3f345485-13f8-4847-8e57-6f7504893e41

پاراچنار: پاک افغان باڈرخرلاچی پر جنگ بندی کے بعد مزاکرات شروع

پاراچنار: ضلع کرم کے سرحدی علاقوں پاک افغان باڈرخرلاچی پر جنگ بندی کے بعد مزاکرات شروع .
کمشنر کوہاٹ ڈویژن محمود اسلم، ڈپٹی کمشنر کرم واصل خان خٹک، برگیڈئیر شہزاد عظیم اور دیگر فورسسز کے مشران عمائدین جرگہ کے ہمراہ افغانستان حکام اور افغان باشندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کر دئیے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی علاقے پر افغانوں کے قبضے کی کوشش پر قبائل اور افغانيوں کے مابين شروع ہونے والی جھڑپيں بند ہوگئی ہيں ۔ دوطرفہ فائرنگ میں فورسز کا ایک نوجوان شہید اور نو اہلکاروں سمیت اکیس 21 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔سرحد کے دونوں جانب نقل مکانی جاری ہے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع کرم واصل خان کے مطابق ضلع کرم میں افغان سرحد پر آج صبح تک فائرنگ کا تبادلہ وقفے وقفے سے جاری رہا اور افغان سرحد پر افغان حکام کے ساتھ بات چیت کے زریعے مسئلے کے حل کی کوشش کی جائيگی۔

کمشنر کوہاٹ اسلم محمودبریگڈئیر شہزاد اعظیم اور قبائیلی عمائیدن کا جرگہ جاری ہے آج اس حوالے سے فلیگ مٹینگ بھی طلب کر لی گئی ہے قبائلی راہنما عنائت طوری کا کہنا ہے کہ تین روز شدید فائرنگ کے باعث سرحد کے دونوں جانب لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر دی ہے۔خصوصا بچوں اور خواتین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔گذشتہ رات افغانستان سے فورسز کی چوکی پر بھی مارٹر توپوں سے حملہ کیا گیا اور آبادی کو بھی نشانہ بنایا گیا جس میں فورسز کا ایک اہلکار شہید جبکہ نو زخمی ہو گئے۔مختلف مقامات پر ایک خاتون سمیت تین سویلین بھی زخمی ہو گئے ہیں جبکہ افغان میڈیا کے مطابق نو افغان بھی زخمی ہوئے ہیں۔ سرحدی چوکی پر حملے اور شہری آبادی کو نشانہ بنانے پر فورسز نے بھی حملہ آوروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا

امن و امان کی ذمہ داری کس کی؟

امن و امان کی ذمہ داری کس کی؟

عقیل یوسفزئی

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی نااہلی کے باعث صوبہ خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہوگئی ہے اور یہ کہ صوبے کو فنڈز فراہم نہیں کئے جارہے. انہوں نے کہا ہے کہ جب سے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے حملوں کی تعداد میں 52 فی صد اضافہ ہوگیا ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون خوا میں حملوں کی تعداد بوجوہ بڑھ گئی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے چاہیں تاہم ان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امن و امان کی بحالی پراونشل سبجیکٹ ہے وفاقی نہیں. اس سے قبل جب سوات میں بدترین حملے شروع ہونے لگے تو ان کی صوبائی حکومت نہ صرف اس سے لاتعلق رہی بلکہ متعدد اہم لیڈروں نے سر عام الزامات لگائے کہ یہ سب کچھ بعض اہم اداروں کی پلاننگ کا حصہ ہے. ان کے بعض لیڈروں نے فوج پر سنگین الزامات عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا. اور ایسے الزامات ان کے سربراہ عمران خان نے بھی لگائے.
اگر فوجی قیادت نے عوام کے مطالبے پر فوری ایکشن نہیں لیا ہوتا اور کور کمانڈر سمیت دیگر اعلیٰ حکام ذاتی طور پر دلچسپی نہیں لیتے تو سوات سمیت متعدد دوسرے علاقوں میں بھی مسلسل حملے شروع ہوجاتے اور ان کی حکومت بلیم گیم کھیل رہی ہوتی.
اس وقت بھی زیادہ تر معاملات فوجی حکام کی ہدایات، تعاون اور مسلسل مانیٹرنگ ہی کی بدولت ڈیل کیے جارہے ہیں.
پیراملٹری فورسز نے متاثرہ علاقوں میں سرچ اینڈ سٹرائک آپریشنز اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ کسی کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع نہ ملے.
ایک معتبر تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے تب سے اب تک کے ایک سال کے عرصے میں پاکستان کو 250 بار مختلف حملوں کا نشانہ بنایا گیا. ان میں 160 حملے خیبر پختون خوا پر کرائے گئے. اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبے کو سنگین خطرات لاحق ہیں تاہم دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ رواں سال تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ ایک بار بھی امن و امان کا جائزہ لینے کسی قبائلی ضلع میں نہیں گئے. اس سے ان کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
جہاں تک صوبے کو وفاق کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کا تعلق ہے اگر یہ الزام درست ہے تو اس کا نوٹس لینا چاہیئے کیونکہ خیبر پختون خوا دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن صوبہ ہے اور اگر یہاں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس سے پورا ملک متاثر ہوگا تاہم فنڈز کی فراہمی سے ذیادہ اہم بات صوبائی حکومت کی دلچسپی اور سنجیدگی ہے جو کہ بوجوہ ہمیں اُس طرح نظر نہیں آتی جیسی کہ دکھائی دینی چاہیے.

51dddc62-ff29-43be-b42e-1a6d4152775e

بلدیاتی نمائندوں کاخیبر پختونخوا حکومت کے خلاف احتجاج

میرانشاہ:  شمالی وزیرستان کے منتخب بلدیاتی نمائندوں ، ویلیج و نیبر ہوڈ کونسلوں کے چیئر مینوں نے خیبر پختونخوا حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر مزید تاخیر کئے بغیر بلدیاتی نمائندوں اور چئیر مینوں کو فندذ جاری  کرے تاکہ یہ لوگ اپنی عوام اور علاقے کی خدمت شروع کر سکیں ۔ یہ مطالبہ گزشتہ روز ویلیج کونسل خدی کے منتخب چئیر مین ملک کمال شاہ داوڑ کے حجرے میں منعقدہ ایک اجلاس کے بعد سامنے ایا جس میں میرعلی ، میرانشاہ اور رزمک سب ڈویژنز کے تمام کونسلروں ، ویلیج اور نیبر ہوڈ کے منتخب چیئر مینوں نے بھرپور شرکت کی ۔

اجلاس میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے یکساں شرکت کی ۔ اجلاس کے بعد ملک کمال شاہ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ بلدیاتی انتخابات ہوئے دس ماہ گزر گئے ہیں لیکن منتخب بلدیا تی نمائندے ابھی تک بیکار بیٹھے ہوئے ہیں اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے ابھی تک نہ تو انہیں اختیارات منتقل کئے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے فنڈز جاری کئے ہیں جو کہ تحریک انصاف کے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے اپنے ہی وعدے کی نفی ہے۔  انہوں نے واضح کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر اندر ان کے مطالبات کو عملی شکل نہ دی گئی تو شمالی و جنوبی وزیرستان کے تمام بلدیا تی نمائندے پشاور میں احتجاج کا پروگرام بنائینگے ۔

 لنڈی کوتل :ضلع خیبر لنڈیکوتل تحصیل کمپاؤنڈ میں بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے چئیرمین کونسلرز. نے صوبائی حکومت کی طرف سے فنڈز اور دیگر اختیارات نہ ملنے پر احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

لنڈی کوتل تحصیل کمپاؤنڈ میں بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے چئیرمین کونسلرز کی احتجاجی ریلی ٹی ایم دفتر سے شروع ہوکر لیویز سنٹر گیٹ تک گئی اور صوبائی حکومت کے خلاف شدید نعرہ بازی کی گئی.

احتجاجی ریلی کے شرکاء سے لنڈی کوتل تحصیل کے چیئرمین شاہ خالد شینواری اور دیگر مشران نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک صوبائی حکومت کی طرف سے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے چئیرمین کونسلرز کو نہ فنڈز مل سکی نہ دفتر اور نہ ہی کسی قسم کے اختیارات ملے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق بلدیاتی نظام کو بحال کیا جائے اور تحصیل کی سطح پر چئرمین اور دیگر کونسلرز کو اختیارات اور فنڈز اور دفتر اور مراعات فراہم کی جائیں تاکہ علاقے میں ترقیاتی منصوبوں اور دیگر کام کے لئے عوام کی بہتر خدمت کی جاسکے. تحصیل چیئرمین شاہ خالد شینواری نے کہا کہ 24 نومبر کو تمام چیرمین اورکونسلرز اور دیگر مکاتب فکر کے لوگ صوبائی حکومت کے خلاف پشاور میں احتجاجی دھرنا دیں گے جوکہ مطالبات تسلیم ہونے تک جاری رہے گا. لنڈی کوتل چئرمین اور کونسلرز کے احتجاجی ریلی میں جماعت اسلامی کے سینئر رہنماء سید مقتدر شاہ آفریدی. زرنور آفریدی مرادحسین آفریدی اور دیگر مشران اور عوام بھی موجود تھے. لنڈی کوتل تحصیل کے چئیرمین شاہ خالد شینواری اور دیگر چئیرمین اور کونسلرز نے اپنے مطالبات اور یاداشت اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل ارشاد علی مہمند کو پیش کیَ۔

315855232_3249487411984412_1867626383774676081_n

افغانستان کی جانب سے کرم بارڈر کی خلاف ورزی قابل مذمت ہےوفاقی وزیر ساجد حسین

وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز اور ترقی انسانی وسائل ساجد حسین طوری نے افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خرلاچی اور بوڑکی کے مقام پر کرم بارڈر کی مسلسل خلاف ورزی، جارحيت اورشہری آبادی کو نشانہ بنانے کی شديد مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کيا ہے۔انہوں نے اپنے ردعمل ميں کہا ہے کہ کرم کی عوام اور پاک فوج اپنی سرزمين کی حفاظت اور کسی بھی جارحيت کا منہ توڑ جواب دينا اچھی طرح جانتے ہيں۔

ساجد حسين طوری نے کہا کہ جارحيت اور جنگ کسی مسئلے کا حل نہيں اور پاکستان ہميشہ افغانستان اور ديگر ہمسايہ ممالک کے ساتھ تمام مسائل بات چيت کے ذريعے حل کرنا چاہتا ہے اور اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان برادر ملک ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمام حل طلب مسائل سفارتی ذرائع اور بات چیت کے ذریعے حل ہوں۔
وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے کہا کہ سرحد کے دونوں پار رہنے والے لوگوں کے درمیان زمینی تنازعات کو دو طرفہ جرگہ اور سفارتی ذرائع کے ذریعے حل کیا جائے.

وزیرستان مصنوعی اعضاء فری میڈیکل کیمپ 24 نومبر سے

24 نومبر 2022 کو پاک آرمی کے زیر اہتمام سول ہسپتال بویا میں مصنوعی اعضاء (ہاتھ اورپاؤں) کا فری میڈیکل کیمپ لگایا جائے گا۔فی الوَقت اس میں 35 لوگوں کو فری علاج ملے گا ۔جس میں سے 20 لوگ پہلے ہی رجسٹر ہو گئے ہیں۔ باقی 15 لوگوں کیلئے جگہ موجودہےجس کیلئے 20 سے 23 نومبر تک رجسٹریشن ہوگی۔

پاک افغان چمن سرحد پر ہر قسم کی آمدورفت بحال

پاک افغان چمن سرحد کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے کھول دیا گیا، افغان سرحد کو دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے بعد کھولا گیا ہے۔

پاک افغان سرحد گزشتہ 8 دن بند رہی، پاک افغان سرحد کو 13 نومبر کو دہشت گردی کے واقعے کے بعد بند کردیا گیا تھا ۔

اس حملے میں ایک ایف سی اہلکار شہید اور 2 زخمی ہوئے تھے، جس کے بعد پاک افغان سرحد کو پاکستان کی جانب سے احتجاجا بند کر دیا گیا تھا ۔

سرحد پر پاک افغان ٹرانزٹ دوبارہ بحال ہوگئی، پاک افغان چمن سرحد کے کھولنے سے تاجروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔