گزشتہ رات لکی مروت میں دہشتگردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں شہید ہونے والے حوالدار چنگیز کی نماز جنازہ شہید کے آبائی علاقے جنوبی باغ آزاد کشمیر ادا کی گئی. گزشتہ روز لکی مروت خیبر پختونخوا میں دہشتگردوں کے حملے میں دو فوجی اہلکار، نائب صوبیدار قاسم اور حوالدار چنگیز جن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے، شہید ہوگئے تھے۔
نئے فوجی سربراہان کا اضافی تجربہ ، دہشت گردی اورفوج مخالف بیانیہ
نئے فوجی سربراہان کا اضافی تجربہ ، دہشت گردی اورفوج مخالف بیانیہ
عقیل یوسفزئی
جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد کی تعیناتیوں کے بعد جہاں بعض لیڈروں اور حلقوں کی خواہشات، کوششوں اور دعووں کو سخت دھچکہ لگا ہے اور اتحادی حکومت مضبوط ہوگئی ہے وہاں سیکورٹی کے بعض اہم معاملات اور فوج کے بارے میں ایک مخصوص پروپیگنڈا کے تناظر میں بھی بہت سی اہم تبدیلیاں بھی متوقع ہیں.
دونوں اہم عہدیداروں کی ایک اضافی خصوصیت ان کا وہ تجربہ بھی ہے جو کہ وار آن ٹیرر سے متعلق ہے اور دونوں نے ماضی میں اس سے وابستہ بہت سے اہم امور کو نہ صرف بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ متعدد معاملات کو ڈیل اور لیڈ بھی کیا ہے. جنرل عاصم منیر صاحب دوسرے اہم عہدوں کے علاوہ ماضی میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اس لحاظ سے وہ افغانستان، دہشت گردی اور قبائلی علاقوں کے معاملات کو بہت قریب سے جانتے ہیں اور اب جو صورتحال درپیش ہے ان سے نمٹنے میں ان کی دلچسپی غیر معمولی ہوگی.
وہ فوج کے بارے میں ہونے والے منفی پروپیگنڈا اور کی بورڈ واریررز کی سرگرمیوں پر بھی خاموش نہیں رہیں گے کیونکہ اس معاملے کا براہ راست تعلق ملکی سیاست سے نہیں بلکہ قومی سلامتی، پاکستان کے قومی بیانیہ اور سرحدی صورتحال سے ہے. جن دو اہم عہدوں پر وہ ماضی میں فائز رہ چکے ہیں اس تجربے کی بنیاد پر ان کا رویہ شاید کافی مختلف اور سخت واقع ہو.
ان کی طرح جنرل ساحر شمشاد صاحب کا کیرئیر بھی ماضی میں ان معاملات کے تناظر میں بہت اہم رہا ہے. وہ ملٹری آپریشنز کے انچارج کے علاوہ دوحہ پیس پراسیس اور مذاکراتی عمل کا نہ صرف حصہ رہے ہیں بلکہ بہت سے اہم امور وہ لیڈ بھی کرتے رہے ہیں. اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ بعض درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہونے والے اقدامات میں اب مزید تیزی واقع ہوگی اور پختون خوا، بلوچستان کے حوالے سے مذید متعدد اہم پالیسیوں کا اطلاق ہوگا.
دیکھا جائے تو اس وقت جو کمبینیشن بنا ہوا ہے وہ نہ صرف اتفاقاً وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے بلکہ جاری صورتحال کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل بھی ہے. امید کی جارہی ہے کہ آیندہ چند مہینوں میں قومی سلامتی اور بیانیہ سے متعلق بہت سی مزید مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی اور ان تبدیلیوں میں خیبر پختون خوا کے بعض اہم سیکیورٹی معاملات سرفہرست ہوں گے.
ہندتوا، بھارتی عزائم اور 26/11 کے واقعات
بھارت میں اس وقت دائیں بازو کے شدت پسند ہندتوا ء کی علم بردار بی جے پی /آر ایس ایس کی حکومت ہے جس کا واحد ایجنڈا بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا اور خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔ اولین الذکر کے سلسلے میں بھارت میں اس وقت انتہا پسند ہندوؤں کو دیگر اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں کی نسل کشی کی نہ صرف چھوٹ دی جارہی ہے بلکہ نوجوانوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ ثانی الذکر مقصد کے حصول میں پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا اسی وجہ سے پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدگی کا شکار رہےہیں۔ گذشتہ 75سالوں سے بھارت نے مختلف صورتوں میں پاکستان کے خلاف اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھیں۔ پاکستان کو ایک سازش اور کھلی جارحیت کے نتیجے میں دولخت کیا۔ بھارت پاکستان کے خاتمے تک اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
11/26 کو ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات بھی انہی بھارتی سازشوں کے سلسلے کی ہی ایک کڑی تھے۔ یہاں بھارت کے انتہا پسند برہمنوں انتہائی مکارانہ طریقے سے پاکستان کے خلاف ایک طویل نفسیاتی جنگ یعنی (Psy Ops) کاآغاز کیا۔ اس دن مصروف ترین چھتر پتی شیواجی ٹرمینس نامی ریلوے اسٹیشن، دو فائیو اسٹار ہوٹل جن میں مشہورِ زمانہ اوبرائے ٹرائیڈینٹ اور ممبئی گیٹ وے کے نزدیک واقع تاج محل پیلس اینڈ ٹاورز شامل ہیں، لیوپولڈ کیفے جو ، سیاحت کیلئے ایک معروف ریسٹورنٹ ہے، کاما ہسپتال، یہودیوں کے مرکز نریمان ہاؤس، میٹرو ایڈلبس مووی تھیٹر اور پولیس ہیڈ کوارٹرز پر دہشت گردانہ حملے ہوئے۔یہ حملے دس نوجوانوں نے کیے اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ حملوں میں 166 بھارتی شہری ہلاک اور تین سو زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کی ایک غیر معمولی انفرادیت یہ تھی کہ ابھی دہشت گردوں کے خلاف بھارتی پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی کارروائیاں جاری ہی تھیں کہ بھارتی میڈیا اور سیاسیت دانوں نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ کشمیر میں بھارتی قابض فوج کے خلاف کام کرنے والی پاکستانی جماعتوں جیسا کہ جیش محمد اور لشکر طیبیہ کو نشانہ بناتے ہوئے اس واقعے کے تانے بانے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ ملانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ پاکستان نے نہ صرف اس سارے پراپگنڈے کا یکسر مسترد کر دیا بلکہ بھارت کی جانب سے فراہم کیے گئے نام نہاد ڈوزئیر کے جواب میں خود بھارت سے جواب طلب کیے جن پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت کے اہم حکومتی عہدوں پر فائزہندتواکے انتہاپسندوں نے یہ سارا کھیل رچایا تھا۔
بھارتی صوبے مہاراشٹر کے سابق آئی جی ایس ایم اشرف نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ ممبئی کے واقعات میں ہیمنت کرکرے کو انتہا پسند ہندوﺅں نے ہی ہلاک کیا تھا۔ اس کتاب نے پورے بھارت میں ہلچل مچا دی اس کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ ممبئی حملوں سمیت بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ہندو برہمن ملوث ہیں سابق آئی جی نے اپنی کتاب کا نام (WHO KILLD KURKRAY) ”کرکرے کو کس نے قتل کیا“ رکھا ۔ اسی طرح جرمن مصنّف ایلس ڈیوڈسن کی ’’بھارت کی دھوکہ دہی، 26 نومبر کے ثبوتوں پر نظرثانی‘‘ نامی کتاب میں نہ صرف انکشافات کئے گئے ہیں بلکہ کتاب میں ممبی حملوں کے ثبوتوں اور شواہد کا تنقیدی جائزہ بھی لیاگیا ہے ۔اور اس میں واضح کہا گیا ہے کہ واقعہ سے متعلق بھارتی سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے منظرِ عام پر لائے جانے والے حقائق درست نہیں۔حال ہی میں معروف جرمن مصنف ایلس ڈیوڈسن کی تازہ کتاب کے مندرجات سے ممبئی حملے بھارت کی اپنی منصوبہ بندی اور اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اس کے گٹھ جوڑ کا راز عیاں ہو گیا۔ یہ کتاب پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت بخشتی ہے کہ ممبئی حملوں کا سارا معاملہ مشکوک ہے اور اس میں بھارت کے خود ملوث ہونے کے امکانات ہیں۔
اس صدی کی آغاز پر 9/11 کے بعد ایک بدلی ہوئی دنیا میں بھارت کو موقعہ ملا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ جنگ کو آگے بڑھائے۔ اس سلسلے میں بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشتگردی، مسلح شورش اور پاکستان افواج پر نہ ختم ہونے والے حملوں کا سلسلہ شروع کروایا اور ان سب کے لیے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں کو مسلسل افغانستان کی سرزمین پر مالی وسائل مہیا کیے۔ اور 11/26 کو بنیاد بنا کر پاکستان کو ہی ان تمام دہشت گرد کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ان حملوں کی بھارتی سرکار کی نگرانی میں ہونے والی تحقیقات پر عالمی مبصرین درجنوں سوال اٹھا چکے ہیں مگر آج تک ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا۔ الٹا بھارت نے اسی چال کو چلتے ہوئے 2019 میں کشمیر کے علاقے پلوامہ میں اپنے ہی فوجی مستقر پر ایک “دہشت گرد” حملہ کروایا اور پھر پاکستان پر حملہ کر دیا، مگر پاکستان کی جوابی کارروائی نے جلد ہی بھارت کو یہ بات ازبر کروا دی کہ بھارت کو اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کے استعمال کی بجائے پاکستان کے ساتھ ایک بامعنی بات چیت کے ذریعے کشمیر سمیت دیگر حل طلب مسائل کا حل نکالنا ہوگا تاکہ خطے میں امن و سلامتی پروان چڑھے اور اربوں لوگ سکھ کا سانس لے سکیں!
26/11: Busting Indian Propaganda War against Pakistan
In 2008, there was a terrorist attack in Mumbai. Eight locations in the Indian city of Mumbai were attacked. The attacks took place at the busiest Chhatrapati Shivaji Terminus railway station, two five-star hotels including the famous Oberoi Trident and Taj Mahal Palace and Towers near Mumbai Gateway, Leopold Cafe, a well-known tourist restaurant, Kama Hospital. , Jewish Center Nariman House, Metro Adelbos Movie Theater and Police Headquarters. The attacks were carried out by ten youths and continued for three days. 166 Indian citizens were killed and 300 injured in the attacks.
It was astonishing aspect of the entire 26/11 episode that Pakistan was blamed by Indian media and certain officials without any trial in court or investigations. In fact, Pakistan was blamed right in the middle of security operation. It is also strange that somehow the alleged terrorists were able to find time to converse with Indian media channels which was televised live.
Fact of the matter is that the entire 26/11 incident is shrouded in mysteries as Indian government / state hitherto has failed to answer some key questions that have been raised by many local and international analysts about the authenticity of Indian state version of this entire episode.
For example, SM Ashraf, the former IG of the Indian province of Maharashtra, revealed in his book that Hemant Karkare was killed by extremist Hindus in the Mumbai incidents. This book created a stir all over India. In this book, “Who Killed Karkare”, it is claimed that Hindu Brahmins are involved in terrorist incidents in India, including the Mumbai attacks where Karkare was eliminated.
This is a crucial aspect of 26/11 debate as Karkare was investigating the role of certain Indian military officer. Col Prohit, in various previous terrorist attacks inside India. It’s claimed that he had reached near to this evil nexus of Indian military establishment and Hindutva terror machine. His elimination served multiple purposes. Not only his death eliminated the imminent threat to Hindutva penetration in Indian military, but it also provide Indian elite to play a victim card and divert attention towards Pakistan.
Similarly, one German author Alice Davidson’s book titled “India’s Betrayal, Revisiting the Evidence of November 26” has not only made revelations, but the book has also critically evaluated the evidence and evidence of the Mumbai attacks. According to the author, the facts brought to light by the Indian security and intelligence agencies regarding the incident are not correct. The book by the well-known German author Alice Davidson show that the Mumbai attack was India’s own planning and its cooperation with Israel and the United States. The secret of the nexus was revealed. The book reinforces Pakistan’s position that the entire Mumbai attacks case is suspicious and that India itself is likely to be involved.
Indian security and intelligence agencies distorted the facts under the plan. The judicial proceedings regarding the Mumbai attack were also not impartial. Several important evidences and witnesses were ignored during the court proceedings. All three countries were involved in planning, directing and executing the attack. The aim of the attack was to benefit Hindu extremists, nationalists and security agencies and to spread the impression that India is a constant threat. Its aim was to increase India’s ties with countries engaged in the war against terrorism. Important information regarding the killing of Hemant Karkre and other police officers was kept secret. Statements of eyewitnesses who do not agree with the government’s position were not recorded. The statement of presence of Ajmal Kasab and other terrorists in Nariman House 2 days before the attack was also ignored. The statement of the shopkeepers is also not part of the record that all the terrorists were staying in Nariman House for 15 days. Many witnesses were trained before giving statements.
According to the German author, the Indian and Israeli governments fabricated evidence related to Nariman House and fabricated statements that the phone used by the terrorist facilitators was an American number. What actions did the military commandos take? Indian authorities have not informed anyone till date. According to Ajmal Kasab, he was arrested 20 days before the attack, later he changed his statement. The Indian government claimed that Ajmal Kasab wanted to blow up the entire Taj Hotel, but the 4 bombs of 8 kg received from Ajmal Kasab were not enough for the task.
The investigation into the November 26 attack proves five things. Indian government and institutions hid the facts related to the incident. Indian courts also failed to seek truth and deliver justice. By killing Karkre and other officers, fuel was provided to Hindu extremist circles. Not only India, but the businessmen, politicians and military circles of America and Israel benefited from the Mumbai attack. The Pakistani government or the Pakistan Army did not gain any benefit from the Mumbai attack. This was expressed by former Maharashtra ISM Musharraf here on the occasion of the release of German author Alice David Son’s English compilation Battle of India related to the 26/11 attacks. He said that why the IB did not inform the police department and other security agencies despite the notification of “RA” a week ago, this also raises suspicion. If it is believed that Lashkar-e-Taiba has planned, but the role of our agencies should also be investigated so that the truth comes out. Because the bullets recovered from Hemant Karkre’s body, the ballistics test revealed that they were not the weapons of Ismail or Ajmal Kasab. The gender role is highly questionable.