ہیلی کاپٹر حادثہ میں کور کمانڈر کوئٹہ سمیت تمام افراد شہید: آئی ایس پی آر

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز لاپتہ ہونے والے ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری بیان میں گزشتہ روز لاپتہ ہونے والے ہیلی کا ملبہ ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کورکمانڈر 12کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے، شہداء میں ڈی جی پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد بھی شامل ہیں۔

شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ہیلی کاپٹر کا ملبہ موسٰی گوٹھ سے مل گیا ہے، ہیلی کاپٹر کو حادثہ خراب موسم کے باعث پیش آیا، ہیلی کاپٹر سیلاب زدگان کے ریلیف آپریشنز میں مصروف تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ہیلی کاپٹر حادثے میں کور کمانڈر 12کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اور ڈی جی کوسٹ گارڈ کے علاوہ 4 دیگر جوان اور افسران بھی شہید ہوئے، حادثے سے متعلق مزید تفصیلات تحقیقات کے بعد شیئر کی جائیں۔

القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری ڈرون حملے میں ہلاک: امریکی صدر

امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو کہا کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری اتوار کو افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔
امریکی حکام کے مطابق امریکہ نے مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح 6 بج کر 18 منٹ پر افغان دارالحکومت کابل میں ڈرون حملہ کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ القاعدہ کو مکمل ختم کردیا، افغانستان میں کئے گئے حملے میں کسی شہری کی ہلاکت نہیں ہوئی، جو لوگ ہمارے لیےخطرہ ہیں ان کاتعاقب کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے رواں سال اپریل میں نائن الیون حملے کی منصوبہ بندی میں شامل ایمن الظواہری کا پتہ چلا لیا تھا، ہر قیمت پر امریکا کا دفاع کریں گے اور اپنے دشمنوں کا ہر جگہ تعاقب کریں گے۔
اگست 2021 میں امریکی فوجیوں اور سفارت کاروں کے ملک چھوڑنے کے بعد یہ ڈرون حملہ افغانستان کے اندر پہلا امریکی حملہ ہے۔
ایک بیان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے “بین الاقوامی اصولوں” کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔

پاک فوج کے لاپتہ ہونے والے ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیا

ہیلی کاپٹر کا ملبہ ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے لسبیلہ پولیس نے کہا ہئ کہ  عباس پولیس چوکی، ساکران سے سات یا آٹھ کلومیٹر دور پہاڑ کی چوٹی پر واقع حاجی موسیٰ گوٹھ میں کریش شدہ ہیلی مل گیا ہے۔ دو لاشیں بھی نکال لی گئیں۔ ہیلی مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے جبکہ۔ پولیس علاقے میں مزید تلاشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہیلی کاپٹر بلوچستان کے علاقے لسبیلا سے لاپتہ ہو گیا تھا۔ لاپتہ ہونے والے ہیلی کاپٹر میں کمانڈر 12 کور سمیت 6 افراد سوار تھے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی میجرل جنرل بابرافتخار نے ٹوئٹ میں بتایا ہے کہ ہیلی کاپٹر سے فلڈ ریلیف سرگرمیوں کی نگرانی کی۔

اس سے بیشتر لاپتہ ہیلی کاپٹر کی تلاش میں مشکلات کا سامنا تھا آرمی کے ساتھ ساتھ پولیس ٹیمیں بھی تلاش میں شامل تھیں۔

 ڈی آئی جی خضدارپرویز عمرانی نے کہاکہ علاقہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے تلاش میں مشکلات کا سامنا تھا اورپولیس ٹیمیں موٹر سائیکلوں پر بھی دشوار علاقوں میں تلاش میں مصروف ہیں ڈی آئی جی خضدار کا کہناہے کہ پولیس اور ایف سی کا مشترکہ ریسکیو آپریشن کئی گھنٹوں سے جاری ہے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز اوتھل سے کراچی جاتے ہوئے پاکستان آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق ہیلی کاپٹر میں کور کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد اور 12 کور کے انجینیئر بریگیڈیئر خالد سوار تھے۔ ہیلی کاپٹر میں سوار افراد میں پائلٹ میجر سعید، معاون پائلٹ میجر طلحہٰ اورکریو میں چیف نائیک مدثر بھی شامل ہیں

یہ کون ہیں جو نفرتیں پھیلا تے ہیں؟

عقیل یوسفزئی
یہ رویہ کسی طور مناسب نہیں ہے کہ سیاسی وابستگی اور اختلافات کی آڑ میں اپنے ملک یعنی پاکستان کی نہ صرف مخالفت کی جائے بلکہ اس کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کی مہم بھی چلائی جائے. اس پر ستم یہ کہ معاشرے کو منافرت کا شکار بناکر تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے. کوئی بھی ملک آئیڈیل نہیں ہوتا. نہ ہی مختلف ایشوز پر سب میں اتفاق رائے کا اظہار ممکن ہو تا ہے. بات اجتماعی مفادات اور ملکی ساکھ کی اہم سمجھی جاتی ہے اور اسی نکتہ پر ایک اجتماعی بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے.
آرمی چیف نے ایک اہم امریکی عہدیدار سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران ملکی معیشت سے متعلق بات کی تو بعض لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور دلیل اپنایء کہ یہ ان کے فرائض میں شامل نہیں ہیں حالانکہ اس سے پہلے کی حکومت میں جب بھی سابق حکمران معاملات بگاڑ تے رہے یہی آرمی چیف ان کو سنبھالتے رہے. اس وقت ان کو یہ بات یاد نہیں رہی کیونکہ یہ حکمرانی کے مزے لے رہے تھے.
سوال تو یہ بھی ہے کہ آرمی چیف نے یہ گفتگو اپنی ذات کے لیے کی یا ایک ایسے ملک کی معاشی بہتری کے لئے جس کو سیاسی لیڈروں اور ان کی پالیسیوں نے دیوالیہ بنانے کے قریب پہنچا دیا ہے. ممتاز اخبار فاینانشل ٹایمز کی حالیہ رپورٹ سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے تاہم المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی مرضی اور پسند کی بات سننے کی عادت میں تلخ حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے.
گزشتہ روز بلوچستان میں آرمی کے ایک ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا تو پوری قوم رنجیدہ ہوگیء کیونکہ کور کمانڈر کویٹہ اور ان کے ساتھی سیر سپاٹا کرنے نہیں گیے تھے بلکہ وہ سیلاب زدگان کی مدد اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے گئے تھے. حد تو یہ ہے کہ بعض لوگوں اور ایک پارٹی کے میڈیا پرسنلز نے اس واقعے کو بھی سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھا نے سے گریز نہیں کیا اور انتہائی نامناسب اور غیر متعلقہ تبصرے نام ونھاد سوشل میڈیا پر جاری کیے. یہ وہی فوج ہے جو نہ صرف اس قوم کو سیکورٹی دینے کے لیے گزشتہ 21 برسوں سے کسی وقفے کے بغیر جانوں کی قربانی دے رہی ہے بلکہ سیلاب اور دوسرے آفات کے دوران بھی دن رات اپنے وسائل بھی استعمال کرتی آرہی ہے.
جاری سیاسی بحران کے دوران تمام معاملات کو دستور کے مطابق حل کرنا سیاسی قوتوں اور متعلقہ جمہوری اداروں کی ذمہ داری ہے مگر اب بھی ایک اجتماعی رویہ یہ ہے کہ ہر کوئی ہر مسئلے کا حل فوج کے زریعے ڈھونڈنے کی کوشش میں ہے.
یہ رویہ نہ صرف ملک اور اس کے نظام، اداروں کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے نفرتوں اور فاصلوں میں اضافے کا راستہ بھی ہموار ہورہا ہے اس لیے لازمی ہے کہ اس رویے کا راستہ روک دیا جائے اور جو عناصر جھوٹ، منافقت، منافرت اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں ان کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے.