آرمی پبلک سکول پر حملے کی خبر سے حقائق تک

آرمی پبلک سکول پر حملے کی خبر سے حقائق تک

تحریر: محمد رضا شاہ

16دسمبر پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہےجب ایک بار 16 دسمبر 1971 کو ملک دو لخت ہوا اور دوسری 16 دسمبر کو کتنی ماؤں کے لختِ جگر جُداہوئے،16 دسمبر 2014ء کو اے پی ایس کا وہ سانحہ رونما ہوا جس نے ایک عالم کو غم و الم میں مبتلا کردیا۔ حیوانیت اور درندگی کی یہ انتہا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی،اس سانحے میں 8 سے 18 سال کے پھول جیسے بچے بربریت کا نشانہ بنے، ان معصوموں کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے اس وقت اپنے ظلم کا نشانہ بنایا جب وہ اسکول میں حصولِ علم میں مشغول تھے۔ سانحے میں طلباء اور اسکول اسٹاف سمیت 141شہید جبکہ 121 بچے شدید زخمی ہوئے۔ اگرچہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے حملہ کردیا اور وہاں موجود 1000 سے زائد طلبہ اور اساتذہ کو یرغمال بنایا تاہم سیکورٹی فورسز نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت نکالا۔جوابی کارروائی میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی تھی جس پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔

دہشت گردوں کے خلاف کارروائی

11 فروری 2015ء کو پشاور اے پی ایس میں ملوث 12 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔حملے میں ملوث چھ دہشت گرد‘ جن میں عتیق الرحمن عرف عثمان ‘کفایت اللہ عرف کیف‘ قاری سبیل عرف یحییٰ آفریدی ‘ مجیب الرحمن عرف علی اور مولوی عبد السلام کمانڈر جوکہ حضرت علی کے نام سے جانا جاتا تھا ‘ کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا اور باقی چھ دہشت گردوں کو افغانستان سے گرفتار کیا گیا۔ اس حملے کی منصوبہ بندی ملا فضل اللہ نے کی تھی‘ اس کو معاونت کرنے میں ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپ ٹی ٹی پی سوات‘ طارق گیدڑ گروپ اور توحید و الجہاد شامل تھے ۔ اورنگزیب عرف عمر خلیفہ عرف نارائے نے اس حملے کی تیاری کی۔ مولوی عبد السلام عرف حضرت علی نے اس منصوبے کیلئے اخراجات مہیا کے اور سبیل عرف یحییٰ نے دہشت گردوں کو پشاور سکول پہنچایا۔مولوی عبد السلام عرف حضرت علی ‘سبیل اورمجیب کو دو دسمبر 2015 ء کو پھانسی دی گئی۔ رضوان کو 24 مئی2017 کو پھانسی دی گئی۔

نیشنل ایکشن پلان کی منظوری

سانحہ اے پی ایس کے بعد اس وقت کی حکومت نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نہ صرف قومی لائحۂ عمل ترتیب دیا تھا بلکہ دہشت گردوں کو سزائیں دلانے کے لیے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جب کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ پابندی بھی اٹھالی گئی تھی۔ آئین میں21 ویں ترمیم کی گئی اور نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد رکھی گئی۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت 60 سے زائد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا۔جبکہ بڑی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کیا گیا۔ حکام کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں 21 ہزار 500 سے زائد کارروائیاں کی گئیں۔ ان کارروائیوں میں 1300 عسکریت پسند ہلاک اور 800 زخمی ہوئے جب کہ 5500 کو گرفتار کیا گیا۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کے خلاف اقدامات

سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد پوری قوم نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے ساتھ مل کر ایک ایسے آپریشن کا آغاز کیا کہ جس کا ہدف ایک ایسا پاکستان تھا جہاں ریاست ہی کو طاقت کے استعمال کا حق حاصل ہو۔86 ہزار سے زائد قربانیوں کے نتیجے ہی آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں پاکستان کے انچ انچ پر ریاست کی عملداری ہے۔ یہ زیادہ دُور کی بات نہیں کہ جب2007 اور2008 میں قبائلی علاقوں میں ریاست کی عملداری نہیں تھی۔ آج قبائلی علاقے ریاست ِ پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی عملداری تمام علاقوں میں ہے۔یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ جوانوں نے دشمن اور اس کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے علاوہ زمینی اور موسمی مشکلات کی موجودگی کے باوجود مشن جاری رکھا۔ 500 سے زائد فوجیوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے لیکن آپریشن جاری رہا ۔ تاہم دہشت گردی کے خلاف اس کامیاب جنگ میں 46000 مربع کلو میٹر کا ایریا کلئیر کیا گیا، 18000 سے زائد دہشت گرد مارے گئے، 250 ٹن سے زائد بارود قبضے میں لیا گیا، 75000 اسلحہ ریکور کیا گیا کہ جو لاکھوں جانوں کے نقصان کا باعث ہو سکتا تھا۔ 50 بڑے آپریشن جب کہ ڈھائی لاکھ سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے اور 1200سے زائد چھوٹے اور بڑے آپریشن کئے گئے۔ ملک کے اندر جہاں آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشتگردوں کا خاتمہ کیا گیا وہیں سرحد پار سے دہشتگردون کی نقل و حرکت روکنے کے لیے 2611 کلو میٹر بارڈر فینسنگ کا بیڑہ اُٹھایا گیا۔

سانحہ کی جوڈیشل انکوائری

سپریم کورٹ کے حکم پر وفاقی حکومت نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی 525 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ پبلک کردی ہے۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد ابراہیم خان کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سیکیورٹی کی تین پرتیں جن میں گیٹ پر موجود گارڈز، علاقے میں پولیس گشت اور کوئیک رسپانس فورس کی دس منٹ کے فاصلے پر موجودگی اس دھویں کی طرف متوجہ ہو گئی جو منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا، نتیجتاً سکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک سکول سے ہٹ گئی اور دہشت گرد اسکول میں داخل ہو گئے۔ کمیشن رپورٹ کے مطابق دہشتگرد پاک فوج کو آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون سے روکنا چاہتے تھے، اگرچہ پاک فوج ضربِ عضب میں کامیاب رہی لیکن سانحہ اے پی ایس نے اس کامیابی کو داغدار کر دیا۔

جوڈیشل کمیشن نے یہ بھی کہا کہ افغانستان سے شدت پسند مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل ہوئے اور ان شدت پسندوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری کو کسی طور پر بھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔۔جب حملہ آوروں کے معاون گھر ہی موجود ہوں تو دُنیا کی کوئی طاقت حملے نہیں روک سکتی اور یہی بات بار ہا باور کرائی جاتی رہی ہے کہ جب تک سلیپر سیلز کی صور ت دہشت گردوں کی اندرونی معاونت کا سدِ باب نہیں کیا جاتا، دہشت گردوں کا خطرہ رہے گا۔ اس رپورٹ میں اے پی ایس کے واقعے کے بعد فوج کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں ملک میں دہشتگردی میں نمایاں طور پر بہتری کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن نے واضح طور پر سیکورٹی فورسز کو سانحہ کے متاثرین کی بھرپور دادرسی کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول، 15افسران کیخلاف کارروائی ہوئی، ملٹری رپورٹ

سانحہ آرمی پبلک اسکول کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ کے بعد فوج کے اندر بھی محکمانہ انکوائری کے نتیجے میں ان ذمہ داران کو جو مطلوبہ اقدامات اٹھانے سے قاصر رہے یا کوتاہی برتی ، پاک فوج کی جانب سے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے ایک بریگیڈیئر سمیت 15 افسران کےخلاف محکمانہ کارروائی ہوئی اور میجر سمیت 5 افسران کو برطرف کردیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز پاکستان کو ایک پرامن ملک بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں، ہمیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے، اور ہر اس کوشش کو ناکام بنانا ہوگا جس سے معاشرے میں انتشار اور بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہو، آیئے اپنے حصے کی شمع جلائیں۔

طورخم بارڈر پر پولیو ورکرز کااحتجاج ختم، پولیو مہم بحال

طورخم بارڈر پر پولیو ورکرز نے ضلعی انتظامیہ اور دیگر حکام کے ساتھ مزاکرات کے بعد احتجاج ختم کر دیا . بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے

طورخم بارڈر پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے پولیوں ورکرز نے گزشتہ روز اپنے مطالبات کے حق احتجاج کیا تھا جوکہ بعد میں ضلعی انتظامیہ حکام اور پولیو حکام نے مزاکرات کئے اور احتجاج کو ختم کر دیا. اور طورخم بارڈر پر بچوں کو پولیو کے قطرے پلا دئیے گئے ہیں. طورخم بارڈر پر ڈیوٹی کرنے والے اہلکاروں کی تین رکنی کمیٹی اپنے مطالبات اور مسائل کے حل کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر خیبر اور دیگر اعلیٰ حکام سے مزاکرات کریگی. طورخم بارڈر پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے اہلکاروں نے رابطے پر بتایا کہ مزاکرات ناکام ہونے اور مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ احتجاج کے لئے لائحہ عمل تیار کی جائے گا۔

783559ac-b04f-4dc8-8ba6-07b61e86458d

مردان: باچا خان میڈیکل کالج کا افتتاح کر دیا گیا

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا ضلع مردان کا دورہ ۔مردان دورے کے دوران وزیر اعلیٰ نے 1.8 ارب روپے لاگت سے مکمل ہونے والے باچا خان میڈیکل کالج کا افتتاح کیا۔
کالج 51 کنال رقبے پر قائم کیا گیاہے جس میں 1250 طلباء زیر تعلیم ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے 40 کروڑ روپے لاگت سے مکمل ہونے والے مردان میگا پارک کا افتتاح بھی کیا۔ 400 کنال رقبے پر قائم پارک میں واٹر سلائیڈز، چلڈرن پلے ایریا، الیکٹرانک ڈائینوسار اور دیگر سہولیات موجودہے۔
وزیر اعلیٰ نے سٹیز امپرومنٹ پراجیکٹ کے تحت متعدد ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔ 8.3 ارب کی لاگت سے ضلع مردان میں سیوریج سسٹم کی بحالی اور نئے ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کیئے جارہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر کہا کہ 3.8 ارب روپے کی لاگت سے ضلع میں انٹگرییٹڈ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم قائم کر رہے ہیں جبکہ 3.3 ارب کی لاگت سے 19 کلومیٹر کاٹلنگ تا چنگی روڈ کی ڈوالائیزیشن پر کام کا اجراء کر دیا ہے۔

ضلع مہمند :ونٹر سپورٹس فیسٹول اختتام پزیر

ضلعی انتظامیہ مہمند سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ضلع مہمند میں ونٹر سپورٹس اینڈ پرائیوٹ سکولز فیسٹول اختتام پزیر

اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی اسسٹنٹ کمشنر ہیڈکواٹر سجاد حسین آفریدی نے سپورٹس فیسٹول میں مختلف کھیلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیموں اور بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں میں ٹرافیاں اور نقد انعامات تقسیم کئے.

ضلع مہمند میں منعقد ہونے والے سکولز ونٹر سپورٹس فیسٹول کو دیکھنے کیلئے ضلع بھر سے بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی. اس موقع پر نوجوانوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے ایوینٹس کے انعقاد سے علاقہ میں صحت مند سرگرمیوں کو فروغ ملے گا. نوجوانوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی کاوشوں سے ضلع میں امن بحال ہونے کے بعد اس طرح کے کئ ایوینٹس کا انعقاد سال بھر جاری رہتا ہے. جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قبائلی امن پسند اور کھیلوں سے محبت کرنے والے لوگ ہیں.

میران شاہ میں خود کش حملہ اور فورسز کی کارروائیاں

میران شاہ میں خود کش حملہ اور فورسز کی کارروائیاں

عقیل یوسفزئی

شمالی وزیرستان کے مرکزی شہر میران شاہ میں فورسز کی ایک گاڑی پر ایک موٹر سائیکل سوار نے بدھ کے روز خود کش حملہ کیا جس کے نتیجے میں 30 سالہ حوالدار امیر محمد اور ایک شہری شہید ہوگئے جبکہ 4 سیکورٹی اہلکار اور 6 عام شہری زخمی ہوئے.
فورسز نے واقعہ کے بعد سرچ آپریشن شروع کردیا جبکہ علاقے کو محفوظ بنانے کیلئے بھی اقدامات شروع کئے گئے.
رواں برس یہ شمالی وزیرستان میں کرایا گیا چوتھا خود کش حملہ تھا. اس کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا گیا تھا جو کہ چند روز قبل کوئٹہ کے خودکش حملے میں اپنایا گیا تھا. دونوں حملے موٹر سائیکل سواروں کے زریعے کرائے گئے اور دونوں میں فورسز ہی کو نشانہ بنایا گیا.
چونکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان پاک افغان سرحد پر واقع ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد دوسری جانب موجود ہیں اس لیے یہاں حملے کرنا ان کے لیے آسان ٹاسک ہوتا ہے.
دہشتگردی کی حالیہ لہر میں ذیادہ تر حملے فوج اور پولیس پر کیے جارہے ہیں اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق رواں سال 75 فوجی جوانوں اور افسران کو شہید کیا جا چکا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حملہ آوروں نے فورسز ہی کو اپنا پہلا ٹارگٹ قرار دے رکھا ہے.
اگر چہ ہفتہ رفتہ کے دوران فورسز نے متعدد علاقوں میں ٹارگیٹڈ آپریشنز کےدوران تقریباً ایک درجن دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے اس کے باوجود جنگ جاری ہے اور پاکستان کے ان علاقوں کے علاوہ رواں مہینے افغانستان میں بھی حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے.
نامور تجزیہ کار نجم سیٹھی کے مطابق مذاکرات کا جو عمل شروع کیا گیا تھا وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں. ان کے مطابق افغانستان کی حکومت اپنی مجبوریوں اور داعش وغیرہ کے پیدا کردہ مسائل کے باعث خود مشکلات کا سامنا کررہی ہے تاہم پاکستانی ریاست کو اب اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کرنی پڑے گی کیونکہ جاری صورتحال سے نہ صرف سیکورٹی کے مسائل بڑھ رہے ہیں بلکہ اس سے ہماری معاشی اور تجارتی مشکلات میں بھی اضافہ ہورہا ہے.
نامور مذہبی سکالر محمد اسرار مدنی کے مطابق پاکستان نے طالبان حکومت کے قیام کے بعد نہ صرف 5 لاکھ سے زائد متاثرین کو پناہ دی اور روزانہ تقریباً 1500 افغانوں کو ویزے جاری کررہا ہے بلکہ ان کے سینکڑوں سٹوڈنٹس کو تعلیمی سہولیات بھی فراہم کر رہا ہے تاہم لگ یہ رہا ہے افغانستان میں ہمارے کردار کا اعتراف نہیں کیا جارہا. ان کے مطابق کشیدگی کم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ایک واضح افغان پالیسی اختیار کی جائے اور معاملات کو بہتر بنانے کے لیے مذہبی اور ثقافتی ڈپلومیسی کا آغاز کیا جائے.
پختون خوا کے سابق ہوم سیکرٹری سید اختر علی شاہ نے رابطے پر بتایا کہ پاکستان ایک جدید اور طاقتور ملک ہے اور صورتحال پر قابو پانا اس کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لے کر نیا سیکورٹی پلان تشکیل دیا جائے اور گورننس کے مسائل پر توجہ دی جائے. ان کے مطابق ہمیں اب نہ صرف یہ کہ بیڈ اور گڈ طالبان کی تھیوری سے نکلنا ہوگا بلکہ جو توقعات ہم نے افغانستان کی موجودہ حکومت سے وابستہ کی تھیں اس پر بھی نظر ثانی کرنا پڑے گی۔