افغانستان میں ایک بار پھر پراکسیز متحرک ہوچکی ہیں

عبداللہ جان صابر

افغانستان میں امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد یہ تاثر عام تھا کہ اب افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، خود افغان طالبان نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری مٹی پاکستان کے خلاف استعمال کریں کیونکہ ہم تمام پڑوسی ممالک کیساتھ برادرانہ تعلقات چاہتے ہیں۔

جیسے ہی افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ہوا اور پاکستان کے حوالے سے افغان طالبان کا موقف سامنے آگیا تو پاکستان مخالف ممالک اور انکی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اپنی فریبی چال کامیاب بنانے کیلئے طریقہ کار بدلنے پر کام شروع کردیا تاکہ افغانستان کے موجودہ سیٹ اپ میں رہ کر پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھیں۔

امریکہ کا تزویراتی اتحادی ہندوستان آس لگائے بیٹھا تھا کہ 2014ء کے بعد امریکہ افغانستان میں اسے اپنا جانشین بنادے گا۔ اس مقصد کے لئے اس نے سابق افغان حکومت پر کثیر سرمایہ کاری بھی کی تھی اور ایران کے ساتھ بھی لمبے چوڑے منصوبے بنا رکھے تھے لیکن افغان طالبان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہندوستان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔

اب امریکہ اور ہندوستان اقتصادی طور پر افغانستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے نامکمل منصوبے مکمل کروائیں۔اس مقصد کیلئے اگر ایک طرف امریکہ نے افغانستان کے خزانے منجمد کروائے ہیں تو دوسری جانب داعش اور دیگر تحریب کار تنظیموں کو مالی معاونت بھی فراہم کی جارہی ہے۔

مستند ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سی آئی اے اور ´´را´´ اب اس کوشش میں ہیں کہ افغانستان میں افغان طالبان کے مدمقابل ایک ایسا عسکریت پسند گروہ تشکیل دیا جائے جو افغانستان سمیت پاکستان میں بھی اپنی تحریب کاری جاری رکھ سکیں۔اس مقصد کیلئے خصوصی کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں جو عسکریت پسند تنظیموں کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنارہی ہیں۔

ان کمیٹیوں میں سی آئی اے، را اور این ڈی ایس کے وہ پرانے اہلکار بھی شامل ہیں جو اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دور حکومت میں بنائی گئی کمیٹیوں کے ممبران تھے۔ذرائع کے مطابق کمیٹیوں کی صرف تشکیل نو کی گئی ہے باقی ماضی اور حال کے مقاصد ایک جیسے ہیں۔

ان مقاصد میں خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں انتشار پھیلانا، پاکستانی عوام کو پاک فوج کے خلاف بدظن کرنا،سی پیک کو سبوتاژ کرنا،بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں لسانیت اور قوم پرستی کو فروغ دینا،پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیاں اور ہائیبرڈ وار فیئر کے ذریعے پاکستان کو تقسیم کرنا شامل ہیں جن پر باقاعدہ طور پر کام کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔

اسطرح کی کمیٹیاں ماضی میں بھی بنی تھیں جن کا ذکر تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان بھی کیا تھا کہ را، این ڈی ایس اور سی آئی اے پر مشتمل کمیٹیاں ہمیں محفوظ راستہ فراہم کرتی تھیں جن کی وجہ سے ہمیں سفر میں مشکلات اور مالی کمی کا کبھی بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔

سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب را، سی آئی اے اور این ڈی ایس ایسا کررہے ہیں تو پاکستانی ایجنسیاں تدارک کیوں نہیں کرسکتیں۔ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں کمزور نہیں۔ پاکستان کی ایک ایجنسی کا شمار آج بھی دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی ایجنسیاں بے اختیار ہیں بلکہ ان کا شمار دنیا کی بااختیار ترین ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے پاکستان اور ہندوستان کی دفاعی بجٹ کا موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جہاں پاکستان کی ایجنسیاں اپنے ملک کے تحفظ کیلئے ایک روپیہ خرچ کرتی ہیں تو وہاں پر را کیساتھ ایک ہزار روپے خرچ کرنے کا بجٹ موجود ہوتا ہے،اوپر سے ہندوستان کے سر پر امریکہ کا دست شفقت بھی موجود ہوتا ہے۔

چونکہ پاکستان اور افغانستان کے لوگ مذہب، قوم پرستی اور پیسے کے سامنے فطری طور پر بےبس ہیں لہذا ان تین عناصر کی مدد سے را اور سی ائی اے افغانستان میں موجود کمیٹیوں کے ذریعے اپنے مقاصد کیلئے سرگرم ہیں یعنی وہ لوگ جو ٹینک اور توپ کے آگے ڈٹ کے کھڑے رہتے ہیں، نوٹ کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔

دوسری وجہ پاکستان میں سیاستدانوں کا منفی کردار ہے جو اپنی کرسی بچانے کیلئے نہ افغانستان میں موجود پراکسیزکے شیطانی حربوں کو کاونٹر کرنے کیلئے اداروں کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور نہ ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ الٹا عوام کو سیکیورٹی اداروں کے خلاف کھڑا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

مختصر یہ کہ پاکستان کے سیاستدان، میڈیا اور عوام افغانستان میں متحرک پراکسیز کو کمزور نہ سمجھیں کیونکہ یہی پراکسیز اب نئی حکمت عملی کیساتھ پاکستان پر حملہ اور ہونے کیلئے تیار ہیں لہذا تنقید اور منفی پراپیگنڈوں کے بجائے سیکیورٹی اداروں کا حوصلہ بڑھائیں۔یہاں نوجوان نسل کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر ان پراکسیز کا مقابلہ کریں اور اپنی توانائی پاکستان کی حفاظت کیلئے بروئے کار لائیں۔

ضمنی انتخابات کی تیاریاں اور اہمیت

کراچی میں عامر لیاقت حسین کی موت سے خالی ہونیوالی قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے تاہم ٹرن آوٹ 11.8 فیصد رہا جو کہ انتہائی کم ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ عوام شاید جاری سیاسی کشیدگی کے باعث جمہوری نظام سے مایوس اور بد دل ہوچکے ہیں.
سب سے بڑا معرکہ اگلے مرحلے میں 25 ستمبر کو سر کیا جائے گا جب قومی اسمبلی کے 13 حلقوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہو گا. یہ الیکشن ان حلقوں میں لڑا جائے گا جن سے تحریک انصاف نے استعفے دیے ہیں اور اسپیکر نے ان میں سے صرف یہ منظور کئے ہیں. اب کے بار سب سے منفرد بات یہ ہے کہ کہ سابق وزیر اعظم عمران خان 9 حلقوں سے الیکشن لڑیں گے جو کہ اس سے قبل کھبی نہیں ہوا. ان میں خیبر پختون خوا کے 4 حلقے بھی شامل ہیں جھاں الیکشن کی مہم میں دن بدن اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے.
پشاور میں عمران خان کا مقابلہ اے این پی کے سینئر رہنما غلام احمد بلور کے ساتھ ہوگا جو کہ اس حلقے سے ماضی میں 3 بار منتخب ہوتے آئے ہیں اور اب کے بار ان کو پی ڈی ایم کی حمایت بھی حاصل ہے. تاہم اس حلقے سے عمران خان بھی ماضی قریب میں کامیاب ہوگئے تھے.
چارسدہ میں بھی مقابلہ اے این پی اور تحریک انصاف کے درمیان ہے جھاں سے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان پی ڈی ایم کی حمایت سے عمران خان کا مقابلہ کرنے نکل آئے ہیں اور کامیاب انتخابی مہم چلا رہے ہیں. مردان کا حلقہ بھی سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جھاں پر جے یو آئی ف کے سینئر رہنما مولانا قاسم پی ڈی ایم کے امیدوار ہیں.
تحریک انصاف نے گزشتہ روز ضمنی انتخابات کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی ہیں اور صوبائی صدر پرویز خٹک اس مہم کی نگرانی کررہے ہیں.
ان انتخابات کو اگلے الیکشن کے تناظر میں بہت اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ اس کے نتائج سے عوام کے موڈ اور مختلف پارٹیوں کی مقبولیت کا اندازہ ہوسکے گا اور اگر عمران خان جیت جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ موجودہ وفاقی حکومت کے حال اور مستقبل پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے اس لیے تجزیہ کار ان انتخابات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں.