ڈی آئی خان: فورسز، پولیس، سی ٹی ڈی مشترکہ آپریشن، 4 دہشتگرد ہلاک
کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ ، پولیس، سیکورٹی فورسز اور حساس اداروں کا کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان میں مشترکہ آپریشن۔ تخریب کاری کا بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ فائرنگ اور آئی ای ڈی بلاسٹ سے 04 دہشتگرد ہلاک، بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کرلیا گیا۔
تفصیلات:-
ڈیرہ_ٹاون کی حدود مڈی کے علاقے میں اہم اور کامیاب کاروائی عمل میں لائی گئی.
تھانہ کلاچی کی حدود مڈی کے علاقے میں پولیس، سی ٹی ڈی اور سیکورٹیفورسز کا دہشتگردوں کیساتھ مقابلہ ہوا، جہاں دہشتگردوں نے پولیس اور سیکورٹی فورسز پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی فائرنگ اور آئی ای ڈی بلاسٹ سے مجموعی طور پر 04 دہشتگرد موقع پر ہلاک ہو گئے۔
دہشتگرد پولیس فورس پر حملوں اور دیگر کئی تخریبی کارروائیوں میں ملوث تھے، ہلاک دہشتگرد تخریب کاری کا بڑا منصوبہ بنا رہے تھے جس کو ناکام بنا دیا گیا، حملہ آوروں کی ہلاکت کے بعد بی ڈی ایس ٹیم نے بارودی اور دیگر ہتھیار جن میں 05 عدد ایس ایم جی، 07 عدد #ہینڈ_گرنیڈ، میگزینز،موبائل فون، موٹر سائیکل سمیت روزمرہ زندگی کا دیگر سامان اور اشیاء خوردونوش برآمد کر لیں۔
پولیس اور سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کرسرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
اپر دیر: وزیراعلیٰ نے کیڈٹ کالج، گرلز کالجز کا سنگ بنیاد رکھ دیا
آپر دیر: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا ضلع اپر دیر میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد اورافتتاح۔ وزیر اعلیٰ نے آج اپر دیر کے دورے کے دوران 514 کنال اراضی پر محیط کیڈٹ کالج کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔
وزیراعلیٰ کو ایک بریفننگ میں بتایا گیا کہ 3.62 ارب روپے لاگت سے بننے والے کیڈٹ کالج میں 600 طلباء تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
وزیر اعلیٰ نے ضلع اپر دیر میں گرلز ڈگری کالج لرجم اور گرلز ڈگری کالج واری کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔
وزیر اعلیٰ محمود خان نے اس موقع پر کہا کہ خواتین کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہمارے منشور کا اہم حصہ ہے۔
وزیر اعلیٰ نے 7.4 ارب روپے لاگت سے 44 کلومیٹر پتراک تا کمراٹ روڈ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ ان کو بتایا گیا کہ7 مختلف مقامات پر رابطہ سڑکوں اور آر سی سی پلوں پر تعمیراتی کام کا آغاز اگلے ہفتے کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے 4.4 کروڑ روپے لاگت سے مکمل ہونے والی ریسکیو 1122 بلڈنگ کا افتتاح بھی کیا۔
ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اظہرکا آئیڈیاز دفاعی نمائش کادورہ
ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اظہر وقاص نے آئیڈیاز دفاعی نمائش دو ہزار بائیس میں لگے مختلف اسٹالز کا دورہ کیا
ڈی جی رینجرز سندھ نے آئیڈیاز نمائش میں بکتر بند گاڑیوں کا جائزہ لیا۔
ڈی جی رینجرز نے جدید ڈرونز سمیت گنز بھی چیک کی۔
اس دوران اسٹال پر موجود اسٹاف نے ڈی جی رینجرز (سندھ) میجر جنرل اظہر وقاص کو بریفنگ دی
لنڈی کوتل: طلباء کے لئے تقسیم انعامات تقریب منعقد
لنڈی کوتل تحصیل کمپاؤنڈ جرگہ ہال میں ال سرکاری سکولز کے سالانہ امتحانات میں پوزیشن ہولڈرز طلباء کے لئے تقسیم انعامات تقریب منعقد ہوئی.
تقریب میں مہمان خصوصی 107ونگ کے کمانڈر لیفٹنٹ کرنل حسن شبیر. اور پرنسپل حاجی بہادر شینواری نے پوزیشن ہولڈرز طلباء میں انعامات تقسیم کئے.
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کشیدگی سے صوبائی معاملات متاثر
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کشیدگی سے صوبائی معاملات متاثر
عقیل یوسفزئی
وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان نے وفاقی حکومت پر پھر سے متعصبانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تک صوبے کو پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں ایک پیسہ نہیں دیا گیا. ان کے مطابق اس سے قبل وفاقی حکومت نے ترقیاتی پروگرام سے پختون خوا کے متعدد منصوبے نکالے جبکہ ان کے بقول ضم شدہ اضلاع کے فنڈز بھی جاری نہیں کئے جارہے تاکہ صوبے کو اقتصادی بدحالی سے دوچار کیا جائے.
دوسری طرف صوبے کی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نہ صرف یہ کہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہے بلکہ اس حکومت نے اوور ڈرافٹنگ سمیت ریکارڈ قرضے لے رکھے ہیں اور یہ کہ صوبہ ڈیفالٹ کی صورتحال سے دوچار ہے.
کون درست اور کون غلط کہہ رہا ہے اس پر بحث کی بجائے تلخ حقیقت یہ ہے کہ صوبے کو واقعتاً معاشی اور انتظامی مسائل کا سامنا ہے اور اس جنگ زدہ صوبے کو دونوں حکومتوں نے اس بحران اور چیلنجز سے نکالنا ہے. ایسا کرنا اس حوالے سے بھی لازمی ہے کہ حال ہی میں صوبے کے متعدد اضلاع سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہوئے ہیں اور عوام کو کوئی بھی یہ نہیں بتا رہا کہ نقصان کتنا ہوا ہے اور تعمیر نو کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے.
دوسری طرف اس بات سے بھی دونوں حکومتیں لاتعلق دکھائی دے رہی ہیں کہ پسماندگی سے دوچار جنگ ذدہ قبائلی علاقوں کی انفراسٹرکچر اور تعمیر نو کی ذمہ داریاں کون پورے کرےگا. یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں بے چینی پھر سے پھیلنا شروع ہوگئی ہے اور اوپر سے امن و امان کی صورتحال پر بھی عوام کی جانب سے نہ صرف سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر عوام پرامن احتجاج بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں. فاٹا انضمام کے حق میں جو پارٹیاں پیش پیش تھیں ان میں ن لیگ اور تحریک انصاف سرفہرت تھیں. چونکہ ان میں ایک مرکز اور دوسری صوبے میں برسر اقتدار ہیں اس لیے اقتصادی اور انتظامی امور کو باہمی مشاورت اور تعاون سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی انہی پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے.
پختون خوا خصوصاً قبائلی علاقوں اور ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے امن کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اب ان علاقوں میں پھر سے اگر بے چینی اور عدم تحفظ کا تاثر بنتا ہے تو اس کا فوری نوٹس اس لیے لینا چاہیے کہ ان علاقوں کے امن اور استحکام سے پورے ملک کا استحکام جڑا ہوا ہے.
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے سیاسی اختلافات اگر جنگ زدہ صوبے پر اثر انداز ہورہے ہیں اور دونوں پارٹیوں کے صوبائی قایدین سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صوبے کے اجتماعی مفادات کو داو پر لگارہے ہیں تو یہ بہت بڑی ذیادتی کے علاوہ ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے والا رویہ بھی ہے کیونکہ یہ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن صوبہ رہا ہے بلکہ درپیش چیلنجز کے تناظر میں بھی یہ ایک خطرناک طرزِ عمل ثابت ہوسکتا ہے.
وزیر اعلیٰ نے کچھ عرصہ قبل ان معاملات پر کے پی اسمبلی کے پارلیمانی نمایندوں کے ساتھ جو میٹنگ کی تھی وہ ایک درست اقدام تھا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے حقوق کے تحفظ کیلئے آگے بڑھا جائے اور سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت کا ماحول بنایا جائے. اس ضمن میں پہل صوبائی حکومت نے کرنی ہے تاہم پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں کیونکہ یہ پارٹیاں وفاقی حکومت میں شامل ہیں.