پاک فضائیہ کی سیلاب سے متعلق بحالی اور امدادی کارروائیاں جاری

سربراہ پاک فضائیہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی خصوصی ہدایات پر پی اے ایف بیسز اور ریجنل کمانڈز ریلیف اور بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ پاک فضائیہ کے اہلکار سیلاب زدگان کو خوراک، رہائش، پینے کا پانی اور طبی امداد کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ خاص طور پر پاک فضائیہ کی ایمرجنسی ریسپانس ٹیمیں سول انتظامیہ کے ساتھ خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علا قوں میں ڈینگی بخار بچاؤ کی مہم میں پیش پیش ہیں ۔

پاک فضائیہ نے سیلاب متاثرین کے لیے 4853 خیمے، 416221 فوڈ پیکجز، 3203.67 ٹن راشن اور 242,824 لیٹر ) پینے کا صاف پانی فراہم کیا ہے۔ مزید یہ کہ پاک فضائیہ نے 45 میڈیکل کیمپ قائم کیے ہیں جہاں اب تک 58353 مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ 19807 افراد کی رہائش کے لیے 20 ٹینٹ سیٹز اور 54 ریلیف کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں۔ پاک فضائیہ نے 257 پروازوں کے ذریعے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 1521 افراد کو محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا گیا۔

dengue report kp

ڈینگی صورتحال، آئسولیشن وارڈز قائم

پشاور : ضلع مردان اور خیبر میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر آئسولیشن وارڈز قائم کردیا گیا ہے۔ ضلع مردان کے مختلف مراکز صحت میں 150 بستروں پر مشتمل آئسولیشن وارڈز قائم کردیے گئے ہیں ۔ ترجمان محکمہ صحت کت مطابق  ضلع مردان کے دو تحصیل تخت بھائی اور بابوزئی ڈینگی سے زیادہ متاثرہ ہیں۔

 تحصیل و ضلع ہیڈکوارٹرہسپتالوں سمیت مردان میڈیکل کمپلیکس میں 20 بستروں پر مشتمل تین ڈینگی مخصوص وارڈز قائم کیئے گئے ہیں اور ضلع خیبر میں بھی 50 بستروں پر مشتمل ڈینگی آئسولیشن وارڈز قائم  یہ وارڈز ٹائپ ڈی جمرود، ڈوگرہ اور ڈی ایچ کیو لنڈی کوتل میں قائم کئے گیے۔

بڈھ بیر میں مدرسے کی معلمہ قتل کیس،قاتل بہنوئی نکلا

بڈھ بیر میں مدرسے کی معلمہ کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا، قتل میں اس کا بہنوئی ملوث نکلا جسے پولیس نے گرفتار کرلیا، پولیس نے ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے جس نے رشتہ کے تنازعہ پر لڑکی کو قتل کیا۔ واقعات کے مطابق تھانہ بڈھ بیر پولیس کو چند روز قبل اسرار نامی شخص نے اپنی بیٹی مسما ة(س)عمر 23/24 سال کی مبینہ گمشدگی کی رپورٹ کی تھی،متوفیہ مدرسہ میں پڑھاتی تھی جو مدرسے جانے کے بعد لاپتہ ہوگئی تھی اورتین روز بعد جمعے کی صبح اس کی مسخ شدہ نعش برساتی نالے سے برآمد کی گئی تھی ۔لواحقین نے نعش کے قریب سے ملے برقعہ سے لڑکی کی شناخت کی تھی۔

 خاتون کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو اس کا اپنا بہنوئی ہے ، ملزم کی خواہش تھی کہ متوفیہ اس کے بھائی کے ساتھ شادی کرے تاہم وہ انکاری تھی جس پر مبینہ طو رپر اس کی جان لی گئی ۔ گرفتاری کے بعد ملزم کا آج جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے مزید تفتیش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ واقعہ کے خلاف لواحقین اور مقامی افراد نے کوہاٹ روڈ پر احتجاج بھی کیا تھا اورملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔

سیاسی کشیدگی میں اداروں کو گھسیٹنے کی کوششیں

عقیل یوسفزئی

یہ بات نہ صرف قابل تشویش بلکہ قابل اعتراض بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان سیاسی مخالفت میں دلائل کی بجائے سر عام انتہائی سطحی اور کھبی کبھار بداخلاقی کے زمرے میں آنیوالی زبان استعمال کررہے ہیں. اس رویے کے باعث معاشرے میں تلخی اور کشیدگی کا جو ماحول فروغ پا چکا ہے اس کے مستقبل میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے تاہم قائدین کو ان اثرات کا ادراک نہیں ہورہا جو اور بھی خطرناک بات ہے۔

سیاست میں ذاتیات نہیں ہوتیں بلکہ ایشوز کی بنیاد پر اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر مخالفت کی جاتی ہے تاہم چند برسوں سے پاکستان میں ذاتیات کی بنیاد پر سیاست چلنے لگی ہے. مثال کے طور پر ہفتہ رفتہ کے دوران تین اہم پارٹیوں کے قائدین نے ایکدوسرے کے نام لیکر جو القابات دیے وہ قابل تشویش ہے. چارسدہ میں عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران مولانا فضل الرحمن اور ایمل ولی خان کو ایسے ناموں سے پکارا جن کو ضبط تحریر میں لانا بھی بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے. اس کے جواب میں مولانا فضل الرحمن اور ایمل ولی خان نے جو لہجہ استعمال کیا اور ایک نے عمران خان کو جس نام سے تشبیہ دی وہ بھی لکھا نہیں جاسکتا. اس سے قبل ایمل ولی خان نے ایک تقریر میں عمران خان کے دورہ چارسدہ کے اعلان پر جو کلمات ادا کئیے وہ بھی ناقابل بیان ہے. بات یہیں پر ختم ہوتی تو شاید نظر انداز کی جاسکتی تحریک انصاف کے بعض مقررین نے چارسدہ کے جلسے میں باچا خان جیسی شخصیت پر بھی رائے زنی کرکے ان کو نہ صرف پاکستان مخالف قرار دیا بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا حالانکہ اس صوبے کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں بزرگوں اور مرحومین سے متعلق یا تو اچھے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں یا بات ہی نہیں کی جاتی. یہ بداحتیاطی ایک ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران بار بار کی جاتی رہی ہے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان صاحب چارسدہ کے جلسے میں اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی، سیلاب زدگان کی امداد اور دوسرے اقدامات پر بات کرتے اور جواب میں ایمل ولی خان ایک مخالف امیدوار کے طور پر اپنی پارٹی اور اس کی سابقہ حکومت کی کارکردگی اور منشور پر بحث کرتے. مگر یہاں الزامات اور بدکلامی کا میچ چلتا رہا اور اس میچ میں کارکن بھی کود پڑے جنھوں نے ایک دوسرے کو عجیب و غریب قسم کے ناموں اور القابات سے نوازا۔

اس تمام صورتحال کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ عمران خان سمیت متعدد دوسرے لیڈر بعض اہم قومی اداروں کو بھی مشکوک اور متنازعہ بنانے کی مسلسل کوشش کرتے نظر آتے ہیں جس سے نہ صرف ان اداروں کی ساکھ اور مورال جیسی چیزیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ کشیدگی میں مزید اضافہ کا راستہ بھی ہموار ہوتا ہے اور اس کے اثرات پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر سوات میں منعقدہ بعض احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض عناصر نے پاک فوج کے خلاف غیر ضروری نعرے لگائے حالانکہ سوات سیلاب اور حالیہ بدامنی کے دوران آرمی چیف اور کورکمانڈر پشاور سمیت تمام فوجی اداروں کی دلچسپی اور کارکردگی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر رہی ہیں اور عوام اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں. دوسری جانب امن و امان کی زمہ داری بھی سول انتظامیہ کے زمرے میں آتی ہے مگر بعض لوگوں نے اس کے باوجود فوج کو اس میں کھینچنے کی کوشش کی کہ کورکمانڈر خود سوات گئے اور وہاں ایک جرگہ سے خطاب کے دوران انہوں نے سیکورٹی کے لئے تمام درکار اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی۔
اسی طرح نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی روٹین کی کارروائی کو بھی غیر ضروری طور پر اچھالنے کی کوشش کرتے ہوئے متنازعہ بنانے کی مہم چلائی گئی اور اس کام میں قومی میڈیا نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا حالانکہ ملک کو سیلاب کے بدترین اثرات اور معاشی بحران جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے تھا۔