چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کانجو، سوات دورہ کے دوران کالام سے ہیلی کاپٹرز کے زریعے منتقل کئے گئے متاثرین سے ملاقات کی جن میں ٹورسٹ فیملیز بھی شامل تھیں۔ دورہ کے دوران آرمی چیف نے کانجو کینٹ ہیلی پیڈ پر میڈیا کے نمائندوں سے اپنی مختصر گفتگو میں کہا کہ سیلاب کے شدید نقصانات کی اسسمنٹ ابھی ہونا ہے جس کےلئے سروے ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومتیں اور فوج مل کر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کالام میں کافی نقصان ہوا ہے اور ہوٹل بہت تباہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوہزار دس کے سیلاب میں بھی یہاں ایسی ہی تباہی ہوئی تھی تاہم دوبارہ انہیں جگہوں پر تعمیرات کر نے کی اجازت دے کر غفلت کا مظاہرہ کیا گیا جس کے زمہ داران کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چایے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت سب سے ضروری کالام روڈ کا کھولنا ہے “امید ہے 6 سے 7 دنوں میں روڈ کو کھول دیں گے”۔ کالام میں پھنسے لوگوں کو نکال رہے ہیں اور اب بحران کی صورت حال نہیں ہے۔ آرمی چیف کے مطابق سیلاب زدگان کی امداد کے لیے اپیل پر بہت اچھا رسپانس ہےاور اس وقت مختلف فلاحی اداروں ،سیاسی جماعتوں اور افواج پاکستان نے اپنےریلیف سنٹر کھولے ہوئے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ این سی او سی کی طرز پر ہیڈ کوارٹر بنایا گیا ہے جہاں امداد کا ڈیٹا اکھٹا ہو گا۔ ہیڈ کوارٹر سے وزیر منصوبہ بندی امداد ادھر بھجوائیں گے جہاں ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کا ریسپانس بہت اچھا آرہا ہے، کئی کئی ٹن راشن اکٹھا ہو رہا ہے راشن کا نہیں، خیموں کا مسئلہ ہو گا، بیرون ملک سے ٹینٹس منگوانے کی کوشس کر رہے ہیں جبکہ فوج کی طرف سے بھی خیمے فراہم کیے جارہے ہیں، خیموں کی سندھ اور بلوچستان میں زیادہ ضرورت ہے۔ آرمی چیف کے مطابق یو اے ای، ترکی اور چین سے امدادی سامان کی پروازیں آنا شروع ہو گئی ہیں جبکہ سعودی عرب اور قطر سے بھی پروازیں آنا شروع ہو جائیں گی؛ پیسے بھی آئیں گے۔ دوست ممالک نے پاکستان کو مصیبت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا، انشا اللہ آئندہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستانیوں، خصوصا” بیرون ملک پاکستانیوں کا رسپانس بہت اچھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں متاثرین کو گھر بنا کر دینے پڑیں گے “ہم انشااللہ متاثرین کو پری فیب گھر بنا کر دیں گے۔ یہاں پر اتنا مسئلہ نہیں، زیادہ مسئلہ سندھ میں ہے جہاں چار چار فٹ پانی کھڑا ہے اسی طرح مسئلہ بلوچستان کا ہے جہاں پورے کے پورے گاوں صفحہ ہستی سے مٹ چکے”۔
آرمی چیف کا دورہ سوات اور تیز ترین تعمیر نو کا عزم
عقیل یوسفزئی
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر پشاور اور دوسرے اعلیٰ عسکری حکام کے ہمراہ گزشتہ روز سوات کا دورہ کیا جہاں ان کو سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور انہیں ان اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا جو کہ سول و ملٹری ادارے متاثرین کی بحالی کے لئے سر انجام دے رہے ہیں. آرمی چیف نے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تاہم انہوں نے تمام اداروں کو تاکید کی کہ سیلاب کے متاثرین کی مدد کے علاوہ بحالی کی کوششوں کو تیز کیا جائے تاکہ آمدورفت کے زرائع کو جلد از جلد بحال کیا جاسکے اور عوام کے نقصان کا بروقت ازالہ بھی ممکن بنایا جاسکے.
آرمی چیف نے دورہ کے دوران مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سڑکوں اور پلوں کو بہت نقصان پہنچا ہے جن کی بحالی پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے گا تاکہ آمدورفت کو یقینی بنایا جائے. ان کے مطابق نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے فوج، صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کا مشترکہ نظام تشکیل دیا جائے گا. انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سوات میں زیادہ نقصان ان عمارتوں کی وجہ سے سامنے آیا جو کہ تجاوزات پر بنائی گئی تھیں. انہوں نے اپنی بات چیت میں کہا کہ 2010 کے سیلاب نے جن عمارتوں کو نقصان پہنچایا تھا بعد میں ان مقامات پر پھر سے تعمیراتی کام کی اجازت دی گئی. جن افسران یا اداروں نے ایسا کرنے کی اجازت دی ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے. ان کی اس بات اور نشاندہی کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسی رویہ کی وجہ سے نہ صرف ایک بار پھر سوات سمیت متعدد دوسرے علاقوں کو بدترین مالی، جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اربوں کا سرمایہ بھی ڈوب گیا اور انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا. جن اداروں یا افراد نے اس ضمن میں بوجوہ غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے ان کے خلاف صوبائی حکومت کو بلا تاخیر تحقیقات کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے اس قسم کی تباہی اور نقصان سے بچا جاسکے. اس سے قبل وزیراعلیٰ کےپی بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ تجاوزات اور ممنوعہ جگہوں پر سوات میں عمارتیں بنائی گئی جس سے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی. تاہم انہوں نے یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کی کہ یہ سب کچھ ان کی حکومت سے قبل ہوا تھا. اب جبکہ آرمی چیف نے بھی ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی بات کی ہے اس لیے وزیر اعلیٰ کو وقت ضائع کئے بغیر تحقیقات کا حکم دینا چاہیئے تاکہ ان مافیاز پر ہاتھ ڈالا جاسکے جو کہ اس نوعیت کے جرم میں ملوث ہیں. ایک تجویز یہ بھی دی جاسکتی ہےکہ اسسمننٹ کے لیے جو مشترکہ ٹیم بنے گی یہ تحقیقات اس کے دائرہ کار اور مینڈیٹ میں شامل کی جائیں کیونکہ عسکری حکام کسی ممکنہ دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے اور اب تو اس کام اور ایشو میں آرمی چیف کی خواہش بھی شامل ہوگئی ہے.
اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ بعض سڑکیں اور بائے پاسز ان مقامات پر کیوں تعمیر کی گئیں جو کہ بلکل دریائے سوات اور دیگر کے کناروں پر واقع تھے اور سیلاب کے باعث دریا برد ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچا اور عوام کو تکلیف کا سامنا پڑا. اگر ان مسائل کا اعلیٰ سطحی نوٹس نہیں لیا گیا تو اس قسم کی صورتحال بار بار دیکھنے کو ملتی رہے گی.
یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ سیلاب سے نمٹنے میں متعلقہ ملٹری اور سول اداروں سمیت سیاسی جماعتوں، فلاحی اداروں اور سب سے بڑھ کر عام لوگوں نے قومی یکجہتی کا بہترین مظاہرہ کرکے نہ صرف متاثرین کی بروقت مدد کی بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود جب بھی کوئی مصیبت اور آفت آتی ہے ہم متحد ہو کر مقابلہ کرنے نکل آتے ہیں تاہم اس بات کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے کہ کوتاہیوں کا نوٹس لیکر اس امر کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے کہ سیلاب کے اسباب اور مستقبل میں اس سے بچنے کے امکانات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے.