ایک اور فوجی آپریشن کی تیاریاں؟

ایک اور فوجی آپریشن کی تیاریاں؟
عقیل یوسفزئی

سیکیورٹی حکام اور میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ایک فل سکیل فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ دہشت گردی کی جاری لہر پر قابو پایا جائے.
رپورٹس کے مطابق سول حکومت اور ملٹری حکام کے درمیان مجوزہ آپریشن پر مشاورت مکمل ہوگئی ہے اور امکان ہے کہ عید کے فوراً بعد بعض شورش زدہ علاقوں میں باقاعدہ کارروائیوں کا آغاز کیا جائے. دوسری طرف ہفتہ رفتہ کے دوران وزیرستان ،باجوڑ، ملاکنڈ اور بعض دیگر علاقوں میں فورسز نے کامیاب کارروائیاں کرتے ہوئے متعدد عسکریت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا. رپورٹس کے مطابق مجوزہ آپریشن ٹارگٹڈ بیسڈ کارروائیوں پر مشتمل ہوگی اور کوشش کی جائے گی کہ ماضی کی طرح متعلقہ علاقوں میں نقل مکانی کی نوبت نہیں آنے دی جائے.
اگرچہ بعض سیاسی اور عوامی حلقے ممکنہ آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغان حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو قابو کرنے میں ناکامی یا معذرت کے بعد ریاست کے پاس جامع کارروائی کے بغیر دوسرا آپشن باقی نہیں رہا ہے.
تحریک طالبان پاکستان نے حال ہی میں جو تفصیلات جاری کی ہیں اس کے مطابق گزشتہ 3 مہینوں کے دوران ملک خصوصاً خیبر پختون خوا کے ایک درجن سے زائد علاقوں میں 117 حملے کئے گئے ہیں. 97 فی صد حملے پولیس، سی ٹی ڈی، ایف سی اور پاک فوج پر کیے گئے ہیں. ان حالات پر مذید خاموش رہنا ریاست کے لیے ممکن نہیں رہا ہے.
سینئر صحافی ناصر داوڑ کے مطابق وزیرستان اور متعدد دوسرے اضلاع میں حالات تیزی سے بگڑ تے جارہے ہیں اور عوام کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے. ایسے میں حکومت کے پاس موثر اقدامات کے بغیر دوسرا آپشن باقی نہیں رہا ہے.
باخبر نوجوان صحافی ارشد یوسفزئی کے مطابق 2022 سے حملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملتا آرہا ہے اور فورسز خصوصاً پولیس پر حملوں نے کافی تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے. ان کے بقول بعض سیاسی اور عوامی حلقوں کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں عوام کافی متاثر ہوئے ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کے پاس اور کونسے آپشنز باقی رہ گئے ہیں.
تجربہ کار سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دو تین اجلاسوں میں تمام تر امکانات اور تحفظات پر کھل کر بحث کی گئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض اہم اقدامات پر بتدریج کام کا آغاز کیا بھی جاچکا ہے.