افغانستان ڈالر سمگل کرنے کی کوشش ناکام

پشاور: کسٹم حکام کی طورخم بارڈر، انگوراڈا اور پشاور باچاخان انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر کاروائیاں

کسٹم عملہ نے انگور اڈا پر 5700 کلو گرام یوریا، سیفٹی فیوز کیبل کے 20 بیگس اور 2300 کلو گرام استعمال شدہ کپڑا قبضے میں لے لیا۔

دوسری طرف پشاور باچاخان انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مٹہ سوات کے رہائشی سے 55500 سعودی ریال برآمد کر لیے گئے۔

اسی طرح کسٹم سٹاف نے طورخم بارڈر پر خیبر ایجنسی کے رہائشی کے قبضے سے 5000 امریکی ڈالر برآمد کر لئے جس کو افغانستان لے جایا جا رہا تھا۔

ملالہ یوسفزئی سے قومی ویمن کرکٹرز کی ملاقات

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سے قومی ویمن کرکٹرز کی ملاقات کی۔

انگلینڈ روانگی سے قبل ملالہ یوسفزئی سے قومی ویمن کرکٹرز نے ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران ملالہ یوسفزئی کے شوہر عصر ملک بھی موجود تھے۔

پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی سدرا امین ، ڈیانا بیگ اور طوبی حسن موجود تھیں۔ انڈر 19 کرکٹ ٹیم کی ایمان فاطمہ اور شوال ذوالفقار مینجر عائشہ جلیل کے ہمراہ شامل ہوئیں۔

ویمن کرکٹرز نے ملالہ یوسفزئی کو دستخط شدہ شرٹ پیش کی

a2a5ecbc-c57a-47d3-937c-9eb73ab12166

کوہاٹ: پیغام پاکستان سپورٹس گالہ


کوہاٹ: ضلعی انتظامیہ کوہاٹ کی جانب سے پیغام پاکستان کے حوالہ سے سپورٹس کمپلیکس میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں یوتھ جمناسٹک شو، سکاؤٹس شو، حلقہ وائز فٹ بال فائینل میچ اور سکول کے طلباء نے پاک آرمی کی یونیفارم پہن کر پریڈ مارچ کا زبردست مظاہرہ پیش کیا۔

اس پروگرام میں ایم پی اے ضیاء اللہ بنگش نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس کے علاوہ کوہاٹ کے عوام، نوجوانوں سمیت سکول کے طلباء نے بھر پور شرکت کی اور پوری قوم کو اپنی پاک فوج سے محبت، آپسمیں رواداری، اتفاق واتحاد کا پیغام دیا

APS

Remembering APS

16th December was already a dark day in our history and its darkness further increased on the same day in 2014, 8 years back, when 148 people, including 132 children from APS Peshawar lost their lives in what can be described as the most ruthless and brutal terror attack during the last 20 years of war against terror.

The incident was a wake up call for Pakistan.  Op Zarb e Azb was launched to root out the menace of terrorism from Pakistani soil. Thousands of terrorists were killed while many of them, including top leadership of militant groups  shifted across the border in Afghanistan. Till date, the terrorists continue their war against the Pakistan Army in Afghanistan. Sniper attack on Pakistani check posts on Afghan border,

The National Action Plan (NAP) was adopted only after this tragic incident. It outlined many areas for both the federal government and Pakistani security institutions to work on. The Pakistan Army initiated multiple operations and reform activities to meet the requirements of NAP. The response from the civilian side was not very quick. For example, Pakistan took many years to reconfigure its banking system to deny terrorists easy financing facilities. Pakistan had to spend many years on FATF’s gray list and its removal from that list was only possible due to the Pakistan Army’s active participation in this process of streamlining the local banking system as per the requirements of international standards set by the global watchdog. Similarly, there were few points about addressing the spread of extremism in NAP which hitherto remain unfulfilled.

Thousands of Pakistan Army officers and Jawans have laid down their lives in this prolonged, ruthless, low-intensity conflict. Pakistan’s traditional foe continued to stir violence in Pakistan with the collusion of Afghan security forces, intel apparatus and local sleeper cells in Pakistan. Pakistan presented proof of Indian involvement in violent activities in Pakistan, including the money trail flowing from Indian banks to terrorists’ accounts through international banking channels. The selection of date for APS attack was no coincidence. The Pakistani nation already had bitter memories of 16th December 1971 and every year this day reminds us of our greatest national tragedy. In 2014, the attack on APS Peshawar the nation was wounded even deeper.

It’s of the utmost importance that the youth of Pakistan must feel secure within their homeland and to achieve that, both the state and people of Pakistan will have to stand behind its gallant security forces. Our enemies are after this unique bond of love and appreciation between the people of Pakistan and their armed forces. This is a constant struggle as, in the age of digital media and fake news paddling on it, many might fall victim to this lethal combination of modern hybrid warfare which Pakistan has been fighting for many years now. We must never forget 16 December 2014 and the best way to achieve that is to deny the enemy any success on the propaganda front.

 

 

 

ab543c9a-c272-4a47-a858-0ee0dea06b76

سولہ (16)دسمبر 2014 کی تلخ یادیں، نیشنل ایکشن پلان اور موجودہ صورتحال

16 دسمبر 2014 کی تلخ یادیں، نیشنل ایکشن پلان اور موجودہ صورتحال

عقیل یوسفزئی

پاکستان تو کیا دنیا بھر میں 16 دسمبر کا دن آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے باعث لمبی مدت تک یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس روز 140 سے ذائد طلباء، ٹیچرز اور دیگر سٹاف ممبرز کو انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کیا گیا تھا. کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ معصوم بچوں کو اس طریقے سے نشانہ بنایا جائے گا. شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ 8 سال گزرنے کے باوجود اس سانحہ کی تلخ یادیں اور زخم اب بھی تازہ ہیں.

اگرچہ موقع پر موجود حملہ آوروں اور بعد میں ان کے منصوبہ سازوں کو لقمہ اجل بنایا گیا اور اس واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی منظوری عمل میں لائی گئی تاہم واقعے کی شدت اور تکلیف کم نہیں ہوئی. نیشنل ایکشن پلان کے تحت درجن بھر فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا، ہزاروں حملہ آور مارے گئے تو ہزاروں گرفتار کیے گئے جبکہ واقعہ کی روک تھام میں ناکامی پر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی گئی اور رپورٹ پبلک کی گئی اس کے باوجود جب بھی یہ دن آتا ہے عوام کی تلخ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں.
ناین الیون کے بعد پاکستان کو تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑا. 2002 کو ہزاروں افراد سرحد پار کر کے قبائلی علاقوں میں گھس آئے جن کے خلاف المیزان سمیت متعدد بڑے آپریشن کئے گئے.
دوسری لہر اس وقت اٹھی جب 2007 میں تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی اور اس نے سینکڑوں حملے کئے جس سے نمٹنے کیلئے آپریشن راہ راست اور ردالفساد جیسی فوجی کارروائیاں کی گئیں.
تیسری لہر کا آغاز اگست 2021 کے بعد افغانستان میں طالبان کا کنٹرول سنبھالنے اور داعش کی سرگرمیوں کے بعد شروع ہوئی جو کہ اب تک جاری ہے.
دستیاب ڈیٹا کے مطابق گزشتہ ایک سال کے عرصے میں پاکستان کو جہاں 260 بار حملوں کا نشانہ بنایا گیا وہاں تقریباً 70 بار افغانستان سے ہمارے سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا. رواں سال تقریباً 80 فوجی جوانوں سمیت پختون خوا پولیس کے 115 اہلکاروں کو شہید کر دیا گیا جبکہ صرف شمالی وزیرستان کو 8 بار خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا.
ہفتہ رفتہ کے دوران 2 بار چمن کراسنگ پوائنٹ اور اس کے نواحی علاقوں کو افغانستان نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تقریباً 10 شہری شہید اور 2 درجن زخمی ہوگئے ہیں.
اس برس داعش نے بھی پاکستان میں متعدد حملے کئے جبکہ فورسز نے بھی درجنوں کامیاب آپریشن کرکے جہاں سینکڑوں حملہ آوروں کو مارا وہاں متعدد حملے ناکام بھی بنائے.
تلخ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر فوج نے تو عملدرآمد کیا تاہم سیاسی اور عوامی کردار ادا کرنے سے متعلق نکات پر اس طرح عمل نہیں ہوا جسکی ضرورت تھی.
موجودہ لہر کو نظر انداز اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ اب حملوں کا معاملہ صرف ٹی ٹی پی تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ داعش، القاعدہ اور عالمی پراکسیز سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے. دوسری طرف پاکستان کو اندرونی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا بھی سامنا ہے.
اس تمام صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات کو قومی چیلنج اور مسئلہ سمجھ کر نمٹایا جائے اور اس بنیادی مسئلہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے. ایسا اس لیے لازمی ہے کہ خدانخواستہ پھر سے ہمیں 16 دسمبر 2014 جیسے کسی سانحے سے دوچار نہ ہونا پڑے اور ہماری نئی نسل کو یہ تسلی اور اطمینان ہو کہ ہم ان کے تحفظ کا نہ صرف یہ کہ ادراک اور احساس رکھتے ہیں بلکہ چیلنجز سے نکلنے کی صلاحیت، طاقت بھی رکھتے ہیں.