مستقل قیام امن کی کوششوں میں تیزی
عقیل یوسفزئی
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے سال 2023 کے ماہ اپریل میں صوبہ پختون خوا کے تقریباً 8 اضلاع میں 136 اننٹلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جس کے نتیجے میں 46 حملہ آور اور دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ 306 کو گرفتار کرلیا گیا.
جن شہروں یا علاقوں میں اپریل کے مہینے کے دوران فورسز نے کارروائیاں کیں ان میں شمالی، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، لکی مروت، بنوں، خیبر، پشاور، سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں. عید کے بعد دو طرفہ حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے تاہم فورسز کی کارروائیاں نہ صرف بڑھ گئیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں تیزی بھی پیدا ہوتی رہی.
اس سے قبل ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوری 2023 سے اپریل کے مہینے تک ملک میں ہونے والے 434 حملوں اور واقعات کے ردعمل میں 1535 حملہ آوروں کو ہلاک یا گرفتار کیا گیا جبکہ ان تین چار مہینوں میں حملہ آور گروپوں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان نے 293 پاکستانیوں کو شہید کیا جن میں فورسز کے افسران اور جوانوں کی شہادتوں کی تعداد 137 رہی جبکہ 150 مختلف حملوں میں زخمی ہوگئے.
دوسری طرف خیبر پختون خوا پولیس نے 31 اپریل کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ یکم جنوری سے 30 اپریل پر مشتمل 4 مہینوں کے دوران کے پی پولیس پر 77 حملے کئے گئے. ان حملوں کے نتیجے میں 120 پولیس افسران اور اہلکار شہید ہوگئے جبکہ 333 زخمی ہوگئے.
رپورٹ کے مطابق پولیس پر سب سے زیادہ حملے بنوں میں کیے گئے. جن دوسرے شہروں اور علاقوں میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا ان میں پشاور، مردان، ملاکنڈ، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور خیبر شامل رہے.
دریں اثناء ایک اہم اقدام کے طور پر اپریل 2023 کے آخر میں فرنٹیئر کور نارتھ نے 6367 پولیس اہلکاروں کی ٹریننگ مکمل کرلی. جن علاقوں کے پولیس اہلکاروں کو تربیت دی گئی ان میں باجوڑ، مہمند، سوات، دیر، اور چترال شامل رہے. اس دوران ان علاقوں میں تقریباً 46 چیک پوسٹیں بھی قائم کی گئیں جبکہ ان کو جدید ہتھیار اور سہولیات بھی فراہم کی گئی. اس پراجیکٹ پر سرکاری حکام اور میڈیا رپورٹس کے مطابق 1690 ملین روپے خرچ کئے گئے.
2023 کے دوران ریاستی پالیسی اور نیشنل سیکورٹی کمیٹیوں کے فیصلوں کے تحت کے پی پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف سی کو نہ صرف سہولیات فراہم کی گئی بلکہ ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی گئی.
تجزیہ کاروں کے مطابق سال 2002 اور 2023 پاکستان کی سیکیورٹی کے لئے کٹھن برس ثابت ہوئے اور ملک بالخصوص خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حملوں کی تعداد میں بوجوہ خطرناک اضافہ دیکھا گیا تاہم قیام امن کیلئے فورسز کے اقدامات اور کارروائیاں بھی بڑھتی گئیں. ان کارروائیوں میں اس وقت غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جب 2022 کے آخر میں پاکستان آرمی کی کمان میں تبدیلی کا عمل مکمل ہوا اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے نئے آرمی چیف کا چارج سنبھال کر قومی قیادت کی مشاورت سے بدلتے حالات کے تناظر میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے شروع کئے.یکم جنوری 2023 کو پولیس لائن پشاور پر ہونے والے حملے کے دوران جب 100 کے لگ بھگ پاکستانی شہید ہوگئے تو اگلے روز پشاور ہی میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا ایک نمائندہ اور ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے علاوہ مجوزہ مذاکراتی عمل کے مکمل خاتمے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا. اس کے بعد دہشتگردی اور قیام امن کے مختلف معاملات پر اپریل 2023 تک قومی سلامتی کمیٹی کے تقریباً چار پانچ اجلاس ہوا بلکہ 2 بار پارلیمنٹ کو ان کیمرہ بریفنگ بھی دی گئی اور ایک موثر لائحہ عمل تیار کیا گیا تاکہ پاکستان کو درپیش سیکورٹی چیلنجز سے نمٹا جائے.