں کو دل کھول کا داد دی اور ہر نیزہ باز کو اپنے ہدف حاصل کرنے پر کھڑے ہوکر حوصلہ افزائی دی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخوا خالد خان نے کہا کہ روایتی گیمز ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور ہماری کوشش ہے کہ اپنی روایتی گیمز کے فروغ کے لئے ٹھوس اقدامات کرے اور مستقبل میں بھی اسطرح ایونٹس منعقد کریں،ان کا کہنا تھا کہ صوبے کی زیادہ تر اضلاع میں ثقافتی گیمز کا انعقاد کیا گیا ہے اور جو اضلاع باقی ہے ان میں بھی مقابلیں منعقد ہوں گے تاکہ صوبے کی تمام اضلاع میں ان کی روایتی کھیل زندہ رہے اور مقامی کھلاڑی اپنی مہارت کا مظاہرہ کریں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ باصلاحیت کھلاڑیوں کیساتھ محکمہ کھیل کا تعاون ہمیشہ جاری رہے گا۔چونکہ یہ گیمز پہلی با پشاور کے مضافاتی علاقہ سربند میں منعقد ہوئے اس وجہ سے ایونٹ شروع ہونے قبل ہی کثیر تعداد میں لوگ گرائونڈ پہنچ کر گھوڑ سواروں کا انتظار کرتے رہے ،اس موقع پر ایونٹ میں شریک نیزہ بازوں نے ایونٹ کے بہترین انعقاد اور لوگوں کے جوش وخروش کو سراہا اور اس اعظم کا اعادہ کیا مسقبل بھی صوبائی حکومت اس قسم کے ایونٹ کا اہتمام کرے گی

Colonel Sher Khan

کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کی داستان

برف پوش پہاڑ، موسم ایسا کہ سانس بھی جم جائے لیکن جذبہ اور حوصلہ ایسا کہ چٹان بھی جُھک جائے۔ دُنیا کے بُلند ترین محازِ جنگ کارگل پر دشمن پر دھاک بٹھانے اور اُس کے مزموم عزائم ناکام بنا کر کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے یہ ثابت کر دیا کہ بہادر مشکلات میں گھبرایا نہیں کرتا۔
Colonel Sher Khanیہ ایسے بہادر سپوت کی داستان ہے جس نے جان تو دے دی لیکن وطن کی حُرمت پر آنچ نہ آنے دی۔ نہ اپنا سر جھکایا اور نہ ہی قوم کا سر جُھکنے دیا۔ یہی وہ بہادر ہیں جن کی ہمت، جرات، وطن سے محبت اور بہادری کا بر ملا اعتراف دُشمن نے بھی کیا۔ جنہوں نے اپنے خون سے وطن کا دفاع کیا۔بھروقت قوتِ فیصلہ، بھرپور جوابی وار اور اللہ پر ایمان نے کیپٹن کرنل شیر خان کو یہ اعزاز بخشا کہ دُشمن کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روک دیا بلکہ واپس لوٹنے پر بھی مجبور کر دیا۔
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی
تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔ جب جب جرأت اور دلیری کا ذکر آئے گا، کیپٹن کرنل شیر خان ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔کیپٹن کرنل شیر خان1970میں صوابی میں پیدا ہوئے۔ صوابی کے اس جوان نے 1992ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں شمولیت اختیار کی۔1994میں پاک فوج کی27 سندھ رجمنٹ جو کہ ان کی بہادری کی وجہ سے شیرِ حیدری کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور 1999میں کارگل کے محاذ پر12این ایل آئی جو کہ ان کی جرات کی وجہ سے حیدران پلٹن جانی جاتی ہے، کا حصہ تھے۔ کیپٹن کرنل شیر خان شروع ہی سے مہم جو اور انتہائی نڈر آفیسر تھے۔
8نومبر1992ء کو کرنل شیر پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے حصول کیلئے پہنچے۔ ٹریننگ کے تلخ اوقات سے وہ پہلے ہی واقف تھے مگر یہاں کے شب و روز کچھ زیادہ ہی کٹھن اور حوصلہ آزما ہیں۔
کرنل شیر کو ”عبیدہ“ کمپنی میں بھیجا گیا۔ وہ اپنے ساتھیوں میں بُلند ہمت، مستقل مزاج اور زندہ دل مشہور تھے۔ ڈرل، پی ٹی ہر جگہ ان کی مستعدی کی تعریف کی جاتی۔ کرنل شیر خان ہتھیاروں، فیلڈ کرافٹ اور جنگی مہارت میں پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتے تھے۔ ایمان کی مضبوطی کا ثبوت یہ ہے کہ کرنل شیر کاکول کے یخ بستہ موسم میں، مشکل ترین اوقات میں بھی نفلی روزے رکھتے۔
کیپٹن احمد وحید (بارہ این ایل آئی) بتاتے ہیں کہ:
کرنل شیر نے سب جونئیر کو جمع کر کے ایک لیکچر دیا کہ میں آپ لوگوں کو صرف ایک دفعہ بلاؤں گا۔ وہ بلاوا، فجر کی نماز کے لیے ہو گا۔ لہذا نماز کے وقت سب کیڈٹ باہر جمع ہو جاتے اور کرنل شیر انہیں ساتھ لے کر مسجد کی طرف چلے جاتے اور ان کی شخصیت کا تاثر کچھ ایسا تھا کہ کسی لڑکے کو حکم عدولی یا بے ضابطگی کی جرأت نہ ہوتی۔ آج بھی ان کا مسکراہٹ بھرا چہرہ ہماری یادوں کا حصہ ہے۔
لیفٹیننٹ ظہیر اعظم، کرنل شیر سے جونئیر تھے اور ان کا تعلق93لانگ کورس سے تھا۔ اپنی یادوں کے دریچے وا کرتے اور محافظ پاکستان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ:
”مجھے کرنل شیر کے ہمراہ اکیڈمی اور27سندھ رجمنٹ میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ کرنل شیر کے تعلیمی نتائج بہت اچھے تھے۔ ان کی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرنل شیر کو ایک اعزازی عہدہ دے دیا گیا۔
کرنل شیر کو ابتداء ہی سے ہتھیاروں سے بہت پیار تھا۔ وہ ایک ممتاز فائرر، نشانے باز بھی تھے۔ آپ پی ایم اے کی شوٹنگ ٹیم کا مستقل حصہ رہے۔ وہ سخت جان تھے اور اپنے قوت بازو پر مکمل بھروسہ تھا۔ پی ایم اے کے ہر شوٹنگ مقابلے کا حصہ رہے۔ انہیں بہت سے اعزازات سے بھی نواز گیا۔ پی ایم اے کے اسالٹ کورس میں کرنل شیر نے اپنے سینئرز اور ساتھیوں کو بہت متاثر کیا۔ ان کا ہتھیار تھامنے کا انداز، مشقوں میں جسمانی چستی اور ہمت و حوصلہ کما ل تھا۔ انہیں اس پر ہمیشہ تعریف اور تحسین ملی۔
کرنل شیر کی خواہش تھی کہ انہیں انفنٹری میں بھیجا جائے۔ انہوں نے اپنی منتخب کی ہوئی برانچ میں دلچسپی کے بارے میں سب کو بتایا تھا کہ ”دشمن سے دوبدو لڑنے کا موقع انفنٹری میں سب سے زیادہ ہے“اور پھر وہ دن آگیا جس کا ہر کیڈٹ کو انتظار ہوتا ہے۔ تکمیل آرز و کا دن۔دعاؤں کی تکمیل اور وفاؤں کی پاسداری کا دن۔ اسے ”پاسنگ آؤٹ“ کہتے ہیں۔14اکتوبر 1994ء کی شام کرنل شیر پاک آرمی کے باقاعدہ سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے۔ انکے کندھے پر چمکتے ستارے در حقیقت قوم کی امانت تھے۔ یہ مقدس ذمہ داریوں کا ثبوت ہے، جو جوانوں پہ ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ پاک فوج کا فرض اور قوم کا قرض ہے۔ نصب العین بھی ہے۔ پاک افواج تو ہمیشہ قوم کی امیدوں کا مرکز رہی ہیں اور ہمیشہ توقعات پر پوری اتری ہے۔
جوش طوفاں، دیدہِ نمناک سے کیا کیا ہوا
دیکھ لے دنیا میں مشتِ خاک سے کیا کیا ہوا

27سندھ رجمنٹ:
کرنل شیر اکیڈمی سے ستائیس سندھ رجمنٹ میں راہ راست پوسٹ ہونے والے پہلے آفیسر ہیں۔یونٹ میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ لیفٹیننٹ کرنل اقبال محمود نے سیکنڈ ان کمانڈ ہونے کی حیثیت سے نئے آفیسرز کا خیر مقدم کیا۔
وہ بتاتے ہیں؛ ”سیکنڈ ان کمانڈ ہونے کے باعث کرنل شیر کی پیشہ ورانہ تربیت اور شخصیت پروان چڑھانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی“۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے کرنل شیر کو پیشہ ورانہ فرائض میں بہت سنجیدہ اور پر اعتماد پایا۔”پاک فوج میں شمولیت میرا سب سے بڑا خواب تھا جو آج پورا ہو گیا“۔ یہ الفاظ کرنل شیر نے مجھے پہلے انٹرویو میں بتائے اور میں نے پہلے روز ہی اندازہ لگا لیا کہ یہ نوجوان کوئی خاص کام کرنا چاہتا ہے۔ وہ دانشمندہی نہیں بہادر بھی تھا۔ ٹریننگ کے دوران ہر کام میں باہمت اور آگے آگے رہنے والا۔پڑھائی کا شعبہ ہو یا حرب و ضرب کا فلسفہ، کھیل کا میدان ہو یا فائرنگ کا مقابلہ، کیپٹن شیر ہر کہیں اپنے یونٹ کے لیے اعزازات حاصل کرتے تھے۔ فزیکل ٹریننگ، اسالٹ کورس اور یونٹ کے دیگر مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ کرنل شیر نے ڈویژن کے پیرا میچز میں حصہ لیااور ڈویژن کی فائرنگ ٹیم کے ممبر تھے۔
نائب صوبیدار قاسم ستائیس سندھ رجمنٹ میں اسی روز تعینات ہوئے جس روز کیپٹن کرنل شیر یونٹ پہنچے تھے۔ یہ ایک حسن اتفاق تھا۔ قاسم اپنی یادوں کے گوشے وا کرتے ہیں کہ ایک جونیئر سپاہی کے طور پر مجھے کرنل شیر خان جیسا رول ماڈل میسر آیا۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ میں انہیں یونٹ میں ہر وقت متحرک اور مصروف دیکھتا۔ سائیکل پر سوار یہ نوجوان افسر یونٹ کی ہر سر گرمی میں پیش پیش ہوتا تھا۔ قاسم اپنے ٹریننگ سنٹر جب کہ کرنل شیر خان پی ایم اے سے 27سندھ رجمنٹ کا حصہ بنے تھے۔ وہ قاسم کو بہت پسند کرتے تھے، اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ قاسم جسمانی مشقت اور مختلف سرگرمیوں میں کرنل شیر کے ہمراہ رہتے تھے۔ قاسم بتاتے ہیں کہ؛
کرنل شیر خان جسمانی مشقت کے عادی تھے۔ پی ٹی، ڈرل اور مختلف سر گرمیوں میں ان کو کوئی مقابل نہیں ہو تا تھا۔ یونٹ کی شوٹنگ ٹیم کو لیے پہروں فائرنف رینج پر پریکٹس کراتے، انہیں مختلف تکنیک سمجھاتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ سائیکل یا موٹر سائیکل پر سوار ہر وقت نظر آتے اور یونٹ کی ہر سر گرمی میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔
کرنل شیر خان کو اپنی یونٹ27سندھ رجمنٹ سے بہت محبت تھی۔ ان کی ہر چیز میں 27کا ہندسہ جھلکتا تھا۔ شیر خان کے سینئرز میں وہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
14جولائی1995ء کو انہیں لیفٹیننٹ کے رینک پر ترقی ملی۔ 29جولائی1995ء میں انہیں سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹکس کوئٹہ میں کورس کے لیے بھیجا گیا۔ اس کورس کی تکمیل14دسمبر 1995ء کو ہوئی اور نتائج ایک مرتبہ پھر بہترین رہے۔اس کورس کی تکمیل کے بعد 5جنوری1996ء کو انہیں اسی کمپنی کا کمانڈر بنا دیا گیا۔
17اکتوبر 1996ء کو انہیں کیپٹن کے عہدہ سے سرفراز کیا گیا۔ آپ کے رینک کی خوشی میں ایک تقریب کا اہتمام ہوا۔ اس تقریب میں کرنل شیر نے اپنی یونٹ کو ایک جی تھری رائفل کا ماڈل بھی پیش کیا۔ وہ ماڈل آج بھی 27سندھ رجمنٹ میں محفوظ ہے۔ اس کے جوانوں اور افسروں کے لئے ایک سنگِ میل ہے۔ان کی بات بات اور تمام حرکات و سکنات سے عسکری رنگ جھلکتا تھا۔ کرنل شیر نے دو مرتبہ اپنے یونٹ میں کمانڈو پلاٹون تیار کی۔ کمانڈ وپلاٹون کی تیاری بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس میں 37کلو میٹر کا فاصلہ، ہتھیار اور37کلو گرام وزن کے ساتھ طے کرنا ہوتا ہے۔ یہ سفر دشوار گزار راستوں سے کیا جاتا ہے۔ رات کو منزل کی نشاندہی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور بچاؤ اور فائرنگ بھی اس کورس کا حصہ ہیں۔ کرنل شیر ایک سچے سپہ سالار کی طرح ہمیشہ آگے آگے ہوتے تھے۔ان کے کندھوں پر ایک کی بجائے تین تھیلے لدے ہوتے تھے، یعنی ساٹھ کلو وزن کے ساتھ وہ لیڈر شپ کا عملی نمونہ پیش کرتے تھے۔ ان کی کمانڈو پلٹن کی تیاری کے دوران بولا گیا ایک فقرہ اب بھی27سندھ رجمنٹ کے جوانوں کو رُلا دیتا ہے۔
”ماڑا بھاگنے میں کیا انگریزی ہے، پچھلا پاؤں اٹھا کر آگے رکھ دو“