شرم الشیخ کے سیاحتی شہر میں منعقدہ بین الاقوامی موسمیاتی مذاکرات کا 27 واں سیشن ایک طے شدہ وقت پر ملے جلے نتائج کی نمائندگی کرتا ہوا اختتام پزیر ہوا – اس اجلاس میں جہاں موسمی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان پر ایک پیش رفت ہوئی وہیں ان تبدیلیوں کے اثرات کی تخفیف اور موافقت پر عالمی ماہرین کی جانب سے آگے بڑھنے پر گریز نظر آیا۔
گفت و شنید کا نتیجہ اس متضاد، ہنگامہ خیز لیکن طاقتور دور کی عکاسی کرتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کے نتائج اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ مروجہ عالمی مالیاتی و تجارتی ڈھانچے میں گہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو دنیا کی موجودہ معیشت اور معاشروں کو برقرار رکھتی ہیں، ان گہرے تقسیموں کو اجاگر کرتی ہیں جو ہمیں دکھاتی ہیں کہ ہم ابھی بھی اپنے لیے ایک محفوظ مستقبل کی تعمیر کے مقاصد سے کتنے دور ہیں۔ اس صورتحال کی بہت ساری وجوہات ہیں جیسا کہ جیو پولیٹیکل ایجنڈے کا ہر ملک سے اولین ترجیح بن جانا۔
سال کے اختتام پر ہونے والی بات چیت ایک فیصلہ کن لمحہ ہے جہاں ہر جگہ شہری اور سول سوسائٹی حکومت اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے موسمیاتی کارروائی میں پیش رفت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سی او پی 27 مذاکرات ایک شاندار سلسلہ ہےجو کہ عالمی رہنماؤں کو یہ سو چنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ منسلک بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر عالمی ردعمل کے کلیدی حصے کے طور پر کس طرح موسمیاتی ایجنڈے کو دوبارہ ترتیب دینا چاہتے ہیں۔
اس سال سی او پی 27 اجلاس دنیا بھر میں محسوس کیے جانے والے بڑھتے ہوئے موسمیاتی اثرات پر روشنی ڈالنے میں کامیاب رہا، جس سے موسمیاتی مالیات کو بڑھانے، اخراج کو کم کرنے، موسمی تبدیلیوں سے موافقت پیدا کرنے اور نقصان کو دور کرنے کے لیے ایک مناسب ڈیلیوری میکانزم کی ضرورت ہے۔ اور یہ کوئی آسان کام ہرگز نہیں ہے۔
تمام تر مشکلات کے باوجود اس سال کے سی او پی اجلاس میں اور نقصان کے لیے ایک نیا فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے جو کہ نہایت خوش کن بات ہے۔ اسی طرح تمام شریک ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا ہےوہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں آب و ہوا کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔ گو ایک ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدرارک کے لیے فنڈ تو قائم ہو گیا ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ اس فنڈ میں کون کتنا حصہ ڈالتا ہے۔ اصولا” تو ترقی یافتہ ممالک جہاں سے موسمی تبدیلیوں کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی گیسیں پیدا ہوتی ہیں وہ اس فنڈ میں بڑا حصہ دیں تاکہ ترقی پذیر ممالک کی موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی میں مدد کی جاسکے
چیلنجنگ جیو پولیٹیکل پس منظر بہت سے عالمی ماہرین کے ذہن تھا جو موسمیاتی اثرات، قرض کی پریشانی اور بغیر کسی پسپائی کے آب و ہوا کے وعدوں کو پورا کرنے کی اہمیت سے پیدا ہونے والے بیک وقت چیلنجوں کے لیے تشویش کی عکاسی کرتا نظر آیا کیونکہ ان ماہرین کے بقول کوئی ایک بڑا عالمی حادثہ یا واقعہ ماحولیاتی بہبود کی عالمی کاوشوں کو یکسر ختم کر کے رکھ دے گا۔
شہ سرخیوں پر قبضہ کرنے والے چند وعدوں کو چھوڑ کر لیڈرز سمٹ ایک ‘عملی سی او پی’ کے وعدے پر پورا نہیں اترا۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے اس بات کے بہت کم ثبوت تھے کہ انہوں نے اپنے آب و ہوا کے وعدوں پر قابل اعتماد فراہمی کا مظاہرہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کاوش کی ۔
مالیات کے بارے میں اعلانات کی کمی نے تبدیلی کے قابل بنانے والے کے طور پر ایک ایسی وژن کہانی کی امیدوں کو کم کر دیا ہے جو خلا کو ختم کر سکتا ہے اور نئے اجتماعی کوانٹیفائیڈ گول کو سیاسی توانائی سے متاثر کر سکتا ہے۔ پرائیویٹ فنانس نے ضرورت کے مقابلے میں اقدامات اور عوامی مالیاتی وعدوں کے ایک مربوط پیکج میں کمی نہیں کی۔
اس سال دنیا کے سب سے بڑے اخراج کرنے والے اور جغرافیائی سیاسی طاقتوں میں سے ایک کے رہنما کے طور پر، صدر بائیڈن کی موجودگی نے دنیا کے ساتھ امریکہ کے موسمیاتی وعدوں کو ظاہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر وسط مدتی کے تناظر میں۔ موافقت فنانس اور بین الاقوامی انرجی ٹرانزیشن فنانس سے متعلق وعدوں نے رفتار میں ایک چھوٹا سا جھٹکا دیا لیکن بہت سے لوگوں نے ان اعلانات کو بہت کم اور بہت دیر سے دیکھتے ہوئے چھوڑ دیا کہ وہ اعتماد پیدا کرنے کے لیے درکار سیاسی جذبے کو انجیکشن لگا سکیں۔
اس اجلاس نے غیر ریاستی کارروائی کی مضبوط شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت کو تسلیم کیا لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ تمام وعدوں پر حقیقی عمل درآمد کی طرف کیسے جائے گا۔
پچھلے سی او پیز اور شرم الشیخ میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے تاکہ اس نازک دہائی میں ڈیلیوری کے ایک مرحلے میں آگے بڑھنے کے لیے رہنماؤں کی کالوں کو عملی شکل دی جا سکے۔
پاکستان کی وزیر ماحولیات شیری رحمان نے گلوبل ساؤتھ کی وکالت میں اہم کردار ادا کیا اور ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اخلاقی دباؤ، سفارت کاری اور سیاسی تندہی کا استعمال کیا۔ پاکستان کے لیے چیلنج سی او پی کے وژن کو مقامی اکانومیٹرک کلائمیٹ پلاننگ میں ترجمہ کرنا اور مقامی کارروائی کے لیے قومی ایجنڈے کو دوبارہ ترتیب دینا ہوگا۔