a02ecdfe-7fa3-4541-905e-582bc40336b9

سیکیورٹی سے متعلق دو اہم اجلاسوں کا انعقاد

سیکیورٹی سے متعلق دو اہم اجلاسوں کا انعقاد

عقیل یوسفزئی

پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی زیرصدارت ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس کے دوران ملک میں دہشت گردی کے واقعات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس عزم کا کھل کر اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے تمام درکار اقدامات کئے جائیں گے. یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تمام تر چیلنجز کا ازسر نو جائزہ لے کر امن کے قیام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا. میڈیا رپورٹس کے مطابق کور کمانڈر کانفرنس میں پاک افغان تعلقات اور بعض درپیش سرحدی معاملات سے متعلق بھی فیصلے کئے گئے. اس سے قبل ہفتہ رفتہ کے دوران جب آرمی چیف اور کور کمانڈر پشاور شمالی وزیرستان کے دورہ پر گئے تو آرمی چیف نے وہاں بھی اسی قسم کے عزم کا اظہار کیا ہوا تھا.
یہ بات خوش آئند ہے کہ عسکری قیادت کو درپیش چیلنجز کا پورا ادراک ہے اور عملی طور پر اقدامات کئے جارہے ہیں. اگر چہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا رسپانس اس سطح کا نہیں ہے جو کہ ہونا چاہیے تاہم عسکری قیادت نے سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھ کر اپنی تمام توجہ سیکورٹی معاملات پر مرکوز کررکھی ہے جو کہ ایک اطمینان بخش عمل اور ذمہ دارانہ رویہ ہے.
جس دن کورکمانڈر کانفرنس منعقد ہوئی اسی روز پختون خوا کابینہ کا اجلاس وزیر اعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت پشاور میں منعقد ہوا جس کا مقصد صوبے میں دہشت گردی کے واقعات اور عملی اقدامات کا جائزہ لینا تھا. اجلاس میں متعلقہ حکام بھی شریک ہوئے جنہوں نے کابینہ کو تفصیلات فراہم کیں اور تجاویز پیش کیں.
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی اور وسائل کی کمی کے باوجود صوبائی حکومت امن و امان کی بحالی کو ترجیحات میں شامل رکھے گی.
تلخ حقیقت یہ ہے کہ رواں برس دہشت گردی نے ایک بار پھر ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کی ہے. پختون خوا کے بعد بلوچستان میں ریکارڈ حملے کئے گئے اور اس قسم کی اطلاعات بھی آتی رہی کہ وہاں پر بعض بلوچ قوم پرستوں نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مشترکہ کارروائیوں پر اتفاق رائے کرکے اتحاد بنایا ہے.
مثال کے طور پر اگر ایک طرف رواں برس خیبر پختون خوا کو تقریباً 150 حملوں کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری طرف بلوچستان میں 2020 کے مقابلے میں دہشت گرد حملوں میں 150 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا.
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2020 کے دوران بلوچستان میں 23 حملے کئے گئے تھے تاہم 2021 کے دوران اس میں 13 فی صد اضافہ ہوا جبکہ رواں سال یعنی 2022 میں بلوچستان کو تقریباً 171 حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور پاک افغان بارڈر پر افغان فورسز نے بھی متعدد بار جارحانہ قسم کے حملے کئے.
بلوچستان کی صورتحال مختلف الخیال عسکری تنظیموں کے پس منظر میں ذیادہ پیچیدہ ہے اور گوادر پورٹ کے علاوہ سی پیک کی اہمیت کے تناظر میں بھی اس کی اہمیت ذیادہ ہے.
اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے نے پنجاب اور سندھ کے شہروں کا رسک بھی بڑھایا ہے اس لیے لازمی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ایک پیج پر آجائیں اور عوام کی مدد سے ایک جامع پالیسی وضع کی جائے تاکہ 2023 کو پرامن بنایا جاسکے.

FYHtZHgXgAEI5GR

ٹرانس پشاور سال 2022 کے لیئے بی آر ٹی زو پشاور کی سالانہ رپورٹ جاری

ٹرانس پشاور سال 2022 کے لیئے بی آر ٹی زو پشاور کی سالانہ رپورٹ جاری کردی۔

رپورٹ کے مطابق 2022 کے دوران 74 ملین مسافروں نے زو پشاور پر سفر کیا پچھلے سال کے مقابلے میں مسافروں کی تعداد میں 45% کا اضافہ دیکھا گیا جن میں خواتین مسافروں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوا ۔

روزانہ کی بنیاد پر مسافروں کی تعداد 2 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ جس میں تقریباً 70,000 خواتین ہیں۔ 2022 میں زو پشاور کی گوگل میپس کے ساتھ اینٹیگریشن مکمل ہوئی اور  4 لاکھ سے زائد زو کارڈ فروخت کئے گئے۔ 

ہاسپٹل چوک سے کوہاٹ اڈہ تک، ایک نئے ایکپریس روٹ (ER 10) کا اجراء کیا گیا جبکہ پانچ مزید روٹس پر کام جاری ہے، جو 2023 کے اوائل میں فعال ہونا شروع ہو جائیں گے۔ 62 نئی بسیں منگوائی گئیں، جو جلد سسٹم میں شامل کر دی جائیں گی۔ زو بایئسائکل شیرنگ سسٹم پر 2400 سے زائد نئی ریجسٹریشنز ہوئیں جو پچھلے سال سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ ترجمان ٹرانس پشاور کے مطابق بائیسائیکل کی رجسٹریشن فیس میں 2000 روپے کی کمی کی گئی۔

2022 میں بی آر ٹی پشاور کو چار عالمی ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ زو پشاور کو Gold Standard Award ، Sustainable Transport Award, ، ورلڈ پرائز فار سیٹیز ایوارڈ اورBest Smart Ticketing System کے ایوارڈ ملے۔ 

ہیلپ لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے زریعے تقریباً 6000 شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ مسافروں کی سہولت کے لئے 21 سٹیشنوں پر ٹک شاپس کا قیام۔ 

یونیورسٹی آف پشاور اور مال آف حیات آباد سٹیشن پر ATM سروس کا اجراء۔زو موبائل ایپ کو, easypaisa or jazzcash کے ذریعے ریچارج کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ۔ 

زو موبائل ایپ سے اب مسافر زو کارڈ کا بیلنس چیک کر سکتے ہیں۔ بس انڈسٹری ریسٹرکچرنگ پروگرام کے تحت 500 سے زائد پرانی بسوں اور ویگنوں کو سکریپ کیا گیا ۔ رواں سال 350 ملین مالیت کے Non-fare Revenues کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ 

98abb572-8cf4-4bf3-a8f9-83efbb8f90c8

خیبرپختونخوا حکومت کا ای-اسٹامپ پیپر کا اجراء

خیبرپختونخوا حکومت کا ای-گورننس کی جانب اک اور قدم

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایات کی روشنی میں صوبائی دارلحکومت پشاور میں ای-اسٹامپ پیپر کا اجراء۔ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان نے آج باقاعدہ افتتاح کردیا۔ اس موقع پر انتظامی افسران، ریونیو افسران اور نیشنل بینک کے افسران بھی موجود تھے۔

ڈپٹی کمشنر پشاور نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ای-اسٹامپ پیپر کے اجراء سے پرانی تاریخوں میں سٹامپ پیپر کا اجراء بند ہو جائے گا اور جائیداد کی خرید وفروخت کے تنازعات کاتدارک ممکن ہوگا جس سے جائیداد کی صحیح قیمت کے تعین کے ساتھ جعل سازی و دھوکہ دہی کا خاتمہ بھی ممکن ہو گا۔اور ہر ایک ای۔سٹامپ پیپر کو ایک یونیک بار کوڈ دیا جائے گا جس سے اس ای سٹامپ پیپر کی آن لائن تصدیق کی جا سکے گی۔

انھوں نے کہا کہ پرانے مینول سٹامپ پیپر سے ای۔سٹامپ پیپر ایک انقلابی اقدام ہے اور اس سے عوام کو سہولیات میسر ہو سکیں گی اور عوام خود ہی ویب سائیٹ پر جا کر ای۔سٹامپ پیپر کی وصولی کا فارم پر کر کے آسانی سے ای۔سٹامپ پیپر حاصل کر سکے گی۔ انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت عوام کو ان کے دہلیز پر خدمات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور ضلع پشاور کے عوام ای سٹامپ ویب سائٹ www.estamp.kp.gov.pk سے حاصل کر سکتے ہیں۔

Raaain

پشاور،گردونواع میں دسمبر کی پہلی بارش

پشاور اور گردونواع میں دسمبر کی پہلی بارش برسنے لگی۔

بوندا باندی شروع ہو تے ہی شہر کا موسم مزید سرد ہوگا۔ گز شتہ کئی دنوں نے شہر میں شدید دھند کا راج تھا آج پشاور میں بارش کے باعث دھند  چھٹ گئی ۔

محکمہ موسمیات کے  مطابق پشاور سمیت خیبر پختونخواہ میں بارش دودن تک جار ی رہنے کا امکان ہے۔پشاور شہر کادرجہ حررات کم سے کم 9سینٹی گریڈ جبکہ زیادہ سے زیادہ 12سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ۔

خیبر پختونخوا کے بالا ئی علا قوں میں بارشوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں پر برف باری کا سلسلہ جار ی رہے گا۔ 

278180424_354507190024440_3089407363266532923_n

محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا نے تیار پریکٹیکل نوٹس بکس پر پابندی لگادی

محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا نے تیار پریکٹیکل نوٹس بکس پر پابندی لگادی

 اس حوالے سے تمام ڈپٹی کمشنر کو مراسلہ ارسال کردیا گیا ہے۔  مراسلے میں کہاگیا ہے کہ 

تیار پریکٹیکل نوٹ بکس سے طلبہ عملے طور سیکھنے سے محروم ہوتے ہیں۔  مراسلے کے متن کے مطابق جماعت نہم،دہم،گیارویں اور بارویں جماعت کے تیار پریکٹیکل پر پابندی ہوگی۔طلبہ  لیب میں عملی طور پر پڑھ کر اپنے نوٹس تیار کرینگے۔

 مزید کہا گیا ہے کہ  تیار پریکٹیکل بکس فروخت کرنے والے دوکانداروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ 

AYYLFZEYXJIZJA4MPWQR6UKPZE1661785693-0

موسم سرما اور سیلاب متاثرین

پاکستان میں اس سال موسمی تبدیلیوں اور مون سون کی بارشوں کی وجہ سے تاریخی سیلاب آئے جن سے پورا ملک بالعموم اور صوبہ خیبر پختونخواہ بالخصوص متاثر ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کی قدرتی آفت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔صوبہ سندھ، پنجاب اورخیبر پختونخوا کے وسیع علاقوں میں سیلاب  کے ریلے  لوگوں کے گھر باراور انکی زندگی بھرکی کمائی سب کو بہا کر لے گئے۔

 موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی ان بے حال سیلاب متاثرین کی مشکلات میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک طرف سیلاب متاثرین کومناسب رہائش، ادویات اور غذائی قلت جیسے مصائب کا سامنا ہے تو دوسری جانب شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا بھی ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ سردی کے شدید موسم میں بیماریوں اور طبی آفات ایک عام سی چیز ہے۔ مچھر اور دیگر موذی حشرات الارض بھی کم درجہ حرارت میں نمو پاتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ تو پہلے ہی ڈینگی کی خطرناک زد میں ہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ وہاں سے ابھی تک سیلابی پانی کا اخراج نہ ہونا ہے۔ یہ صورتحال سندھ اور پنجاب میں بہت شدت کے ساتھ لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں ذرائع آمدورفت اور سڑکوں کی مکمل بحالی نہ ہو پانا ان سیلاب متاثرین کے لیے اس شدید سرد موسم کی مشکلات کو دو چند کر رہا ہے۔

اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ خواتین و بچے ہیں۔ موسم سرما کے دوران سیلاب سے متاثرہ خواتین کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان میں سب سے نمایاں صحت کے مسائل ہیں۔  گزشتہ کئی مہینوں سے کھڑے پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اسی طرح حاملہ خواتین اور نومولود بچے  سیلاب کے بعد موسم سرما میں سب سے زیادہ  متاثر ہو سکتے ہیں۔

دیگر بہت سے مسائل کی طرح ان لوگوں کے لیے بیت الخلا کی کمی سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، جو سب کی صحت کے لیے خطرہ ہے۔ بہت ست متاثرین ابھی تک خیمے میں آباد ہیں  جہآں  خواتین اور مرد  ایک ساتھ رہتے ہیں۔ بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے اس صورتحال میں خواتین کے لیے بہت دقت ہوتی ہے۔

اسی طرح حا ملہ خواتین کے لیے مناسب خوراک کی کمی ایک انتہائی گھمبیر مسئلہ ہے۔ خواتین حمل کے دوران مناسب خوراک نا ملنے کی وجہ سے  کمزوری کا شکار ہو رہی ہیں جو آگے چل کر ماں اور بچہ دونوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں عالمی اداروں نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہےاور حکومتوں سے اس جانب توجہ دینے کا کہا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سیلاب متاثرین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں حاملہ خواتین اور بچے خطرے میں ہیں جنہیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہےلیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔؟ ادویات کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔حکومتی اور فلاہی اداروں نے کوشش تو کی لیکن آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں نہ تو حکومتی نمائندگان اور نہ ہی فلاہی امدادی تنظیمیں پہنچ سکیں۔

پاکستان کے اس وقت کی سیاسی صورتحال بذات خود سیلاب متاثرین کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ جہاں ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک ساتھ ملکر اس صورتحال میں سیلاب متاثرین کے لیے سامنے آتیں، بدقسمتی سے اس اہم مسئلے پر بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی، بہتان اور سیاسی مخالفت ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ شروع کے دنوں میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس اہم مسئلے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی مگر پھر سب کچھ پس منظر میں چلا گیا۔ اس صورتحال میں پاک فوج کے افسران و جوان دن رات ان متاثرین کے لیے بنیادی ضروریات زندگی کی ترسیل میں مصروف ہیں۔ میڈیا میں بھی اس سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں پر پہلے والا جوش و خروش نہیں دیکھنے کو ملتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، صا حب حیثیت لوگ، اور فلاحی ادارے ملکر سیلاب متاثرین کے لیے مربوط منصوبہ بندی سے کام کریں تاکہ ان کو جلد از جلد اپنے گھروں میں باعزت طریقے سے پھر سے آباد کیا جا سکے۔