شمالی وزیرستان: تحصیل سپین وام میں فری میڈیکل کیمپ
میرانشاہ: شمالی وزیرستان کے میرعلی سب ڈویژن تحصیل سپین وام میں جنرل آفیسر کمانڈنگ سیون ڈویژن میجرجنرل محمد نعیم اختر کی ہدایت پر زیر نگرانی ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان اور کمانڈنٹ ٹوچی سکاوٹس بریگیڈیئر رضوان شریف فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں سینکڑوں مریضوں کا مفت چک اپ اور دوائی دی گئی.
مریضوں میں مرد ، خواتین آور بچے شامل ہیں فری میڈیکل کیمپ میں 18 ڈاکٹروں نے حصہ لیا جس میں مرد مریضوں کیلئے 11 مرد ڈاکٹرز اور خواتین مریضوں کیلئے 6 خواتین ڈاکٹرز موجود تھے.
قبائلی عمائدین ملکانان اور عوام نے جنرل آفیسر کمانڈنگ سیون ڈویژن میجرجنرل محمد نعیم اختر ، ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان اور کمانڈنٹ ٹوچی سکاوٹس بریگیڈیئر رضوان شریف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس قسم کے بڑے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد شمالی وزیرستان کے دوسرے علاقوں میں بھی قائم کئے جائیں تاکہ مہنگائی کے اس شدید دور میں غریب قبائلی عوام کی مریضوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکیں ۔
کیا پاکستانی طالبان ملک کی سالمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے؟
گزشتہ روز تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی ریاست کے ساتھ جو جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے اس کو باقاعدہ طور پر ختم کرکے اپنے اہلکاروں کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ وہ جہاں بھی اور جس وقت چاہے حملے کر سکتے ہیں۔ ابھی سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحریک طالبان کی تعداد کتنی ہے اور پاکستان کے لیے یہ کتنا بڑا خطرہ ہے؟ ان کے لیے کیا چیزیں مثبت اور کیا منفی ہیں؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جو لیڈرشپ ہے یہاں سے دو تین سال پہلے کا ضرب عضب آپریشن کے بعد ان کو مؤثر طریقے سے پاکستان سے نکالا گیا جس میں پاکستان آرمی اور ملک کا کافی نقصان بھی ہوا لیکن ان کو ملک سے باہر نکال کر انہوں نے افغانستان میں پناہ لے لی۔
اس کے بعد یہ افغانستان میں رہے اورافغان طالبان کے ساتھ ملکرامریکہ اور دیگر کے خلاف لڑتے رہے اور پاکستان کے خلاف بھی اکا دکا کارروائیاں کرتے رہے۔ اگست 2021 میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو ان لوگوں کے لئے ایک اچھا موقع پیدا ہوا کیونکہ طالبان کے ساتھ ان کا تقریبا ً دس بیس سال کی رقابت رہی تھی ان کے ساتھ اکٹھے لڑے بھی تھے اور یہ طالبان کے ساتھ اکٹھے رہیں بھی ہیں اس لیے ان کو ایک پناہ ملی۔
افغانستان میں جب طالبان نے قطر میں دوھا ایگریمنٹ کیا تو اس میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پر موجود عسکریت پسند دوسرے ممالک کے خلاف کارروائیاں نہیں کرینگے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک طالبان نے القاعدہ، آئی ایم یو، اے ٹی آئی ایم وغیرہ کو دوسرے ملکوں کے خلاف کارروائیوں سے تقریبا ًرو کے رکھا ہے۔ چین، ازبکستان یا القاعدہ جن کا ٹارگٹ امریکہ ہے کہیں پر بھی انہوں نے ابھی تک حملہ نہیں کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ افغانستان کی سرزمین سے کہیں پر بھی کاروائیاں نہ کریں لیکن ٹی ٹی پی کے جو عسکریت پسند ہیں وہ مسلسل جب سے طالبان آئے ہیں پاکستان میں کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور یہ ایک عجیب صورتحال ہے ۔
دوسری طرف ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ایک اچھی پناہ گاہ ملی ہے اور وہاں پر کچھ علماء نے جو طالبان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں پاکستان کے خلاف فتویٰ دیا ہے کہ وہ یہاں پر کارروائیاں کر سکتے ہیں اور یہ بھی رپورٹس آئی ہے کہ افغانی لوگ ٹی ٹی پی کے ہمراہ کارروائیاں کرتے ہوئے پکڑے بھی گئے ہیں۔
ابھی صورتحال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان کی صورت حال دیکھ کر اپنا لائحہ عمل اور پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے۔ انہوں نے پشتون نیشنلزم اور پاکستان میں امریکہ مخالف جزبات کا سہارا لے کر اینٹی پنجاب اور پاکستان آرمی کے خلاف خصوصاً پشتون قبائلی افراد کو اپنے ساتھ ملایا اور ان کا جو نظریاتی ڈومین تھا اس سے ہٹ کر ایک الگ تنظیم کے طور پر خود کو متعارف کرایا۔ ساتھ ہی سیاست میں اس بیانیئے استعمال کیا جس کو زیادہ تر پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں استعمال کرتے ہیں۔
اگر جائزہ لیا جائے تو اس بات کا امکان ہے کہ آنے والے وقت یہ طالبان کے لیے یہ ان کی قوت ہوگی لیکن ابھی ساتھ ہی ساتھ خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اور ریاستی پالیسیوں کے خلاف عوام نے احتجاجی ریلیاں نکالی اور یہ اتنے زیادہ شدت سے نکلیں کہ یہاں پر اب ٹی ٹی پی کے لیے کاروائیاں مشکل ہوگی جبکہ ٹی ٹی پی کیخلاف عام لوگوں میں غم و غصہ کافی پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف تحریک طالبان نے جو اپنے بیانیئے میں تبدیلی لائی ہے اس سے ٹی ٹی پی کو یہاں ریکروٹمنٹ کے عمل میں مشکلات ہوگی اور زیادہ ترانحصار اب افغانوں پر ہوگا کیونکہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کاروائیاں وہاں کئی دہائیوں سے چل رہی ہیں تو وہاں سے ریکروٹمنٹ ممکن ہو سکتی ہے۔
ایسی صورت حال میں تحریک طالبان پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والا خطرہ نہیں ہے کیونکہ خیبر پختونخواہ میں سیکورٹی فورسز اور پولیس انکے خلاف ایک مؤثر نیٹ ورک بنایا ہوا ہے جس سے یہ بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ٹی ٹی پی ایک کمزور گروہ کے طور پر سامنے آئے گی اور پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔
اگرچہ پاک فوج ان کے خلاف سر گرم عمل ہے لیکن اس مسئلہ کو ایڈریس کرنے کے لئے پاکستان میں سیاسی طور پر اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ میرے خیال میں ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ سیاسی قیادت اس پر توجہ دے اور ان کے خلاف ایک بیانیہ بنائے تاکہ ان کا جو مذہبی بیانیہ ہے اس کو کاؤنٹر کرسکیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ ایک مؤثر انداز سے اس مسئلے کو حل کرنا پڑے گا کیونکہ طالبان نے اگر آئی ایم یو، القاعدہ کوڈالیوٹ کیا ہے تو ٹی ٹی پی کو کیوں نہیں کرسکتے۔ پاکستان نے ماضی میں افغان طالبان کے حق میں بہت کچھ کیا ہے لہٰذا اب اس کا صلہ دینا تو بنتا ہے اور طالبان کو مطمئن کرنا پڑے گا اور ان کے خلاف اگر سخت اقدامات لینے پڑے تو لینے چاہیے۔
دوسری اہم بات جو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں ان میں بے شک ہم غصہ پایا جاتا ہے لیکن بالآخر ٹی ٹی پی کی جو لیڈرشپ ہے وہ پاکستانی ہیں اور پاکستان اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلنا چاہیے کیونکہ اگر انکے خلاف کاروائیوں سے موثر کامیابی تو پھر ایک دو سال بعد دوبارہ مذاکرات کی طرف آنا پڑے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کو ابھی سے ہی جاری رکھنا چاہیے۔
ٹی ٹی پی کے حوالے سے یہ بھی ایک بات ہے کہ آج انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی ختم کی ہے لیکن کئی مہینوں سے ان کی کاروائیاں اور حملے کر ہو رہے تھے اور بنوں لکی مروت میں ان کے خلاف کارروائی کو بہانا بنا یا گیا اور انہوں نے معاہدہ ختم کیا اس سے پہلے بھی پشاور اور اسکے گردونواح میں سیکورٹی فورسز ، پولیس اور سیاسی اہلکاروں پر ان کے حملے ہوتے رہے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر قوم کو متحد کرنا پڑے گا اور یہ کام ہمارے سیاسی اور مذہبی قیادت کا ہے۔
پشاور-صوابی موٹروےدھند کے باعث ٹریفک کے لیے بند
موٹروے M1, پشاور ٹال پلازہ سے صوابی تک دھند کے باعث ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی ہے ۔موٹروے پولیس نے عوام سے کہا ہے کہ دھند کے موسم میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔
گاڑیوں میں فوگ لائٹس کا استعمال کریں ۔ دھند کے موسم میں گاڑیوں میں درمیانی فاصلہ عام حالات کی نسبت زیادہ رکھیں ۔
سفر شروع کرنے سے پہلے موٹروے کی صورتحال اور دوران سفر مدد کی صورت میں ہیلپ لائن 130 سے مدد لی جا سکتی ہے۔
خیبر کرکٹ ٹورنامنٹ کا افتتاح کر دیا گیا
ضلع خیبر جمرود سپورٹس کمپلیکس پر پہلا ڈپٹی کمشنر خیبر کرکٹ ٹورنامنٹ کا افتتاح کر دیا گیا
ٹورنامنٹ کا افتتاح ڈی سی خیبر شاہ فہد نے کیا۔اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف نعمان، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فنانس حسیب الرحمن، اسسٹنٹ کمشنر جمرود شکیل احمد، اسسٹنٹ کمشنر باڑہ شہاب الدین، اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل ارشاد، علی مہمند ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر جمرود انجینئر ملک احسن طاہر، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر باڑہ ایمل خان،تحصیل چیئرمین جمرود الحاج سید نواب آفریدی، چیئرمین تحصیل باڑہ مفتی کفیل،چیئرمین تحصیل لنڈی کوتل شاہ خالد شینواری،ڈی ایس او خیبر ایوب خان،تحصیلدار تیمور آفریدی، تحصیلدار داود،تحصیلدار فہیم،تحصیلدار بلال خٹک،سمیت تمام محکموں کے افسران، قومی مشران،کھلاڑیوں اور طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ضلع خیبر میں 7 روزہ انسداد پولیو مہم، دفعہ 144 کا نفاذ
ضلع خیبر میں 7 روزہ انسداد پولیو مہم کے حوالے سے دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر خیبر شاہ فہد نے ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ اس سلسلے میں اعلامیہ نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے۔
ضلع خیبر میں سات روزہ پولیو مہم کے دوران دفعہ 144 کا نفاذ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری،گاڑیوں کے سیاہ شیشوں پر ہوگا۔غیر رجسٹرڈ موٹرسائیکل،ہوائی فائرنگ، اسلحہ کی نمائش، غیرمجاز/غیرقانونی اجتماع پر پابندی عائد.دفعہ 144 کا نفاذ 11 دسمبر تک ہوگا۔خلاف ورزی پر پولیس تعزیزات پاکستان کے سیکشن 188 کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائیگی۔ ضلعی پولیس سربراہ سمیت اسسٹنٹ کمشنر جمرود باڑہ اور لنڈیکوتل کو ضروری کارروائی کے لئے مراسلہ جاری کردیا گیا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں انسداد پولیو مہم کا آغاز
ڈیرہ اسماعیل خان:-ضلع بھر میں انسداد پولیو مہم کا آغاز سخت سیکیورٹی انتظامات۔ضلع کے داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ کے سخت انتظامات۔ڈسٹرکٹ پولیس افیسر محمدشعیب خان کی براہ راست نگرانی۔
ضلع بھر میں آج سے 05 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ڈسٹرکٹ پولیس افیسر محمدشعیب خان سیکیورٹی انتظامات کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔پولیو مہم کے دوران ضلع بھر کے تمام داخلی و خارجی راستوں پر ناکہ بندیاں جاری ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس افیسر نے پولیس افسران و جوانوں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ SDPOs ,SHOs اور انچارج چوکیات اپنے علاقہ اختیار میں پولیو مہم کے دوران جوانوں کی نگرانی کریں تاکہ ڈیوٹی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو ۔تمام جوان اپنی ڈیوٹی انتہائی خوش اسلوبی اور ایماندری سے سر انجام دیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔پولیو ورکز اور عوام کے ساتھ ہر ممکن تعاون اور دوستانہ ماحول استوار رکھیں.