خیبرپختونخو ا میں کورونا کے 18نئے کیسز رپورٹ

پشاور :خیبرپختونخو ا میں کورونا کے 18نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ۔ محکمہ صحت کے مطابق پشاور میں7، ملاکنڈ میں 9اور اپر چترال میں 2کیسز رپورٹ ہوئے۔
صوبے میں کورونا کے مجموعی کیسز کی تعداد2لاکھ، 20ہزار 526ہوگئی جبکہ گزشتہ 24گھنٹے کے دوران صوبے میں کورونا سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔صوبے میں اس وقت فعال کیسز کی تعداد 351ہے اوراب تک 6ہزار 326افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

صدر مملکت کا جموں و کشمیریوم الحاقِ کے موقع پر پیغام

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جموں و کشمیر کے یوم الحاقِ پاکستان کے موقع پر پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیری عوام جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی یاد منا رہے ہیں۔ آج ہم کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حصول کیلئے ان کی جدوجہد میں اپنی حمایت کی تجدید کرتے ہیں ، صدر مملکت نےاپنے پیغام میں کہا۔

 انھوں نے کہا کہ یہ دن 1947ء میں منظور کی گئی تاریخی قرارداد کی روشنی میں ریاستِ جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو ایک حقیقت بنانے کیلئے منایا جاتا ہے۔ اورآج ہم بہادر کشمیری عوام کی تاریخی جہدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم دہراتے ہیں۔

قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں ظلم ، تفریق اور ناانصافی کے باوجود کشمیریوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ صدر مملکت نے کہا کہ آج ہم جموں و کشمیر کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ اور ہم سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

پاکستان جموں و کشمیر میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کو ان کے حق ِخودارادیت کے لیے اپنی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ عالمی برادری آرٹیکل 35 اے اور 370 معطل کرنے کے بھارتی غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو ختم کرائے کیونکہ بھارت نے غیرقانونی اور یکطرفہ طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا۔

بھارت کے ڈومیسائل اور ملکیتی قوانین مقبوضہ جموں و کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے اور کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے تبدیل کیے گئے۔کشمیری ہندوتوا بھارتی حکومت کے ظالمانہ اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ صدر مملکت نے پیغام میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اقوام متحدہ کی قراردادوں ، کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازع کے پرامن حل پر منحصر ہے۔

سب ڈویژن جنڈولہ کے علاقہ سرغرمیں پولیس تھانہ کا باقاعدہ افتتاح

سب ڈویژن جنڈولہ کے علاقہ سرغر میں تھانہ کا باقاعدہ افتتاح کردیا گیا۔

انسپیکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختونخواہ معظم جاہ انصاری اور ریجنل پولیس آفیسر ڈیرہ اسماعیل خان شوکت عباس کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ٹانک وقار احمد خان نے سب ڈویژن جنڈولہ کے علاقہ سرغر میں فیتہ کاٹ کر تھانہ کا باقاعدہ افتتاح کردیا۔ اور پودا لگاکر شجرکاری بھی کی جسکے بعد دیرپا امن کے قیام اور ملکی سلامتی و خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔

افتتاحی تقریب میں ڈی ایس پی سب ڈویژن جنڈولہ عالمگیر خان اور ایس ایچ او تھانہ سرغراسحاق خان سمیت ٹانک پولیس کے دیگرافسران اور معززین علاقہ بھی موجود تھے۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی پی او ٹانک کا کہنا تھا کہ ٹانک پولیس شہریوں کی جان و مال کے تحفظ اور دیرپا امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہی ہے اور نئے ضم شدہ علاقہ جات کو خصوصی توجہ دے رہی ہے تاکہ یہاں کے شہریوں کو اپنے تحفظ کا احساس ہوکر یہ علاقہ ترقی و خوشحالی کیطرف بڑھ جائے۔
اسکے بعد ڈی پی او ٹانک وقار احمد خان نے مختلف چوکیات کا بھی وزٹ کرتے ہوئے صفائی اور ریکارڈز کے علاوہ تمام متعلقہ امور کا جائزہ لیا اور ہر قسم کے جرائم، سمگلنگ، منشیات فروشی اور سماج دشمن سرگرمیوں کیخلاف بلاتفریق قانونی کارروائیاں عمل میں لانے کیلئے دوٹوک ہدایات جاری کیں۔ 

عرفان محسود کا 53 واں گینیز ورلڈ ریکارڈ اپروڈ ہوگیا

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مارشل آرٹس کھلاڑی عرفان محسود کا 53 واں گینیز ورلڈ ریکارڈ اپروڈ ہوگیا ہے۔ عرفان نے 60 پاونڈ وزن کے ساتھ ایک منٹ میں 54 جمپ سکواٹس کر کے 40 جمپ سکواٹس کا ریکارڈ توڑ دیا.

عرفان محسود پہلے کھلاڑی ہیں جس نے یہ ریکارڈ توڑا ہے۔ عرفان محسود نے سب سے زیادہ پش اپس کٹیگری میں 28 گینیز ورلڈ ریکارڈ بنائے ہیں اور ورلڈ لیول پر سب سے زیادہ جمپنگ جیکس کٹیگری میں ریکارڈ بنانے والے کھلاڑی بھی ہیں۔

 وہ پاکستان سے  دینا میں سب سے زیادہ 100 اور 80 پاونڈ وزن کے ساتھ گینیز ورلڈ ریکارڈ بنانے والے واحد کھلاڑی ہیں۔ اس کے علاوہ عرفان محسود ورلڈ لیول پے سب سے زیادہ فٹنس کٹیگری کے گینیز ورلڈ ریکارڈز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے اب تک اب تک 9 ممالک کے ریکارڈز توڑے ہیں۔ جن میں انڈیا، امریکہ، برطانیہ، فرانس، فیلیپائن، عراق، مصر، اٹلی، سپین شامل ہیں۔

National integration for political and economic stability in Pakistan

AMIR ULLAH KHAN

National integration is one of the most debatable issues in developing countries like Pakistan. It is a wider concept. However, it can be simply understood as “the bringing of diverse communities with multi-socio-cultural vales, multi-lingual, multi-religious, multi-sectarian, multi-ethnic, multi-racial with historical orientation and with heterogeneous politico-economic ideologies under the umbrella of one-nation with sense of nationhood”. In the present world, two states – Pakistan and Israel – have been established based on religious ideology, the latter has homogeneous society contrary to Pakistan that is pluralistic in nature.

national integrationIt is herculean task to bring such diverse people under the flag of one nation. The political engineers and constitutional experts in different times and in different societies suggested political and constitutional mechanisms to unite such pluralistic society. The architectures of the 1973 Constitution of Pakistan established a federation divided into

and are involved to satisfy their own stakes. They are engaged to make laws for protection of their own interests. Fourth, the political leaders and political parties are also engaged in blame-shift game and none of these is ready to shoulder responsibility for the repercussions of its policies. Fifth, political leaders also rely upon ethnic-based politics to broaden their vote bank. Unfortunately, they lack  national outlook. Sixth, they prefer confrontational politics instead of politics of reconciliation and cooperation based upon democratic principles and meritocracy. Eight, the political leaders are engaged in brainwashing the minds of students in academic institutions especially universities and create hate in their minds against their fellow beings and security agencies of Pakistan for political scoring. Lastly, the political parties lack a sustainable economic policy, which leads them to rely on aid from International Financial Institutions like World Bank, Asian Development Bank, and International Monetary Fund.

into Federal capital territory, four federating units, and other autonomous regions; and also distributed legislative, financial, and administrative powers between the federal government and federating units with aim to form harmonious relationship between federation and federating units, besides among the federating units themselves; also to protect the rights of the smaller provinces through constitutional and political means.

Various obstacles hinder national integration in Pakistan. First, the political leaders are involved in politicising national and local problems of the common man for no reason except for personal political consideration. Second, they betray common people and exploit their sentiments. Third, they overlook the well-being of their electors

The governments in Pakistan pay the loans but fail to pay the interests on those loans. The government for this reason maximise the tax-base by levying huge taxes on common people which further exacerbate their miseries and also leads to poverty instead of poverty alleviation.

These issues gravely caused political instability in Pakistan. It is high time to take serious notice of the historical political blunders and those of current ones to come out of political and economic turmoil and to make Pakistan politically and ultimately economically stable to establish a true welfare state wherein the common man enjoys political, social, and economic justice. The political leaders need to come on table to design a sustainable economic policy to get rid of  Global Monetary Institutions’ clutches. The government needs to stop issuing fund to legislators because their main job is to legislate for the welfare of the people. Across the board, accountability must be ensured and political victimisation needs to be stopped. The local people must be part of the local projects to address their grievances. The national institutions and organisations like Pakistan Railway, Pakistan International Airline and Pakistan Steel Mill etc need be strengthened and losses must be addressed through comprehensive policies. The political leaders must resolve their issues on the floor of the parliament instead of roads, agitation and confrontation.

The political leaders need to stop politicising the security agencies like Pakistan Army and Inter-Services Intelligence because it will damage the morale of Jawans deputed at National borders to safeguard people against external aggression and threat. In the nutshell, it can be said that ‘God does not change the fate of those who do not strive to change by themselves’. Nothing is impossible but strong resolve and will is needed. We therefore need to think and act as Pakistani; and to vow to live and die in Pakistan.

About the Author:

The Author is Chairman, Department of Political Science, Islamia College University Peshawar (ICP),

نئے انتخابات بحران کا حل کیسے؟

عقیل یوسفزئی

سابق وزیراعظم عمران خان نے 17 جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد ایک تفصیلی بات چیت میں جاری مسائل کے حل کو حسبِ معمول ملک میں عام انتخابات سے مشروط کردیا ہے حالانکہ ان کے پاس اس سوال کا کوئی مدلل جواب نہیں ہے کہ موجودہ سیاسی بحران، مسائل اور اقتصادی مشکلات نہ صرف ان کی حکومت میں موجود تھیں بلکہ وہ اس کے براہ راست ذمّہ دار بھی رہے ہیں. بلاشبہ موجودہ اتحادی حکومت نے تین ماہ کے دوران کوئی ایک بھی غیر معمولی پالیسی نہیں بنائی اور پنجاب کے انتخابی نتائج کو بعض دیگر اسباب کے علاوہ مہنگائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا ہے تاہم عمران خان کو یہ حقیقت بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ جس جیت کو وہ تاریخی فتح قرار دے رہے ہیں اس کے نتائج کے دوران ان کی پانچ سیٹیں کم ہوگئی ہیں. اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہوتے ہیں تو وہ پھر جیت جائیں گے یا وہ نتائج قبول کرلیں گے۔

وہ اب بھی کنفیوژن کا شکار ہیں. امریکی سازش کے بیانیہ کے علاوہ ان کے پاس اپنی کارکردگی کا کوئی بیانیہ یا تفصیلات نہیں ہیں. مقتدر قوتوں کو غیر ضروری طور پر انہوں نے اس قدر الزامات اور تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ معاملات کو نارمل ہونے میں لمبا عرصہ لگے گا۔ دوست ممالک بھی بوجوہ ان سے ناراض ہیں جبکہ ق لیگ کے علاوہ ان کا کوئی سیاسی اتحادی نہیں ہے. اس صورت میں میں محض مزاحمتی اور جذباتی طرزِ سیاست سے قبل از وقت انتخابات کا انعقاد مسائل کا حل کیسے ممکن ہوسکتا ہے اس کا جواب عمران خان اور ان کے حامیوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس طرح عمران خان کو اپنی حکومت کے جانے کا تین ماہ گزرنے کے باوجود یقین نہیں ہورہا اور وہ وزارت عظمیٰ کو اب بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اسی طرح شھباز شریف کو بھی اپنی وزارت عظمیٰ کا یقین نہیں ہو پارہا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اتحادی حکومت ڈیلیور نہیں کر پارہی حالانکہ اس دلیل کو بھی کلی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس حکومت کو قائم ہونے کو محض تین ماہ کا وقت گزر چکا ہے. بات ایک درست سیاسی اور انتظامی سمت کے تعین کی ہے جو کہ ابہام کا شکار ہے. یہ تاثر اب بہت عام ہے کہ اتحادی جماعتوں کا بنیادی مقصد ملک کو اچھی گورننس دینے سے زیادہ عمران خان سے جان چھڑانا تھا. اگر ایسا نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمان معاملات سے لاتعلق نہ ہوتا، اے این پی ناراض نہ ہوتی اور پیپلز پارٹی پنجاب کو ن لیگ اور تحریک انصاف کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی۔ ان کی عدم دلچسپی یا سیاسی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود اتحادی پختون خوا سمیت بعض دیگر صوبوں کے نئے گورنر مقرر کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے. وفاقی وزراء میں بلاول بھٹو کے بغیر کسی کی کارکردگی بہتر نظر نہیں آتی جبکہ مسلم لیگ ن تاحال یہ فیصلہ بھی نہ کرسکی کہ میاں نواز شریف نے پاکستان آنا ہے یا نہیں۔

اس صورتحال کا عمران خان اس کے باوجود فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ نہ تو ان کی حکومت کوئی مثالی حکومت تھی اور نہ ہی ان کے پاس مستقبل کا ایسا کوئی سیاسی پلان یا فارمولا موجود ہے جس کو قابل عمل سمجھا جائے. سیاسی کشیدگی کا حل تلاش کرنے کے لئے لازمی ہے کہ تمام فریقین الزام تراشیوں اور ماضی کی غلطیوں پر بحث کی بجائے ملکی حالات کا ادراک کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرکے تلخی کم کرنے پر توجہ دیں اور انتخابی اصلاحات کے ذریعے نظام میں موجود نقائص ختم کریں ورنہ دوسری صورت میں عوام کا جمہوری نظام اور سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور ملک خدا نخواستہ انارکی کی صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔